سیاستمضامین

بڑے بے آبرو ہوکرترے کوچے سے ہم نکلے

ڈاکٹر شجاعت علی صوفی(پی ایچ ڈی)

ہندوستان کی سب سے چھوٹی ریاست میزورم کے سب سے چھوٹے چیف منسٹر نے نریندر مودی کے ساتھ اسٹیج شیئر کرنے سے منع کردیا جسے وشوا گرو نریندر مودی نے بادل نا خواستہ قبول کرلیا۔ تاریخ گواہ ہے کہ ہندوستان میں شمال مشرقی ریاستوں کے تمام حکمران جماعتیں مرکز کی رولنگ پارٹی کے ساتھ رہتے آئے ہیں لیکن منی پور کے نسل کش واقعات کے بعد عیسائیوں کی اکثریت والے میزورم نے مودی سے اپنا دامن جھٹک لیا۔
بی بی سی سے بات چیت کرتے ہوئے زورم تھنگا نے کہا کہ منی پور میں جو نسلی فسادات ہوئے اس میں کئی چرچوں کو سپرد آتش کردیا گیا تھا جہاں پر بی جے پی کی سرکار ہے۔ چیف منسٹر نے بڑی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ کہنے کی کوشش کی کہ عیسائیوں کے خلاف اس کاروائی پر مودی کی خاموشی معنی خیز ہے۔ شمال مشرقی ریاستوں میں زورم تھنگا ہی وہ واحد قائد ہیں جنہوں نے مودی اور دلی کے خلاف کھلے عام تنقید کرکے یہ جتادیا ہے کہ ملک کی اقلیتیں اب خاموش رہنے والی نہیں ہیں۔
ہندوستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ شمال مشرقی ریاست میں ایک بہادر چیف منسٹر عوام کے سامنے آیا ہے جو یہ ہرگز برداشت نہیں کرے گا کہ اس کے عیسائی بھائیوں پر ظلم کیا جائے۔ نریندر مودی نے ایم این ایف کے ساجھے دار ہونے کے باوجود وہاں کا انتخابی دورہ نہیں کیا جو اس بات کا ثبوت ہے کہ شمال مشرقی علاقے کی صورتحال ٹھیک نہیں ہے۔ میزورم ریاست کے عوام کا یہ احساس ہے کہ جس طرح گجرات میں مبینہ طورپر مودی کی نگرانی میں مسلمانوں پر ظلم و جبر اور بربریت کے جو پہاڑی توڑے گئے اسی طرح منی پور میں بھی عیسائیوں کو ظلم کا نشانہ بنایا گیا۔ ان کا قتل کیا گیا ان کی جائیدادوں کو نقصان پہنچایا گیا ان کے گرجاؤں کو جلایا گیا اور ان کی ماں بیٹیوں کے ساتھ عصمت ریزی کا گھناؤنا کھیل کھیلا گیا۔
بی بی سی سے اپنی بات چیت کے دوران زورم تھنگا نے یہ بھی کہاکہ ان کی ریاست ، عیسائیوں کی اکثریت پر مشتمل ہے اور یہاں یہ احساس جڑ پکڑ چکا ہے کہ منی پور میں عیسائیوں پر ظلم کے پہاڑ ڈھائے گئے۔ بہرحال ملک میں سیاسی حالات تیزی کے ساتھ بدل رہے ہیں۔ کیدار ناتھ کے مندر میں راہول اور ورون گاندھی کی ملاقات نہ صرف قومی سطح پر بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی بحث کا موضوع بنی ہے۔ اس ملاقات کو اتنی اہمیت دینا یہ بتاتا ہے کہ یہ ملاپ ایک نئے باب کا آغاز بنے گا۔
ایک طویل عرصہ سے یہ کہا جارہا تھا کہ ورون گاندھی کانگریس میں شامل ہوسکتے ہیںاور یہ پہلی ملاقات اس جانب ایک پہل دکھائی دیتی ہے کہا جاتا ہے کہ اگر ورون گاندھی کانگریس میں شامل ہوجاتے ہیں تواترپردیش میں کانگریس مستحکم ہوسکتی ہے۔ اترپردیش کے اطراف یعنی راجستھان، چھتیس گڑھ، بہار ، جھارکھنڈ جیسی ریاستوں میں یا تو کانگریس راست حکومت کررہی ہے یا پھر وہ گٹھ جوڑ میں شامل ہے۔ ہریانہ میں بھی کانگریس پھر سے حکومت بناسکتی ہے۔ ورو ن گاندھی بھارتیہ جنتا پارٹی میں رہتے ہوئے بھی جن جرأت مندانہ بیانات کا سہارا لے رہے ہیں اس سے لگتا ہے کہ وہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے نظریات اور پروگراموں سے سخت نالاں ہیں اور وہ تبدیلی کے حق میں ہے۔
راہول گاندھی اور ورون گاندھی میں پچھلے دنوں کیدار ناتھ کے مندر میں پہلی ملاقات تو ہوئی لیکن پرینکا گاندھی اپنے چچیرے بھائی ورون گاندھی کے ساتھ بات چیت کا سلسلہ برقرار رکھا ہے۔ پرینکا کے اس رابطہ کو ہی ورون گاندھی کی کانگریس میں آمد کا نکتہ قرار دیا جارہا تھا۔ مختلف اخباروں میں مختلف باتیں لکھی گئیں ۔ کسی اخبار نے کہا کہ ان کے درمیان 45 منٹ کی بات چیت ہوئی جبکہ دوسرے اخباروں نے کہا یہ صرف پانچ منٹ کے لئے ملے۔ ملاقات تو ہوئی کیا بات چیت ہوئی اس کی تفصیل منظر عام پر نہیں آئی لیکن اتنا ضرور کہا گیا کہ راہول اس ملاقات سے بے حد مسرور تھے۔ کہا جارہا ہے کہ اترپردیش میں کانگریس کی ایک نئی تاریخ رقم ہوسکتی ہے۔ ورون گاندھی کے تعلقات اکھلیش یادو سے بے انتہا قریبی ہیں۔ بی ایس پی کے لیڈر ستیش مشرا بھی انہیں بے حد چاہتے ہیں یہ چاہت مایا وتی کو بھی انڈیا بلاک کا حصہ بنا سکتی ہے۔ اس دوران جاری کئے گئے اوپنین پولس میں پانچوں ریاستوں میں کانگریس کی بڑھت دکھائی گئی ہے۔
میزورم میں نریندر مودی کا نہ جانا ان کی باڈی لینگویج میں جوش نہ ہونا یہ درشاتا ہے کہ مودی اور ان کی پارٹی تھک چکی ہے اور وہ شکست کا سامنا کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ حیدرآباد کے لال بہادر اسٹیڈیم میں ان کے جلسہ عام کی ناکامی اور اس کے نتیجہ میں بی جے پی کے ریاستی لیڈروں کے خلاف ان کی ناراضگی بھی شکست کی دستک کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اس دوران ایک عجیب بات دیکھنے میں آئی ہے کہ عوام انتخابی مہمات سے دور ہوتے چلے جارہے ہیں یعنی فرقہ پرستانہ انداز اور انتہائی رکیک شخصی حملے انہیں بیزار کررہے ہیں۔ اگر یہی صورتحال رہی تو شہری حلقوںمیں ووٹنگ کا تناسب اور بھی گھٹے گا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے پاس اتنے سالوں کے باوجود صرف فرقہ پرستی کا ایجنڈا ہی باقی بچا ہے۔ وہ اپنی شبیہ کو درست نہیں کرپا رہی ہے۔ ہاں یہ ضرور ہوا ہے کہ اس کے ایک وکیل نے دلی ہائی کورٹ میں ایک پی آئی ایل داخل کی جس میں عدالت سے گزارش کی گئی کہ دھرم اور مذہب سے متعلق ایک دیباچہ پرائمری اسکولوں کے نصاب میں شامل کیا جائے جس سے مذہبی بنیادوں پر نفرت کا خاتمہ کیا جائے اور ملک میں ہورہی نفرت انگیز تقاریر پر قابو پایا جائے۔ آج کی تاریخ میں بی جے پی اس طرح کی سوچ رکھتی ہے تو یقینا اس کو خوش آمدید کہا جانا چاہئے۔ راہول گاندھی اور ورون گاندھی کی ملاقاتیں بڑھتی ہیں اور یہ دونوں جب نفرت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں تو بی جے پی کو کمزور کیا جانا کوئی مشکل بات نہیں ہے۔ بی جے پی کی نفرت کو اب قبول کرنے والے گھٹتے جارہے ہیں۔ 2024 کے لوک سبھا کے انتخابات میں بی جے پی یہ کہہ کر ووٹ مانگے گی کہ ہم نے رام مندر کی تعمیر کرنے کا وعدہ پورا کیا۔ ایک انٹرویو میں مودی نے یہ کہا تھا کہ مندر بنانے کا کام سرکار کا نہیں ہے اسے سنت بنوائیں گے لیکن اس کے الٹ سنگ بنیا داور تعمیر کے بشمول سبھی امور وزیراعظم مودی خود انجام دے رہے ہیں۔ سیاسی ماہرین یہ کہہ رہے کہ بی جے پی رام مندر کی تعمیر سے کوئی خاص فائدہ حاصل نہیں کر پائے گی۔ ہندوستان کے باشعور عوام آج اس بات کا تقاضہ کررہے ہیں کہ ملک کو معاشی ، سماجی اور سیاسی طورپر کس طرح مضبوط کیا جائے۔ انہیں نفرت کی سیاست پسند نہیں ہے۔وہ چاہتے ہیں کہ ملک امن کا گہوارہ بنا رہے اور ہر شہری کی صیانت کی ملک میں ضمانت ملے۔ وہ Banana Republic نہیں چاہتے وہ اس بات کا خواب دیکھ رہے ہیں کہ ہندوستان ایک مضبوط ویلفیر اسٹیٹ میں تبدیل ہوجائے جو کانگریس کے نوجوان قائدین کا خواب ہے۔ میزورم کے چیف منسٹر نے نریندر مودی کے ساتھ جو برتاؤ کیا وہ مستقبل کے ہندوستان کا سنگ میل ثابت ہوگا۔ ان کا مودی کو میزو رم میں آنے سے منع کرنا اور پھر مودی کا انہیں ممنون کرنا مرزا غالب کے شعر کے مصداق صحیح ثابت ہوگیا کہ
نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن
بڑے بے آبرو ہوکرترے کوچے سے ہم نکلے
۰۰۰٭٭٭۰۰۰

a3w
a3w