طنز و مزاحمضامین

چٹ نکاح پٹ ولیمہ

زکریا سلطان

عام والدین اور سرپرستوں کے علاوہ خصوصیت کے ساتھ جن حضرات کے دو دو تین تین اور چار چار نکاح اور ولیمے ہوئے ہیں وہ زیر نظر مضمون غور سے پڑھیں کیوں کہ یہ مضمون انہیں غور و فکر اور مذاکرہ میں شرکت کی دعوت دیتا ہے۔ نہ صرف غور سے پڑھیں بلکہ اپنے ذاتی تجربات اور قیمتی مشوروں سے بھی قارئین کو نوازیں۔ ضروری نہیں کہ اظہار خیال کرنے اور رائے دینے والے مرد ہی ہوں بلکہ وہ خواتین بھی اس مباحثہ میں حصہ لے سکتی ہیں جن کے ایک سے زیادہ نکاح ہوئے ہوں ، وہ بھی اپنی آپ بیتی بیان کرسکتی ہیں۔
میں شہر حیدرآباد میں پیدا ہوا ، میں ایک پکا حیدرآبادی ہوںیہیں بڑا ہوا، کھیلا کودا، پڑھا لکھا، شادی کیا، پھرشادی کے دوسرے دن الحمدللہ میرا ولیمہ ہوا۔ اللہ کے فضل وکرم سے نانا دادا سب کچھ بن گیا۔اب آرام کر رہا ہوں، اس سے آپ میری عمر کا اندازہ لگاسکتے ہیں۔ اس ساری عمر میں میں نے یہی دیکھا ہے کہ شادی کے ایک یا دو دن بعد ولیمہ ہوتا ہے ۔ اپنی پوری زندگی میں میں نے ایک ہی دن میں شادی اور ولیمہ کبھی نہیں دیکھا لیکن ابھی چندروز پہلے ایک صاحب کا ویڈیو آیا ہے جس میں وہ نکاح کے دن نہیں بلکہ نکاح کے فوری بعد ولیمہ کرنے کی بات کر رہے ہیں،اپنی تائید میں انہوں نے ایک مولانا کو بھی پیش کیا ہے جو سیم ٹائم نکاح اینڈ ولیمہ۔سیم ڈے نکاح اینڈ ولیمہ نہیں!!! یعنی چٹ نکاح پٹ ولیمہ کی بات کرتے ہوئے ویڈیو میں دیکھے گئے ۔ڈر ہے کہ اگرواقعی ایسا ہو توہمارے شہر حیدرآبادکی خواتین یہ طعنہ مار سکتی ہیں ” اَیّی جی ماں کیا بے صبرا دولہا ہے ، سیم ٹائم نکاح اینڈ ولیمہ کتے” ذرا تو صبر کرناتھا ایسا بھی کیا بے صبرا پن ہے اُجاڑ؟
ویڈیو بنانے والے محترم شادی میں طعام کے خلاف ایک عرصہ سے بڑی شدید مہم چلارہے ہیں مگر کوئی خاص اثر ہوتا نظر نہیں آرہا ہے اور نہ اس کے کچھ خاطر خواہ نتائج نکل رہے ہیں کیوں کہ ہمارے خیال میں مہم بے جان اور بے وزن ہے جس میں توازن کی کمی اور شدت پسندی بہت زیادہ ہے۔ ہم اس مسئلہ پر دوسرے بہت سے لوگوں کی طرح اس بات کے قائل ہیں کہ زور زبردستی مت کرو، بات ہنسی خوشی اور آپسی رضامندی کی ہے۔ ہاں البتہ ہماری نصیحت اور مشورہ ہے کہ خدارا شادیوں میں اسراف مت کیجئے نکاح کو آسان بنائیے،مسابقت اور دیکھا دیکھی مت کیجئے۔
رشتوں کے طئے نہ ہونے کی وجہ صرف جہیز اور لین دین ہی نہیں ہے بلکہ اور بھی دیگر وجوہات ہیں جن پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ لڑکی اور لڑکے کے انتخاب میں ہمارے ناز نخرے اور نا معقول مطالبات، غیر واجبی شرائط وغیرہ بھی مانع ہیں جن میں اگر تھوڑی سی لچک پیدا کرکے حالات سے سمجھوتہ کرلیا جائے تو رشتے آسانی سے طئے ہوسکتے ہیں ۔ عموماً ہماری نظر لڑکے اور لڑکی والوں کے مضبوط مالی موقف پر ہوتی ہے لیکن ہم آمدنی کے ذرائع کو اہمیت نہیں دیتے کہ آیا وہ جائز ذرائع سے آرہی ہے یا لوٹ مار اور حرام کی دولت ہے۔ ہمیں تو صرف ” اعلیٰ سوشیل اسٹیٹس“ سے غرض ہوتی ہے کہ پارٹی مالدار کھاتی پیتی چکنی اور تگڑی ہو۔مسلمان لڑکیاں غیر قوم کے لڑکوںکے ساتھ فرار ہوکرنام نہاد شادیا ں کیوںرچا رہی ہیں؟ کیوں مرتد ہوکر جہنم کے گڑھے میں گر رہی ہیں؟ ان کی دینی خطوط پر صحیح تعلیم و تربیت اور ذہن سازی نہ ہونا ہی اس کی اصل وجہ ہے ۔ لڑکی کا ایمان اگر مضبوط ہو تو وہ فاقہ کرنا پسند کرے گی اور کسی بھی قسم کے چیلنج کو قبول کرے گی مگر کبھی کسی غیر مسلم کے ساتھ فرار نہیں ہوگی ، اس کی ایمانی قوت اور غیرتِ اسلامی اسے اس بات کی ہرگز اجازت نہیں دے سکتی۔ اس کا دل، اس کا ضمیر کبھی اس بات پر راضی اور مطمئن ہو ہی نہیں سکتا کہ وہ ایک کافر و مشرک کے ساتھ زندگی گزارے۔ہمیں دراصل اس مسئلہ پر کام کرنے کی ضرورت ہے نا کہ شادی میں کھانے اور ولیمہ کے وقت کے تعین پر!!! عقد ثانی کے اشتہارات سے اخباربھرے پڑے ہیں۔ ہمارے معاشرہ میں طلاق کی شرح جو کبھی نہیں کے برابر تھی اب تشویشناک حد تک بڑھ گئی ہے، اس کی وجہ کیا ہے؟ ذمہ دار کون ہے؟ کیا ہم نے کبھی غور کیا ہے؟ ہم تو اس مسئلہ میں الجھے ہوئے ہیں کہ شادی میں کھانا رکھیں یا نہ رکھیں ، ولیمہ کب ہو۔عزیزان گرامی! یہ کوئی اہم مسئلہ نہیں ہے ۔ خلوت صحیحہ کے بعد ولیمہ دوسرے یا تیسرے دن کبھی بھی رکھ لیجئے۔ چلتے چلتے ہم ویڈیو بنانے والے صاحب اور ان کے پیش کردہ مولانا سے یہ پوچھنا چاہتے ہیں ”ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر صحیح صحیح بتائیے کیا آپ کا ولیمہ بھی نکاح کے فوری بعد ہوا تھا؟ یا شادی کے دوسرے یا تیسرے دن؟“
مختصر یہ کہ لڑکی والوں سے جہیز،طعام اور شادی خانہ کا مطالبہ مت کیجئے، یہ غلیظ رواج ختم ہونا چاہیے، لڑکی والوں سے بھیک مانگنا بری بات ہے، ان پر کسی قسم کا دباﺅ مت ڈالیے۔ اللہ سے ڈرئیے ۔لڑکی والے استطاعت کے باوجود شادی میں اگرکھانے کا انتظام نہیں کرنا چاہتے ہوںتب بھی کوئی بات نہیں، انہیں مکمل اختیار ہے ۔ بہتر یہ ہوگا کہ مسجد میں یا گھر پر نکاح ہو اور دولہن سیدھے اپنے سسرال جائے ۔بغیر کسی دباﺅ کے کوئی والدین اگر اپنی مرضی اور خوشی سے شادی میں مہمانوں کے لیے کھانے کا انتظام کرنا چاہیں تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں۔ یہ کوئی حرام حلال کا مسئلہ نہیں ہے، غیر ضروری شک اور تجسس میں مت پڑئیے۔ دعوت قبول کرنا سنت ہے جائیے اور اطمینان سے بریانی، بگھارے بینگن ،شاہی ٹکڑے اور جو کچھ بھی میسر ہو دبائیے۔