مضامین

ڈرگس کا اناکونڈا-تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں

رشید پروین

بے انتہا خوبصورت،لازوال حسن اور ابدی سر مدیوں کی سر زمین، جسے یقینی طور پر خالق کائنات نے ساری زمین پر اپنے ایک شاہکار کی مانند تخلیق کیا ہے، اونچائیوں کے لحاظ سے بھی کشمیر کوسر کے تاج کا سب سے اونچا ، انمول اور قیمتی پر بناکر اس تاج میں سلیقے سے سجاکر اپنی مصوری کا بہترین اور عظیم مظاہرہ کیا ہے اور اسی مناسبت سے ایک دور میں سالار عجم حضرت سید علی ہمدانی ، علی ثانی کو بھی اپنے غیبی اشارے سے یہاں اسلام کی مشعل فروزاں کرنے کا عندیہ دیا جنہوں نے سات سو سے زیادہ سادات پُر کمال و پر جمال کے ساتھ یہاں تک دشوار گزار راستوں کو طئے کرکے دین اسلام، امن و شانتی اور اللہ کے پسندیدہ دین کی روشنیوں کو قریہ قریہ اور شہر شہر پہنچا کر اس سر زمین کو منور کیا، گویا اس سرزمین کی حیثیت کے مطابق ہی اتنی بڑی اولالعزم شخصیت کا انتخاب ہوا جس نے یہاں کے ذرے ذرے کو چاند ستاروں کا شرف بخشا، اس کے بعد تاریخ گواہ ہے کہ یہا ٰں لل دید کے بعد نورانی ریشیوں کی مشعلوں کا وہ سلسلہ نند ریش سے شروع ہوا جس نے سر زمین کشمیر کو روحانی طور پر یکتا اور ریشیت کا تاج عطا کیا اور اس کے بعد ان کرنوں سے ہزاروں آفتاب و ماہتاب شیخ الشیوخ پھوٹے جن کی تابناکی آج بھی ہمارے آسمانوں کی زینت ہے،،تاریخ کے ادوار اس بات کے بھی شاہد ہیں کہ ہم نے ذالچو کا قتل عام بھی دیکھا ہے اور ہمارے کوہ و بیاباں ’کا کڑ ‘خانوں کے شاہد بھی ہیں ، لیکن ہر بار اور ہر د ور سے یہ سر زمین کسی نہ کسی طرح ان تاریکیوں سے ابھرآئی ہے ، جو شاید ان سادات با کمال کی نظر عنایت ہے جنہوں نے اس مٹی کی خوشبو کو پسند فرماکر یہاں اپنی دائمی آرام گاہیں بنائی ہیں، لیکن ماضی قریب میں یعنی پچھلے تیس پنتیس برسوںکے دوراں جو انقلابات اس خطہ سرزمین نے دیکھے اور سہے ہیں وہ اپنی نوعیت اور کیفیت کے لحاظ سے مختلف اور منفرد قرار دیے جاسکتے ہیں ۔وہ کاکڑ خانوں اور ذالچو کے قتل عاموں سے بھی گھمبیر اور لرزہ خیز مسئلے ہیں ،ماضی قریب میں ہماری ایک مکمل نوجوان نسل کٹ چکی ہے ۔اور ہماری اب یہ دوسری نوجوان نسل ایک عفریت کی زد میں ہے ا ور یہ عفریت انا کونڈا کی شکل اختیار کرکے ہماری اس نئی نسل کو بڑی تیزی سے ، لیکن ایک منظم ، مستحکم اور مضبوط مافیا کی صورت سے نگل رہا ہے ، یہ ڈرگ مافیا ہے جو ایک ڈراکیولا کی صورت اختیار کرکے گھر گھر پہنچنے کا منظم منصوبہ بنا کر بِنا نظر آئے رقصاں ہے، گوگل سرچ کیجئے تو حیر ت انگیز نہیں بلکہ اندوہناک، اور المناک نتائج ہمارے پاو¿ں کے نیچے سے زمین کھسکا دیتے ہیں جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ہماری آبادی کا چار فیصد سے زیادہ حصہ ڈرگس میں مبتلا ہے۔ اس کا مطلب ۷۰۰۰۰ ہزار نوجوان جو ۱۷ برس سے ۳۵ برس عمر کے درمیان ہیں ،اس عفریت کا شکار ہوچکے ہیں ، اس کے ساتھ ہی یہ انکشاف بھی اذیت ناک ہے کہ اس میں ۳۱ فیصد ہماری نوجوان فیمیل سیکٹ کا ہے جو مختلف کالجوں اور اسکولوں میں زیر تعلیم ہے ۔ اس سے بڑی اذ یت اور عذاب کیا ہوسکتا ہے کہ مستقبل کی مائیں بھی اس انا کونڈا کی زد میں ہیں ، ماں جو ہر معاشرے میں بچے کی پہلی درس گاہ اور اور پہلی تربیت گاہ ہوتی ہے، اگر خود ہی نشہ باز اور اپنے آپ سے بے خبر ہوکر زندگی اور موت کے درمیان ایسے جھول رہی ہو کہ ، ”نہ جی رہی ہوں اور نہ مر رہی ہوں “ والی کیفیت میں سانسیں لے رہی ہوںتو ہماری اگلی نسل سے کیا توقعات وابستہ رکھی جاسکتی ہیں ؟ اور یقینی طور پر اور تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کسی قوم کا خاتمہ مقصود ہو، اسے تلوار کے بجائے اسی راستے پر ڈال کر اپنی موت آپ مرنے کے لیے چھوڑا جاتا ہے ۔ یہ گوگل کے اعداد و شمار ہیں اور اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ اصل تعداد بہت زیادہ بھی ہوسکتی ہے کیوں کہ سروے میں اور پھر اس قسم کے سروے میں لاتعداد ایڈکٹ خود نہ صرف پردوں میں چھپتے ہیں بلکہ شرم اور رسوائی کے ڈر سے والدین بھی اندر ہی اندر گھٹ کر اپنے بچے کی پردہ پوشی کرتے ہیں یہاں تک کہ وہ اپنے منطقی انجام تک پہنچتے ہیں اور یہ کوئی حیران کن بات نہیں کہ والدین دور و نزدیک ، آئے روز اخبارات کی رپورٹنگ کے مطابق اپنے نوجوان بیٹوں کی لاشیں ، کھیتوں سے ، کھلیانوں یا نزدیکی باغوں سے اپنے کندھوں پر اٹھاکر خاموشی کے ساتھ ا نہیں کفن پہنا کر دفن کر آتے ہیں۔ اندازہ کیجئے کہ والدین نے کس لاڈ پیار ، کتنی محنتوں، مشقتوں اور اپنی زندگی کی کتنی ساری خوشیوں اور ارمانوں کا گلہ گھونٹ کر اپنے اس بیٹے کو جوان کیا ہوتا ہے اور پھر ابھی یہ بیٹا ، ماں کا لاڈلا ، بہن کا بھائی اور اس گھرانے کا ونش آگے بڑھانے والا کسی طرح اس ڈراکیولا کا شکار ہوکر شباب کی دہلیز پر قدم رکھنے سے پہلے ہی سسک سسک کر مرتا ہے ، یہ غم یہ کرب اور دکھ ناقابل برداشت، ناقابل فراموش اور ناقابل بیان ہے۔ اس غم کا اندازہ ، اور ان کیفیات کا اندازہ کرنا ہی ناممکن سی بات ہے جن سے یہ والدین گزرتے ہیں ، لیکن صرف واویلا ہی اس کا مداوا نہیں ، در اصل شاید ابھی تک ہم اسی نہج اور مزاج پر قائم ہیں کہ ہمسائے کا گھر آگ میں خاکستر ہوا ، تو کوئی غم نہیں ،”میں محفوظ ہوں“ ، آج میرے ہمسائے کے گھر کے آنگن کا پھول کھلنے سے پہلے ہی مر جھا گیا تو کیا غم۔ میں اور میرے بچے محفوظ ہیں ، اگر آپ اور ہم ایسا سوچتے ہیں تو اس سے بڑی کوئی اور خود فریبی نہیں ہوسکتی کیوں کہ اب یہ مافیا اتنا مستحکم اور اپنا جال پھیلا چکا ہے ،کہ ہمارے بچوں کے لیے یہ زہر ہلاہل کالجوں اور اسکولوں میں بھی میسر رکھا جارہا ہے اور اس کے لیے وہی لڑکے استعمال اور ٹولز بنادیے جاتے ہیں جو ” ڈرگ گذیدہ “ہو کر ، اپنا ذہنی اور جسمانی توازن ہی کھو بیٹھتے ہیں ،یہاں یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ پولیس کبھی کبھی کسی ایڈکٹ یا پیڈلر کو کہیں گرفتار بھی کرتی ہے لیکن یہ آئینی اور عدالتی نظام ہی کچھ ایسا ہے کہ نہ انسانی فطرت کو سمجھتے ہوئے یہ خوف خدا ہی پیدا کرتا ہے اور نہ سماجی اور معاشرتی نظام کے اندر اداروں کا کہیں کوئی ڈر اور سزا کا امکان رہتا ہے۔ کسی فلاسفر کا یہ جملہ بہت کچھ واضح کردیتا ہے کہ ” جمہوریت میں آئین مکڑی کا وہ جال ہوتا ہے جسے طاقت ور توڑ کر نکلتا ہے اور جس میں کمزور پھنس کر رہ جاتا ہے “ بہر حال مختصر دیکھا جائے تو اسلام نے انسانی نفسیات کے عین مطابق اس کے لیے قوانین وضع کیے ہیں اور جب قرآن کے ذریعے شراب کی حرمت کا اعلان آیت کریمہ کی صورت میں آیا تھا تو ، ٹنوں شراب لوگوں نے خود ہی سڑکوں پر بہادی اور اس کے بعد کوڑوں کی سزا نے سارے معاشرے کے گردا گرد وہ فصیل اٹھا دی تھی کہ کوئی اسے پھاندنے کی جراµت نہ کرسکا اور جن اکا دکا آمیوں نے کی بھی تو وہ کسی بھی صورت میں کوڑوں کی مار سے نہ بچ سکے ۔ اندرونی اور بیرونی دونوں طرح کے احتیاطی اقدامات کے نتیجے میں ڈرگس فری معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ بہر حال اس طرح کی معاشرت جب موجود ہی نہ ہو تو پھر یہ سوال کہ کیسے اس عفریت سے نجات پائی جاسکتی ہے ، اس صورت حال میں جب کوئی فرشتہ آسمانوں سے یہ مہم سر کرنے کے لیے آنے والا نہیں، مجھے لگتا ہے کہ بس ایک صورت اور ایک ہی آپشن باقی رہ جاتا ہے، والدین خود آگے آئیں۔ والدین خود شروع سے ہی اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے اپنی اولاد کی بہتر اور مذہبی اقدار کے مطابق پرورش کی کوششیں کریں ۔۔میں نے اس مضمون میں وادی کشمیر کے اعداد و شمار دیے ہیں کیونکہ بیس پچیس برس پہلے کشمیر میں کہیں کہیں صرف چرسیوں کی ایک بہت ہی معمولی تعداد دکھائی دیتی تھی جنہو ں نے اپنے ٹھکانے ہی بستیوں سے دور بنا رکھے تھے اور جہاں وہ کسی اور کو اندرآنے کی اجازت کسی بھی صورت نہیں دیتے تھے ، لیکن اب حال یہ ہے کہ خطرناک ڈرگس اناکونڈا بن کر ہمارے گھروں، درسگاہوں اور دانشگاہوں کے اندر بسیرا کر رہے ہیں، بھارت میں ایک سروے کے مطابق عادی ڈرگس لینے والوں کی تعداد ۲۰۲۱ میں ۵ پرسنٹ سے بڑی تیز رفتاری کے ساتھ منزلیں طئے کرکے ۲۰۲۲ تک ۱۴پرسنٹ تک پہنچ چکی ہے ۔ اگر چہ اس کے تدارک میں بہت دیر کی گئی ہے لیکن حالیہ مہینوں میں ڈرگ پیڈلروں کے خلاف ایسا لگتا ہے کہ مہم شروع کی جا چکی ہے۔ اس ضمن میں اسکولوں اور کالجوں کا بھی بہت بڑا رول بنتا ہے ۔ سول سو سائٹیٹیوں کا بھی ایک اہم رول بنتا ہے کہ اپنی اس اثاث اور نئی نسل کی نگہداشت میں کوئی کسر باقی نہ رکھیں کیوں کہ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ ہماری اصل اثاث ہماری جائدادیں اور کمپلیکس نہیں بلکہ ہماری یہ اولادیں ہی ہوتی ہیں ، ہماری اولادوں کی بہتر تربیت صرف ان پر بہت سارا پیسہ خرچ کرنے میں مضمر نہیں، بلکہ اپنی نسل کو بہتر اقدار اور صحت مند سوچ و فکر کا حامل بنانے میں ہے،اور یہ تربیت اسے سب سے پہلے اپنی ماں کی گود سے مل سکتی ہے، کیوں کہ یہ چھاپ اولین اور گہری ہوتی ہے جو بچے کے ذہن پر مستقل طورپر چھپ کر رہ جاتی ہے ، اس کے علاوہ اس عفریت کا مقابلہ کرنے اور اس سیلاب پرہم سب کو آگے آکر با ندھ باندھنے کی ضرورت ہے۔کوشش نہیں کریں گے تویہ عفریت جسامت اختیار کرتا رہے گا اور بہت جلد اس مقام پر پہنچے گا جہاں پھر ہم اس کا نہ تو مقابلہ کرنے کے اہل ہوں گے اور نہ ہی ہم میں ایسا کرنے کی ہمت ہی ہوگی۔ دوسری اور اہم بات ،ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم مروجہ تعلیم کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں میں قرآن فہمی کا شوق پیدا کریں ،کیوں کہ اصل ِحیات بھی یہی ہے اور اصل زندگی بھی ہر لحاظ سے یہ تعلیمات ہیں جو انسان کو اپنے معاشرے میں متوازن اور بغیر ریپرشن ، ڈیپرشن اور سپریشن کے زندگی گزارنے پر آمادہ کرتی ، کیونکہ اسلام کی بنیادی تعلیم اس کے ذہن پر چھپ جائے تو وہ زندگی کے کسی موڈ پر اللہ کی مشیت اور منشا سے بغاوت نہیں کرتا ، اور اس منشا اور مرضی سے بغاوت ہی اصل میں ڈیپرشن ، سپرشن اور ریپرشن کو جنم دیتی ہے۔