ڈاکٹر سید عباس متقی
جناب زکریا سلطان صاحب نے اپنے مضمون کواس درجہ خوب صورت،دل آویز اور معنی خیزعنوان”چلتا پھرتا پڑول پمپ“ دیا تھاکہ مدتوں بعد دل کے نہاں خانے میں دیا سا روشن ہوگیا۔ ہم نے خیال کیا تھاکہ وہ چلتا پھرتا پڑول پمپ فرماکران ماہ پاروں اور گل عذاروں کا ذکر فرمائیں گے جو واقعی سرتاپا چلتا پھرتا پڑول پمپ ہو تے ہیں۔جن کی اچٹتی سی ایک نگاہ زہاد کے زہداور متقی کے تقوے کو تہہ تیغ کردیا کرتی ہے اورعشاقان دل نواز میں آتش عشق کو ہوا دے کرانہیں کہیں کا رہنے نہیں دیتی۔یہ لالہ رخان دل فگار سرتاپاشعلہ ئ شرربار ہو تے ہیں یعنی چلتا پھرتا پٹرول پمپ ہو تے ہیں جنہیں چشم سر سے ملاحظہ فرماکرہی حافظ شیرازی نے یہ ارشاد فرمایا تھا کہ ”اگر آں ترک شیرازی بہ دست آور دل مارا۔بہ خال ہندوش بخشم سمرقند و بخارارا“ہم ایک مرہونِ تصور شاعر آدمی ہیں،ایسے دل فریب و جاں سوز عناوین سے متاثر ہو ئے بغیر نہیں رہتے۔فکر ہر کس بہ قدرِہمت ِاوست کے مصداق ہمارے لرزاں و ترساں لبوں پر ساحر لدھیانوی کا یہ طویل ترین مصرع مچل گیاکہ ”کوئی کہہ دے کہہ دے کہہ دے جہاں سے یہ جاکے کہ ہم گھبراکے محبت کربیٹھے ہائے محبت کر بیٹھے “اور ساتھ ہی حسن نو بہار تنوجہ کی دل فریب جان سوز ادائیں ضعف آثار آنکھوں میں گھوم گئیں۔اس حقیقت سے انکار کہاں ہو سکتا ہے کہ کچھ نازنیان خوش پیرہن تو یخ بستہ چٹانوں میں بھی آگ لگانے کا حوصلہ رکھتی ہیں اور مقتل دل سے حفیظ جالندھری کا یہ معروف مصرع ملکہ پھکراج کی آوازگداز میں گونج اٹھتاہے ”ابھی تو میں جوان ہوں۔“کیاعرض کیاجائے علامہ اقبال سے ہم مسولینی والی نظم پڑھ کرخواہ کتنے ہی ناراض کیوں نہ ہو ں لیکن جب ”۔۔۔۔۔۔کی گود میں بلی دیکھ کر“والی نظم پڑھتے ہیں تو ساری خفگی فرو ہوجاتی ہے اور شاخ ِ نہاں پر بلبل حیات یوں موصوف کا معروف مصرع پڑھنے لگتی ہے ”وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ“۔غرض ابھی ہم اپنے محل ِ تصور میں شمع امید روشن کیاہی چاہتے تھے کہ معلوم ہوا کہ جناب سلطان زکریانے اپنے طبع دل نواز کا رخ عنوان کے حقیقی معانی سے گریز فرماتے ہوئے غیرحقیقی معانی کی جانب مبذول فرمایا ہے اور چلتا پھرتاپٹرول پمپ سے پٹرول کے وہ چشمے مراد لیے ہیں جو زمین کے سینوں سے ابلتے ہیں اور ان چشموں کو بھلا دیا جو سینہ عشاق سے ابلتے ہیں اور اشکوں کی صورت لیے دامنوں کو ترکرتے ہیں۔ یوں بھی ہم اخبارات کی سیاسی اشخاص کی مکروہ یاوہ گوئی، رہنماؤں کی نا پسندیدہ پالیسی اوردانش مندوں کی بے راہروی سے اوب ہوچکے تھے اور سوچتے تھے کہ لوگ انتشار و اقتدار کے چکر میں کیوں اسیر ہیں۔کیا انہیں اسیر ہونے کے لیے زلف گرہ گیر کافی نہیں،کیوں یہ اذہان نا بالغہ دینار و درہم سے متاثر ہیں جب کہ دینار میں خود نار اوردرہم میں خود ہم مخفی ہے۔کیالوگوں کو متاثر ہو نے کے لیے چٹکتی کلیوں کا تبسم اور مچلتی کوئل کا ترنم کافی نہیں تھا۔ترشے ہوئے مجسمے کیوں انہیں خیرہ نہیں کرتے لا ینحل معمے کیوں انہیں برانگیختہ کررہے ہیں۔ کیا ان کی ارواح شمامۃالعنبر اورحناو خس سے مستفید نہیں ہو تیں۔ حسرت موہانی کی غزلیات کیوں انہیں متاثر نہیں کرتیں۔ہم سوچتے ہیں کہ کیوں یہ لوگ آتش حسد میں سوزاں ہیں،جلنے کے لیے آتش محبت بھی تو ایک چیز ہے۔کیا انہیں یہ پتا نہیں کہ اکثر سونا سونے سے محروم بھی کردیتا ہے اورچاندی انسان کے چین کو لوٹ لیتی ہے۔محبت،مروت اور ایثار جیسے اقدار کیا دود چراغ محفل کی صورت لیے بزم جہاں سے نکل گئے ہیں۔ یہی کچھ سوچ کر ہم جناب زکریا صاحب کے مضمون کو آگے پڑھنے لگے۔ ویسے ہم زکریاصاحب کے پر مغز مضامین کے منتظر رہتے ہیں کہ کب وہ مینائے تلطف لیے صفوف تشنہ لباں سے گزریں گے اور کب نیم جاں بادہ کش سیراب ہوں گے۔زکریا صاحب نے اپنے مضمون میں اپنے ریٹائرمنٹ کا ذکر کیاہے اور موصوف کے لفظوں سے حقیقی معنوں کے ساتھ کچھ اور معانی کا ظہو ربھی ہو رہاتھا۔ہمارا خیال ہے کہ ”مرد“کبھی ریٹائرڈ نہیں ہو تا۔اور پھر قلم کارنے تو ایک کامیاب و با مراد زندگی گزار ی ہے۔ہمیں تو حضرت پر رشک آتاہے کہ وہ سعودی عرب جیسے ارض نعیم اور دبئی جیسے ملک ِسیم کے درمیان جھول رہے ہیں اورایک ہم ہیں کہ ہنوز تالاب کٹے اور معین باغ کے درمیان دو فرلانگ کے جھونکے لے رہے ہیں۔زکریاصاحب کے ہم از حد شکر گزار ہیں کہ موصوف نے ہمیں چائے پر اور بالائے کرم بالائی والی چائے پر نیز کھڑے چمچے والی چائے پر مدعو فرمایاہے تاہم یاد باد کہ ”ہم وضع کے پابند ہیں کچھ کھا کے پئیں گے۔“پینے پر ایک بات یاد آگئی۔یہ اس زمانے کی بات ہے جب ہم استاد محترم مظہر القلم جناب محمد مظہر خوش نویس کے ہاں خطاطی سیکھ رہے تھے۔استاد محترم ادب نواز آدمی تھے اور شوق فرمایا کر تے تھے۔ سامنے جام و مینا داد اشتیاق دے رہے تھے۔ہمارا خامہ نو رفتہ سے ”س“کے دندانے کماحقہ ٗ نکل نہیں رہے تھے۔یہ دیکھ کرکہنے لگے عباس میاں!آپ کے ہاتھ بہت کم زور ہیں ”س“کے دندانے بنانے پر قدرت نہیں رکھتے۔پیالے کی طرف اشارہ کرکے فرمایا کہ میرے ساتھ ایک جام اٹھاؤ اور پھر دیکھو ”س“کے دندانے کیوں کر نہیں نکلتے۔اب ہم پریشان کہ استاد کا حکم ٹالا بھی نہیں جاسکتا اور شراب کی حرمت الگ دست تصرف کو تھام رہی تھی۔رہ رہ کر جلیل مانک پوری کا یہ شعر یاد آتا تھا ”بات ساقی کی نہ ٹالی جائے گی۔ کی ہے توبہ توڑ ڈالی جائے گی“ ہم نے استاد سے عرض کیا قبلہ!یہ تو بہت بے ادبی ہے کہ شاگرد استاد کے سامنے شراب نوشی کرے۔آپ تبرکاً کچھ بوتل میں چھوڑ دیں،فقیر گھر جاکر دوگھونٹ نوش جان کرلے گا۔او رپھر ہم نے دست بستہ عرض کیاکہ ”تنہائی میں مئے نوشی کا لطف ہی کچھ اور ہوتاہے“یہ سن کرحسب عادت زوردار قہقہ لگایااوربوتل ہمارے حوالے کردی۔جس میں کچھ باقی ماندہ شراب ہچکیوں میں ریاض خیرآبادی کا یہ شعر پڑھ رہی تھی۔ زاہد شراب پینے دے مسجد میں بیٹھ کر۔ یاوہ جگہ بتا دے جہاں پر خدانہ ہو
٭٭٭