طنز و مزاحمضامین

چَین کس کو ہے،یہاں پر شاد کون!

نصرت فاطمہ

شعر کا یہ مصرع جب ہم نے پڑھا تو بڑا حسب ِ حال لگا اور ہمیں موضوع بھی دے گیا۔ ”دنیا کو چین کی ضرورت“ اس عنوان سے کچھ عرصہ قبل روزنامہ منصف میں ایک سرخی پر نظر پڑی اور ہماری بے چینی کچھ اور سوا ہوئی۔ ویسے اس خبر کا خلاصہ یہ تھا کہ کچھ اور ہو نہ ہو دنیا کو ملک چِین کی ضرورت ہے۔ جب کہ ہماری ناقص رائے میں دنیا کے لوگوں کا ملک چین نے ہی ”چین“ غارت کیا ہوا ہے۔ (بچے بچے کے ہاتھوں میں ویڈیو گیمز اس کا ثبوت ہیں)
چونکہ چ ین اور چَین ہم ہجہ الفاظ میں آتے ہیں (صرف زیر زبر کے فرق سے)تو چلیں آج دونوں کا ہی ذکر کرتے ہیں۔ ملک چین کے بارے میں کیا کہیں۔ ایک چھوٹی سی ٹوتھ پک کی ڈبی ہو، گھر کی کوئی بڑی سی مشین، یا پلاسٹک کی تھیلی ہی سہی، اس پر ”میڈ ان چائنا“ کا نام دیکھنے کی عادت سی ہوگئی ہے۔ مصنوعات کی کسی دکان میں قدم رکھ کر دیکھیں، آپ ”میڈ اِن چائنا“ سے نہیں بچ سکیں گے، چین کا کمال دیکھئے، چین کی70 فیصد آبادی لادین ہے لیکن یہ پوری اسلامی دنیا کو تسبیح اور جائے نماز سپلائی کرتی ہے، چین دنیا میں سب سے زیادہ جائے نماز، تسبیحات اور احرام بناتا ہے۔
لیکن پچھلے دو سالوں سے دنیا کا ہر دوسرا پروڈکٹ بنانے والا چین وائرس کی پروڈکشن میں بھی خودمختار ہوگیا ہے۔
ویسے آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ ہر دوسراجان لیوا وائرس چین سے تعلق رکھتا ہے۔ دوسرے تمام ”میڈ ان چائنا“ والے پروڈکٹس ایک طرف اور چین کا کورونا وائرس ایک طرف۔ کورونا کے شروعاتی دور میں یہ بات کہی جارہی تھی کہ ”ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی اور ہر چھینک کرونا نہیں ہوتی۔“ ویسے بھی ڈرنے کی ضرورت نہیں، کرونا وائرس بہت جلد ہی ختم ہوجائے گا کیوں کہ وہ میڈ ان چائنا ہے۔میڈ ان چائنا کا تو نام ہی ناپائیداری کے لیے مشہور ہے، لیکن کمبخت وائرس بڑے پائیدار نکلے کہ ایک کے بعد ایک نسل پروان چڑھ رہی ہے۔ایسے میں اگر ہمارا یہ کہنے کا دل کرے کہ دنیا کو چین کی قطعاً ضرورت نہیں تو اس میں ہمارا چنداں کوئی قصور نہیں،لیکن پھر وہی بات کہ پوری دنیا میں شاید ہی کوئی گھر ایسا ہو جہاں چین کی بنی مصنوعات موجود نہیں، حتیٰ کہ ہمارا فون بھی (جس میں ہم اپنے کالم لکھا کرتے ہیں) ”میڈ ان چائنا“ ہی ہے۔
آئیے اب آپ کا چین وسکون غارت کرتے ہیں، اوہ…… ہمارا مطلب ہے کہ بے چین دلوں کی بات کرتے ہیں۔ انسان کی تو سرشت میں ہی بے چینی پائی جاتی ہے۔ یہ بے چینی نہ ہوتی تو آج ہمارا اور آپ کا وجود بھی نہ ہوتا۔
سوچیے کہ اگر ہمارے باوا آدم جنت میں چین سے بیٹھے رہتے تو دنیا کیسے آباد ہوتی اور یہ اللہ کی مصلحتِ عظیم کہ یہ بے چینی ہی دنیا کو آباد کرنے کا سبب بنی اور نسل در نسل منتقل ہوتی یہ بے چین فطرت کہ آج دنیا کی آبادی آٹھ بلین سے تجاوز کر گئی ہے۔ ایک اچھی خبر کہیں یا بری کہ کچھ سالوں میں ہندوستان چین کو آبادی کے معاملے میں پیچھے چھوڑ دینے والا ہے۔ (ویسے بھی دنیا کو لمبے عرصے تک کرونا کی وجہ سے گھروں تک محدود کردیا گیا تھا تو دنیا کی آبادی تو بڑھنی ہی تھی) اس لیے طے یہ پایا کہ بے چینی بذات خود کوئی بری بات نہیں۔ویسے بے چینی تو شاعر حضرات کا پسندیدہ موضوع ہے اور مزاج بھی۔ایک نامور شاعرکچھ اس طرح چین کی تلاش میں رہے کہ..
اب توگھبراکے یہ کہتے ہیں کہ مرجائیں گے ٭ مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
انسانوں میں بے چینی کا پایاجانا بذاتِ خود کوئی انوکھا امر نہیں۔ زیادہ ہی چین سے رہنے والے کا بظاہر کوئی فائدہ ہوتا نظر نہیں آتا۔ انہیں کاہل اور سست کا خطاب مل جاتا ہے۔ اگر آپ غیر شادی شدہ ہیں تو بے چین بھی رہیے۔ بہت جلد آپ کا چین مزید غارت ہوجائے گا، یعنی آپ کی شادی کردی جائے گی۔ دنیا کے امیر کبیر افراد، سنا ہے کہ بے چین ہی رہا کرتے ہیں اور اس طرح اپنی دولت میں مزید اضافہ کیا کرتے ہیں۔یقین نہ آئے تو ایلن مسک کی مثال لے لیجیے۔ ایک خبر سنی تھی کہ ایلن مسک نے ٹویٹر کا بزنس خود سنبھال لیا ہے اور اس طرح ان کی بے چینی کے ساتھ ساتھ تنک مزاجی بھی کھل کر سامنے آنے لگی ہے۔ ان امراء کے مزاج بیچارے عام لوگوں کی سمجھ میں ہی نہیں آتے۔ (ٹویٹر، اس کے عملہ کی بے دخلی اور ایلن مسک)
کچھ خبریں ہمیں بے چین کردیتی ہیں۔حال ہی میں ایک دل دہلادینے والی خبر سنی کہ ایک سنگدل سفاک شخص نے اپنی ساتھی کا بے رحمی کے ساتھ قتل کردیا اور قتل کرکے اس کی لاش کو ٹکڑوں میں بدل دیا۔درندوں کی مثال بھی نہیں دی جا سکتی کہ درندے تو بے چارے خیر اس طرح اپنی خوراک کا انتظام کرتے ہیں، لیکن اس انسان نما درندے نے توانسانیت کو شرمسار کردیا، جس کے نام سے الجھن میں مزید اضافہ ہوا۔
فٹبال کا عالمی مقابلہ ان دنوں قطر میں زوروں پر ہے اور عالمی سطح پر کھیلے جانے والے مقابلوں سے کہیں زیادہ قطر کی مہمان نوازی اور شاندار طریقے سے منظم کیا جانا ساری دنیا کو(بشمول گودی میڈیا کے) بے چین کررہا ہے. اور ہم اس بے چینی سے خاصے لطف اندوز ہوتے رہے ہیں۔
بے چینی خبروں کو جنم دیتی ہے اور کبھی خبریں بے چین کرتی ہیں اور…
ہمارا کالم پڑھ کر آپ بے چین نہیں ہوئے تو، چین سے رہیے اور کالم دوبارہ پڑھیے۔ ویسے بھی
چین کس کو ہے، یہاں پر شاد کون!!
فکرِ ہستی سے ہوا آزاد کون!!