کانگریس آر ایس ایس کی ماں : پروفیسر ولاس کھرات
ملک سنگین حالات سے گزررہاہے۔ عوام تاریخی حقائق سے ناواقف ہیں ‘ آزادی کے بعد سے جو سبق پڑھایا گیا اسی کو سچ سمجھ کر پون صدی گزاردیئے۔ سیکولرازم کا نقاب عوام پر اس طرح سے چڑھایا گیا کہ ان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم ہوگئی لیکن بعض دانشمندوں نے جانفشانی سے محنت کرکے پوشیدہ حقائق کا پردہ فاش کیا۔
محمد انیس الدین (سابق بینکر و این آرائی )
8374567294
ملک سنگین حالات سے گزررہاہے۔ عوام تاریخی حقائق سے ناواقف ہیں ‘ آزادی کے بعد سے جو سبق پڑھایا گیا اسی کو سچ سمجھ کر پون صدی گزاردیئے۔ سیکولرازم کا نقاب عوام پر اس طرح سے چڑھایا گیا کہ ان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم ہوگئی لیکن بعض دانشمندوں نے جانفشانی سے محنت کرکے پوشیدہ حقائق کا پردہ فاش کیا۔ پروفیسر ولاس کھرات بابا امبیڈکر ریسرچ سنٹر کے ڈائرکٹر ہیں اور بام سیف تنظیم کے جنرل سکریٹری ہیں جنہو ںنے ’’ کانگریس ‘ آر ایس ایس کی ماں! ‘‘ نامی کتاب تحریر کی اور اس کا اردو ترجمہ سید مقصود سکریٹری بام سیف تلنگانہ نے کیا۔ یہ کتاب کانگریس کا اصل چہرہ سامنے لانے کیلئے ایک اہم دستاویز کاکام کررہی ہے۔ عوام اس کتاب کا ضرور مطالعہ کریں۔ یہ کتاب150صفحات اور 7ابواب پر مشتمل ہے۔ کتاب میں۱۲ابواب ہیں‘ جس کے عناوین ذیل میں ہے۔
(۱) قیام کانگریس کی تاریخ اور اس کا مقصد۔(۲)کانگریس آر ایس ایس کی ماں(۳) گاندھی کا قتل ‘ آر ایس ایس‘ نہرو‘ گولوالکر۔(۴) پونہ پیکٹ کی وجہ سے آر ایس ایس مضبوط ہوئی۔ (۵) بابری مسجد کس نے گرائئی۔(۶) ورن اور ذات پات کے نظام کی تائید میں گاندھی۔ (۷) گولوالکر کا روزنامہ نواکال میں متنازعہ انٹرویو۔(۸) نہرو اور بابا صاحب کے اہم خطوط۔ (۹) جواہر لال نہرو کا ریزرویشن کے خلاف لکھا رازدارانہ خط۔(۱۰) سری سری روی شنکر کا متنازعہ دھمکی آمیز خط ۔(۱۱) وامن مشرم کے ذریعہ سری سری روی شنکر کو منہ توڑ جواب۔(۱۲) کانگریس اور آر ایس ایس کے تعلقات کی منہ بولتی تصویر۔
مصنف کتاب نے کتاب کے مقدمہ میں اس بات کا ذکر کیا کہ گجرات کے اسمبلی انتخابات میں صدر کانگریس راہول گاندھی کو برہمنوں کا مقدس دھاگہ جو برہمن اپنے گلے میں ڈالتے ہیں دکھا کر عوام کو یہ یقین دہانی کروارہے تھے کہ وہ برہمن ہیں اور مودی سے مقابلہ کرتے ہوئے مندروں کے درشن بھی شروع کردیئے اورمسلمانوں سے دوری اختیار کرتے گئے۔ اس وقت کانگریس کا سیکولرازم کہاں غائب ہوگیاتھا۔
مصنف نے اس کتاب کے مقدمہ میں ایک بہت ہی اہم دھماکہ کیا ہے جس سے سیکولرازم کے مریدوں کی نہ صرف آنکھ کھل جاتی ہے بلکہ روح بھی قبض ہوجانے کا قوی امکان ہے۔ اس کتاب کے شائع کروانے کا بنیادی مقصد یہ بتاتا ہے کہ سیکولرازم اور فرقہ پرستی کا پردہ فاش کرنا ہے۔ خود پنڈت نہرو آر ایس ایس کی شاکھاؤں میں شرکت کرتے تھے ‘ نہرو آر ایس ایس کا خاکی ڈریس بھی پہنتے تھے۔ 1963ء کی یوم جمہوریہ پریڈ کے موقع پر 3500 آر ایس ایس کے رضاکار انڈیا گیٹ پریڈ میں شامل تھے۔ خاص بات یہ ہے کہ یہ رضاکار نہرو کی سفارش پر پریڈ میں شال ہوئے تھے۔
گائے کا مسئلہ ‘ کانگریس کا رام راج کا منصوبہ ‘ بھارت کی تقسیم کا مسئلہ‘ آج بی جے پی ان ہی مسائل کو اپناکر گزشتہ دس سال سے راج کررہی ہے۔ اب کانگریس اپنے اصلی روپ میں آنے کے لئے کوشاں ہے۔ اسی لئے کانگریس اور آر ایس ایس کی ماں اور بیٹے کی رشتہ داری کو منظر عام پر لانے کیلئے ’’ کانگریس آر ایس ایس کی ماں‘‘ نامی کتاب شائع کرنے کی سخت ضرورت محسوس ہوئی۔ یہ کتاب ثبوت کی بنیاد پر لکھی گئی ہے اور ان حقائق سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ اس کتاب کاانتساب ملک کے نامور عالم دین مولانا سجاد نعمانی صاحب کے نام ہے۔
مسلمان اس حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کریںکہ ملک میں دو قسم کے دشمن ہیں۔ ایک ظاہری دوسرا باطنی‘ دشمنی دونوں کی برابر ہے۔ اگر مسلمان ان سے بچنے کیلئے گود بدلتے رہیں تویہ مسئلہ کا حل نہیں ہوگا۔ مسلمان ایک مضبوط اتحاد کے ذریعہ مرکز سیاسی پر آئیں۔ اسی وقت مسلمان کوئی سیاسی مقام حاصل کرسکتے ہیں اورحکمرانوں سے اپنے حقوق حاصل کرسکتے ہیں۔ بعض مسلمان اتحاد کے تعلق سے ناامید ہیںاور قدیم آقاؤں کی طرف رخ کررہے ہیں اور دوسروں کو بھی ورغلارہے ہیں۔
مولانا سجاد نعمانی صاحب سوشیل میڈیا پر بہت ہی معلوماتی اور تاریخی حقائق پر مبنی فکر انگیز پیامات مسلمانوں تک خرابیٔ صحت کے باوجود ارسال کررہے ہیں‘ حال ہی میں یوٹیوب پر ایک تقریر دیکھنے کا موقع ملا جس کا عنوان ’’ گاندھی کا اصل چہرہ اور تحریک خلافت‘‘ تھا ۔ خلافت تحریک نے گاندھی کو مہاتما کا نہ صرف مقام عطا کیا بلکہ موصوف کو ہند میں تحریک خلافت کا صدر بنادیا۔ اس کے بعد گاندھی جی نے کیسے اس صدارت سے استعفیٰ دے کر تحریک خلافت کو نقصان پہنچایا اس کی تفصیلات آپ مولانا کی زبان سے سنیں۔
ہند کے مسلمان قبل آزادی اور بعد آزادی بھی قدیم قومی جماعت کی مکاری اور عیاری اور ان کے قائدین کی چالاکی اور چالبازیوں کا شکار رہے اور حقیقت میں کانگریس اور آر ایس ایس ایک ہی سکہ کے دو رخ ہیں۔ یہ صرف عوام کو آر ایس ایس سے مخالفت کا ڈھونگ رچارہے ہیں۔
اگست1930ء میں ایک کتاب ہندو راج کے منصوبے کے نام سے شائع ہوئی تھی جس کے صفحہ136 پر گاندھی جی کی خطرناک دھمکی ذیل میں ملاحظہ فرمائیے:
’’ یہ خیال نہ کرنا چاہیئے کہ یوروپین کیلئے گاؤ کشی جاری رہنے کی بابت‘ ہندو کچھ بھی محسوس نہیںکرتے۔ میں جانتا ہوں کہ ان کا غصہ اس خوف کے نیچے دب رہا ہے جو انگریزی عملداری نے پیدا کیا ہے۔ مگر ایک ہندو بھی ہندوستان کے طول و عرض میں ایسا نہیں ہے جو ایک دن اپنی سرزمین کو گاؤ کشی سے آزاد کرانے امید نہ رکھتا ہو۔ ہندو مذہب کو جیسا میں جانتا ہوں اس کی روح کے سراسرخلاف عیسائی یا مسلمان کو بزور شمشیربھی گاؤ کشی چھوڑنے پر مجبور کرنے سے اغماض نہ کرے گا۔‘‘ (اخبار اسٹیٹمین الفضل۔ قادیان9مارچ1968صفحہ 6)
عدم تشدد کے مہاتما کے لب ولہجہ پر غور کیجئے۔ یہ کیسی سوچ کے حامل تھے۔ ملک کے معصوم مسلمان گاندھی جی کے جال میں آئے اور انہوں نے ہی مہاتما کے خطاب سے نوازا۔ اسی دور میں کسی شاعر نے معصوم مسلمانوں کی گاندھی سے عقیدت پر حسب ذیل اشعار کہے
احباب سے ہم نے یہ شرط باندھی
بجلی گرے ‘ اولے پڑیں آئے آندھی
سر اپنا پٹے‘ شوکت اسلام مٹے
پر ہم وہ کریں گے جو کہے گا گاندھی
قدیم کتاب سے گاندھی جی نے جو دھمکی دی اس پر کتاب کے حاشیہ پر جو تبصرہ ہے‘ عوام کی آگاہی کیلئے ہوبہو ذیل میں پیش ہے:
’’سوچیں اور غور کریں کہ ان کے پیرومرشد اور قائد اعظم کی جب اصل ذہنیت یہ ہے تو کیا وہ طاقت پکڑتے ہی اپنے اعلان کو عملی جامہ پہنائیں گے؟ کیا ایسے شخص کی ہاں میں ہاں ملانا اور اس کی امن شکن تحریکوں میں حصہ لے کر اسے تقویت پہچانا خود اپنے ہاتھوں مسلمانوں کی ہستی فنا کرنا نہیں ؟ جو شخص علی الاعلان کہہ چکا کہ وقت آنے پر بزور شمشیر گاؤ کشی بند کروائی جائے گی ‘ اس سے کسی خیر کی توقع ہوسکتی ہے۔‘‘
جدوجہد آزادی میں سب سے بڑی جانی اور مالی قربانی مسلمان علمائ‘ نوجوان اور خواتین نے دی لیکن آزادی کا انعام برہمنوں کو ملا اور آج بھی ہند پر ان کا ہی راج ہے۔ ملک کے تمام اہم انتظامی عہدوں پر ان ہی کا قبضہ ہے اور اجارہ داری ہے۔ کیا کوئی اس حقیقت سے انکار کرسکتا ہے؟
مولانا آزاد کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ مولانا کی ولادت مکہ کی مقدس سرزمین پر ہوئی اور ان کی مادری زبان عربی تھی اور مولانا کانگریس کے قابل ترین قائدین میں شمار ہوتے تھے اور تین مرتبہ کانگریس کی صدارت کی اہم ذمہ داری بھی پوری کی اگر مولانا آزاد سیاست میں نہ آتے ممتاز عالم دین بن جاتے لیکن ایک قوم اور دو قوم کے نظریہ میں گاندھی جی کی چالاکی کا شکار ہوگئے۔ گاندھی جی ایک قوم کا نعرہ لگاتے جبکہ بھارت میں بقول سجاد نعمانی صاحب 6ہزار قومیں آباد تھیں۔ اسی وجہ سے عالم تشویش میں تقسیم کے وقت کانگریس قائدین سے انگریزوں نے بہت اہم سوال کیا کہ زمام حکومت کس کے حوالے کی جائے؟ جواب ملا کہ عوام کے ہاتھوں میں دی جائے۔ حکومت عوام کے ہاتھوں میں آئی اور دستور بنا اور پارلیمانی نظام حکومت سیکولر حکومت کے نام سے قائم ہوئی اور پنڈت نہرو پہلے وزیراعظم بنے اگر کانگریس چاہتی تو یہ ذمہ داری مولانا آزادکودیتی لیکن ایسا نہیںہوا۔
قدیم قومی جماعت کانگریس کو سب سے زیادہ نقصان اس کی منافقت اور دو رخی پالیسی سے ہوا جس کا ثبوت موجودہ حالات ہیں۔ کانگریس نے اپنی بربادی کا محاسبہ کرنے ‘ اپنی کوتاہیوں اور غلطیوںکا اعتراف کرتے ہوئے ملک کو جمہوری اور سیکولردھارے کی جانب راغب کرنے کے بجائے اپنا رنگ تبدیل کرتے ہوئے سنگھ پریوار کی بے ڈھنگی اور نقصان دہ روش پر چلتے ہوئے ملک کے مسلمانوں کو یکسر نظر انداز کرنے کی روش اختیار کی جس کی وجہ سے اس کا صد فیصد فائدہ سنگھ پریوار کو ہوا۔
انسان کا ضمیر اس کو کبھی بھی غلط رہنمائی نہیں کرتا۔ ہم اپنی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے حقائق آپ کے سامنے پیش کئے ہیں‘ آپ کا فیصلہ ضمیر کی آواز کے مطابق ہونا چاہیے لیکن EVM سے رائے دہی ہونے پر کسی بھی قسم کے فیصلہ کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا اور جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا معاملہ ہوگا۔
سارے عالم میں ظالم متحد اور مظلوموں میں اتحاد کا فقدان ہے۔ اس عدم اتحاد کا فائدہ اٹھا کر ظالم خود دہشت کرتے ہوئے الزام مظلوم پرڈال رہے ہیں لہٰذا اتحاد بین المظلومین داخلی اور خارجی وقت کی اہم ترین ضرورت ہوچکا ہے۔ دہشت پر ظالم سے ہی دہشت کے خاتمہ کی التجا سے دہشت کا خاتمہ قیامت تک نہیں ہوسکتا۔
ہند کے مسلمان اتحاد بین المظلومین کی جانب توجہ کریں تاکہ دہشت ملک سے دہشت اور نفرت کا خاتمہ ہوجائے اور مظلومین کو ان کے حقوق مل جائیں۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰