حمیدعادل
ایک وقت تھاجب ہر گھر میں مٹی کے گھڑے ہوا کرتے تھے… آج ہم نے بھلے ہی مٹی کے گھڑوں کا استعمال کم بلکہ تقریباًترک کردیا ہو لیکن چکنے گھڑے ہر گلی ، ہرمحلے ، ہرشہر اور ہر ملک میں پائے جاتے ہیں۔ ہمارے ملک میںان کے مستقل مسکن عموماً سیاسی گلیارے ،سرکاری دفاتر اور کارپوریٹ ادارے ہوا کرتے ہیں۔چکنا گھڑا وہ ہوتا ہے جس پر کوئی پانی نہ ٹھہرے لیکن ایک ایسا شخص جس پر کسی بات کا کوئی اثر نہ ہو، بے حیا، بے غیرت اور بے حسب انسان بھی چکنا گھڑا ہی کہلاتا ہے۔چکنا گھڑا ٹینشن لیتا نہیں بلکہ دیتا ہے ، ہمیشہ مزے اڑاتا ہے ، کسی کی بات ایک کان سے سنتا ہے تو دوسرے سے نکال بھی دیتا ہے۔
چمن بیگ فرماتے ہیں کہ چکنا گھڑا ہونے کے بے شمار فوائد ہیں، سب سے بڑا فائدہ تویہ ہے کہ’’ چکنا گھڑا‘‘دل کے امراض سے مکمل طور پرمحفوظ رہتا ہے کیوںکہ وہ کبھی کسی بات کو دل پر لیتا ہی نہیں۔ چکنے گڑھے کو دوسرا سب سے بڑا فائدہ یہ حاصل ہوتا ہے کہ وہ وقت بے وقت کی تنقیدوں اور مفت کے مشوروں سے محفوظ رہتا ہے۔کیوں کہ لوگ جانتے ہیں کہ چکنے گھڑے پر کسی بات کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔چکنا گھڑا صرف اور صرف اپنے ’’من کی بات ‘‘ سنتا ہے اور ’’چوری اور سینہ زوری‘‘ پر عمل پیراہوتا ہے۔
یوں تو زندگی سے جڑے ہر شعبے میں چکنے گھڑے ہوتے ہیں لیکن یہ دیکھ کر بڑا دکھ ہوتا ہے کہ قانون کے رکھوالے تک اس قدر چکنے گھڑے ہوا کرتے ہیں کہ وہ عموماً جھوٹ کا ساتھ دیتے اور سچ کو ہاتھ دیتے ہیں اور نعرہ مارتے ہیں قانون کے ہاتھ بہت لمبے ہوتے ہیں۔ کارپوریٹ دواخانوں میںچکنے گھڑوں کی تعداد میںتیزی سے اضافہ ہوتاجارہا ہے،جو ہر وقت اپنی جیب گرم رکھنا چاہتے ہیں ، بھلے ہی مریض ٹھنڈا ہوجائے۔ کارپوریٹ اسپتالوں کے علاوہ کارپوریٹ تعلیمی اداروں میں بھی چکنے گھڑے کثرت سے پائے جاتے ہیں۔رضا نقوی واہی نے تعلیمی شعبے میں چکنے گھڑوںکی موجودگی کا کچھ اس طرح اشارہ دیا ہے:
ڈی لٹ جسے ملا ہے سو ہے وہ بھی لکچرر
پی ایچ ڈی جو ہوا ہے سو ہے وہ بھی لکچرر
ساون کی جو جھڑی ہے سو ہے وہ بھی لکچرر
چکنا جو ایک گھڑا ہے سو ہے وہ بھی لکچرر
کبھی چکنے گھڑوں کی فہرست میں عاشقوں کو بھی نمایاں مقام حاصل تھا جو معشوقہ کے جھڑکنے کو ادا کہتے اور اس کے چانٹے کو چاہت سے تعبیرکیاکرتے تھے۔ معروف مزاحیہ شاعرپاگل عادل آبادی نے مرحوم محمد رفیع کے گائے ہوئے مشہور نغمے ’’بابل کی دعائیں لیتی جا‘‘ کی پیروڈی ’’ناکام عاشق کی بددعا‘‘ لکھی جس میں انہوں نے لفظ ’’چکنا گھڑا‘‘ کا خوب استعمال کیا ہے:
عاشق کی دعائیں لیتی جا، جا تجھ کو پتی کنگال ملے
شوہر ہو ترا لنگڑا لولا، ہو عقل سے پیدل چکنا گھڑا
آج عاشقی میں روٹھنا منانا گویا ’’آوٹ ڈیٹیڈ‘‘ ہو چکا ہے جبکہ ماضی کے چکنے گھڑے نما عاشق معشوقہ کے ارد گرد ہی منڈلایا کرتے تھے، اور معشوقہ کی دھتکار کوبھی پیار سمجھا کرتے تھے… غالباًاسی کو ملحوظ رکھتے ہوئے نوید صدیقی نے یہ شعر کہا ہوگا:
بیٹھا ہے دے کے مجنوں دھرنا تری گلی میں
لیلیٰ! یہ تیرا عاشق چکنا گھڑا ہے گویا
ایک اورمزاحیہ شاعرنوید ظفر کیانی نے عاشق کے چکنا گھڑا ہونے کو مزید بلندی بخشی ہے:
میں نظر وٹو سہی پیار ترا اور سہی
تیری سرکار میں اک چکنا گھڑا اور سہی
(’’نظر وٹو‘‘ یا’’ نظر بٹو‘‘ ایک علامتیہ (Icon)، کڑا یا کوئی اورشئے ،جو ہندوستان اورپاکستان میں نظر بد سے بچنے کے لئے پہنی یا پہنائی جاتی ہے)
آج عاشق چکنا گھڑا رہا او رنہ ہی معشوقہ… ذرا سی بات پر ساتھ جینے مرنے کی قسمیں دم توڑ دیتی ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اب ان کا پیار کچے گھڑے جیسا ہوکر رہ گیا ہے … والی آسی کا ایک شعر ہے:
عشق کی راہ میں یوں حد سے گزر مت جانا
ہوں گھڑے کچے تو دریا میں اتر مت جانا
جب بات کچے گھڑے کی چل پڑی ہے تو ہمیں وہ یادگارفلمی مناظریاد آرہے ہیں جن میں عشق کی ابتدا ہی کچے گھڑے سے ہوا کرتی تھی۔منظر کچھ یوں ہوتا کہ ہیروئن صاحبہ پانی سے بھرے مٹکے کو اپنے سریا کولہے پر لیے گھر کی سمت چلی جارہی ہیں اور چلبل پانڈے یعنی ہیرو صاحب کنکر یاپتھر سے اس کے گھڑے کو نشانہ بنارہے ہیں۔ محترمہ ہیروئن صاحبہ کا مٹی کا گھڑا پھوٹ جاتا ہے اور پھر دونوں میں ہونے والی بحث و تکرارپیار میں بدل جاتی ہے …ہیرو بظاہر ہیروئن کا کچا گھڑا پھوڑتا لیکن اس کا پیار بڑا پختہ ہوا کرتا تھا۔
نہ میرے ساتھ چلنے سے تو کترا
بھلا میں کب کوئی کچا گھڑا ہوں
بیشتربھکاری اس قدرچکنے گھڑے ہوتے ہیں کہ وہ اس وقت تک آپ کا پیچھا نہیں چھوڑتے جب تک کہ آپ انہیں کچھ دے نہیں دیتے،شاید خیرات کا نہ ملنا وہ اپنی توہین سمجھا کرتے ہیں۔
چمن بیگ مہدی پٹنم پر کھڑے تھے کہ انہیں ایک ڈھیٹ بھکاری نے گھیر لیا اور خیرات کے لیے تنگ کرنے لگا…اتفاق سے ان کے پاس بس کے کرائے کے سواکچھ اور نہ تھا۔چمن بیگ نے نہایت انکساری سے کہا: معاف کرو بابا… لیکن بابا چمن کومعاف کرنے کے موڈ میں ہرگز نہیں تھے…اگرچمن بیگ چلرکا عذر پیش کرتے تو بھکاری کہتا :میں دوں گا آپ کو چلر،لائیے کتنے کا نوٹ ہے؟ …اگرچمن بیگ بھکاری سے کہتے:آگے جاؤ… توبھکاری جواب دیتا:’’ایڑا سمجھ رکھا ہے کیا؟…اگر چمن بیگ کہتے کہ آج تو جمعرات نہیں ہے ،پھر تم کیوں بھیک مانگتے پھررہے ہو؟ تو بھکاری جواب دیتا: واہ صاحب !آپ تو ہر روز تین وقت خوب ڈٹ کر کھائیں اور ہم صرف جمعرات ہی کوکھائیں ؟قصہ مختصر یہ کہ چمن بیگ بھکاری سے جو کہتے، اس کا انہیں تلخ جواب ملتا، وہ جہاں جاتے بھکاری وہاں پہنچ جاتا…بلآخر چمن اس بھکاری سے اس قدر زچ ہوئے کہ بس کا جوکرایہ جیب میں پڑا تھا، بھکاری کے حوالے کردیا اور خودپیدل گھرکی راہ لی!
ڈھیٹ بھکاری مردوں کی بہ نسبت خواتین کو کچھ زیادہ ہی تنگ کرتے ہیں… دروازے پر کھڑا ایک ایسا ہی بھکاری خالی ہاتھ واپس جانا نہیں چاہتا تھا اور خاتون اسے ڈانٹ ڈپٹ کرکے چلے جانے کو کہہ رہی تھی لیکن اس کے باوجود بھی جب بھکاری ٹس سے مس نہیں ہوا تو خاتون نے اْسے دھمکی دیتے ہوئے کہا:
’’تم جاتے ہو یا میں اپنے شوہر کو بلاؤں؟‘‘
بھکاری نے خاتون کا سر تا پیر جائزہ لیا اور پھر برا سا منہ بنا کر کہا:’’کوئی ضرورت نہیں ہے بیچارے شوہر کو تکلیف دینے کی، میں یوں ہی چلا جاتا ہوں،حالانکہ میں جانتا ہوں کہ تمہارا شوہراِس وقت گھر پر نہیں ہے!‘‘
خاتون نے حیرت سے پوچھا:’’ تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ میرا شوہر گھر پر نہیں ہے؟‘‘
بھکاری نے ہنس کر کہا:’’صاف بات ہے،تم جیسی عورت جس آدمی کے گھر میں ہوگی، اس آدمی میں اتنی ہمت ہی کہاں کہ وہ کھانے کے وقت کے سوا کبھی گھر میں موجودہو!‘‘
بھکاری تو بھکاری ہیں لیکن نام نہاد نیتاان سے بھی دو بلکہ چار قدم آگے نظر آتے ہیں ، وہ ایسے چکنے گھڑے ہوتے ہیں کہ جو ہر روزنت نئی بات گھڑنے میں بھکاریوں سے بھی زیادہ مہارت رکھتے ہیں۔ضیاء الحق قاسمی نے سیاسی گلیاروں کی بڑی خوب منظر کشی کی ہے ،ان کا یہ شعر دیکھیے:
یہ سیاسیات کا کھیل ہے، یہ منافقوں ہی کی جیل ہے
یہا ں بھونکتا کوئی اور ہے، یہاں کاٹتا کوئی اور ہے
سیاسی گلیاروں میں چکنے گھڑوں کے علاوہ کچے گھڑوں کی بھی کوئی کمی نہیں ہے ،یہ وہ کچے گھڑے ہوتے ہیں جوسیاست کی ’’س‘‘ سے تک واقف نہیں ہوتے لیکن ’’سیاست ،سیاست ‘‘ کھیلتے ہیں۔یہ کچے گھڑے، گھوڑے بن کرسیاسی ریس (انتخابات )ہار جاتے ہیں تو راجیہ سبھا کے ممبر بن کر دوسرے دروازے سے پارلیمنٹ میں نمودار ہوجاتے ہیں۔ چکنے گھڑے دراصل بے پیندے کے لوٹے ہوا کرتے ہیں، جنہیں اپنی خودداری اور عزت کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی…جب بھی دیکھتے ہیں کہ ان کی پارٹی کے حالات خراب ہیں ، فوری کسی اور سیاسی پارٹی کی جانب ڈھلک جاتے ہیں۔ ان بے پیندے کے لوٹوں کوٹوٹنے پھوٹنے کا قطعی خوف نہیں ہوتا،وہ تو بس ڈھلکنا جانتے ہیں …
لفظ لوٹا کے بارے میں خالد احمد رقمطراز ہیں: ’’لوٹا‘‘ کا ماخذ ’’لوٹنا‘‘ ہے۔ پلیٹس کی ڈکشنری میں بھی یہی درج ہے۔ لوٹنا کا مطلب پہلو بدلنا، دائرے یا چکر میں گردش کرنا ہے۔ دراصل قدیم زمانے میں ایک برتن استعمال ہوتا تھا جس کا پیندا نہیں تھا، ’’لوٹا‘‘ اسی کی ایک ترقی یافتہ شکل بنا۔ اس کا بھی پیندا نہیں ہوتا تھا لہٰذا یہ زمین پر ٹک نہیں سکتا تھا، ادھر ادھر لڑھک جاتا تھا … لیکن پھر وہ دور آیا کہ وفاداری فروشی کے کاروبار سے منسلک بندوں کو بے پیندے کے لوٹے کہا جانے لگا۔
میں نے ایک اور بھی محفل میں انہیں دیکھا ہے
یہ جو تیرے نظر آتے ہیں، یہ سب تیرے نہیں
یہ بہ ہر لحظہ نئی دھن پہ تھرکتے ہوئے لوگ
کس کو معلوم یہ کب تیرے ہیں، کب تیرے نہیں
( افتخار عارف )
مشکوک حیدرآبادی کا خیال ہے کہ جو جتنا زیادہ چکنا گھڑا ہوتا ہے، وہ اتنا ہی زیادہ کامیاب نیتا کہلاتا ہے اور جو جتنا زیادہ کامیاب نیتا کہلاتا ہے، اس کا پیٹ اتنا ہی زیادہ مٹکے نماہوتاہے اور جس نیتا کا پیٹ جتنا زیادہ مٹکے نما ہوتا ہے ،وہ اتنا ہی بڑاچکنا گھڑا ہوتا ہے۔ آزادی کے بعد جہاں اس قبیل کے چکنے گھڑوںنے اپنا پیٹ دونوں ہاتھوں سے بھرا ہے، وہیں عوام کی حالت اظہر فراغ کے اس شعر کی سی ہوکر رہ گئی :
ایک ہی وقت میں پیاسے بھی ہیں سیراب بھی ہیں
ہم جو صحراوں کی مٹی کے گھڑے ہوتے ہیں
آج تلنگانہ سمیت دیگر چار ریاستوں میں ووٹوںکے حصول کا موسم چل رہا ہے، جہاںکرارے نوٹوں اوربے پیندے کے لوٹوں کی بہار آئی ہوئی ہے … اگر نوٹوں کی چمک خیرہ نہ کرتی توبے پیندے کے لوٹے اتنی بڑی تعداد میں ادھر سے ادھر لڑکھتے نظر نہیں آتے…یہ تونوٹوں کا ہی کمال ہے کہ لوٹے اپنی جگہ بدلتے دکھائی دے رہے ہیں…لوگ کیا کہیں گے ؟ جیسے سوال، انہیں قطعی پریشان نہیں کرتے کیوں کہ وہ ’’ چکنے گھڑے‘‘ جو ہوتے ہیں…
۰۰۰٭٭٭۰۰۰