مضامین

کرناٹک میں کانگریس کی کامیابی۔ اپوزیشن کو متحد ہونے کا موقع

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد

کرناٹک اسمبلی انتخابات میں کانگریس کی شاندار کا میابی نے جہاں کانگریس پارٹی کے قائدین کو ایک نیا حوصلہ بخشا وہیں ملک کی اپوزیشن پارٹیوں کو بھی کانگریس کی طاقت کا اندازہ ہوا۔ اب ملک کی کئی اہم پارٹیاں یہ ماننے لگی ہیں کہ کانگریس کو ساتھ لیے بغیر ملک سے بی جے پی کا صفایا نہیں کی جا سکتا۔ کانگریس سے ملک کو مُکت کرنے کا دعویٰ کرنے والی پی جے پی نے کرناٹک اسمبلی الیکشن جیتنے کے لئے ساری کرتب بازی کرلی۔ پوری ریاست میں مذہبی منافرت کا ماحول پیدا کرکے فرقہ پرستی کا وہ زہریلا مظاہرہ کیا کہ اس کی کوئی حد باقی نہ رہی۔ ریاست کے مسائل پر بحث کرنے کے بجائے ساری انتخابی مہم متنازعہ موضوعات کوچھیڑ کر چلائی گئی۔ وزیر اعظم نریندرمودی اور ملک کے وزیر داخلہ امیت شاہ نے کرناٹک اسمبلی انتخابات کو ایک قومی مہم میں تبدیل کرتے ہوئے اپنی ساری قوت لگادی، لیکن کرناٹک کے رائے دہندے جانتے تھے جس حکومت نے چار سال تک ان کی فلاح و بہبود کا کوئی کام نہیں کیااور ریاست کو ترقی کی طرف لے جانے کے بجائے اپنی ساری توجہ فرقہ وارانہ سیا ست کھیلنے کی طرف مرکوز کردی، اب مزید اس پارٹی کو اقتدار میں لانا ریاست کو مزید تباہی کی طرف لے جانا ہے۔ اسی لیے کرناٹک کے عوام نے بی جے پی کے کسی وعدہ پر بھروسہ نہ کرتے ہوئے اسے کراری شکست سے دوچار کردیا۔ کرناٹک اسمبلی کے الیکشن کو آئندہ سال ہونے والے لوک سبھا کے الیکشن کا سیمی فائنل کہا جا رہا تھا۔ 224 رکنی اسمبلی میں کانگریس کو 135حلقوں میں کا میابی ملی جب کہ بی جے پی کو صرف 66نشستوں پر اکتفا کرنا پڑا۔ اس طرح کہا جاسکتا ہے بی جے پی نے ملک کو کانگریس سے مکت کرنے کا جو نعرہ لگایا تھا وہ تو کامیاب نہیں ہوا۔ البتہ کانگریس نے اپنی اس کا میابی کے ذریعہ جنوبی ہند کو بی جے پی سے مکت کر دیا۔ اب جنوبی ہند کی کسی بھی ریاست میں بی جے پی اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانے میں آسانی کے ساتھ آگے نہیں بڑھ سکتی۔ 2018 کے اسمبلی الیکشن میں سب سے بڑی جماعت بن کربی جے پی یہ سمجھ رہی تھی کہ اب جنوب کی دیگر ریاستوں میں بھی اس کا اقتدار قائم ہوجائے گا۔ اسی حکمت عملی کے تحت گز شتہ چار سال کے دوران اکثریتی طبقہ کو گمراہ کرنے کا کام کیا گیا۔ اس کے لیے ریاست کے مسلمانوں کی زندگی اجیرن کرکے رکھ دی گئی۔ خاص طور پر ایسے موضوعات کو زیر بحث لایا گیا جن کا راست مسلمانوں سے تعلق تھا۔ مسلم لڑکیوں کے حجاب سے لے کر لاو¿ڈ اسپیکر پر اذان دینے کے مسئلہ کو اچھالا گیا۔ پھر اس کے بعد کئی متنازعہ عنوانات ہی بی جے پی کی پسند رہے۔ عین الیکشن سے پہلے ریاست کے مسلمانوں کو تعلیم اور روزگار میں دیا جانے والا چار فیصد ریزرویشن بھی کھٹکنے لگا اور اچانک اس کو ختم کر دیا۔ ان سارے تنگ نظری پر مبنی اقدامات کا مقصد صرف ریاست میں مذہب کی بنیاد پر فضاءکو خراب کرکے اپنے سیاسی مفادات کی تکمیل کرنا تھا۔ کرناٹک کے سنجیدہ اور انصاف پسند عوام یہ سب دیکھ رہے تھے اور بی جے پی کو جواب دینے کے لیے وقت کا انتظار کر رہے تھے۔ 10 مئی کو رائے دہندوں نے بی جے پی کی ان ساری کارستانیوں کا جواب دے دیا۔ 13 مئی کی صبح سے ہی بی جے پی قائدین حواس باختہ ہونے لگے اور دوپہر تک انہیں معلوم ہوگیا کہ ان کے تابوت میں آخری کیل عوام نے ٹھونک دی۔ عوام نے کانگریس کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے کرناٹک کو فرقہ پرستی کی سیاست سے نکال لیا۔ کانگریس کی یہ زبردست کا میابی دراصل کرناٹک کے باشعور رائے دہندوں کی سیاسی سوجھ بوجھ کا نتیجہ ہے۔
کرناٹک اسمبلی الیکشن میں کانگریس کی اس زبردست فتح کے بعد ملک میں ایک نئی سیاسی شیرازہ بندی کے بھی آثار ظاہر ہونے لگے ہیں۔ تین دن پہلے مغربی بنگال کی چیف منسٹر اور ترنمول کانگریس کی سربراہ ممتا بنرجی نے کہا کہ وہ 2024کے لوک سبھا الیکشن میں کانگریس کی تائید کرنے تیار ہے۔ اب تک ان کا الزام تھاکہ مغربی بنگال میں کانگریس بی جے پی کی مدد کر رہی ہے، لیکن اب ان کا ذہن اس بات پر آمادہ ہو رہا ہے کہ کانگریس کو ساتھ لے کر ہی بی جے پی کے خلاف مورچہ بندی کی جا سکتی ہے اور اس کے بہتر نتائج بھی سامنے آنے کے پورے امکانات ہیں۔ یہی سوچ اب ملک کی دیگر سیکولر پارٹیوں کے قائدین کی بھی ہورہی ہے۔ بہار کے چیف منسٹر اور جنتادل ( یو ) کے قائد نتیش کماراور ملک کے اہم قدآور قائد شرد پوار بھی اس بات کے قائل ہیں کہ کانگریس سے نظریاتی اختلافات کے باوجود اسے سیکولر محاذ سے دور رکھنا ملک میں فرقہ پر ستی کو بڑھاوا دینا ہوگا۔ ملک کی اہم علاقائی پارٹیاں بھی بی جے پی سے اپنا فاصلہ بنائی ہوئی ہیں۔ حالات کے اس تناظر میں کانگریس کی قیادت میں غیر بی جے پی سیکولر محاذ تشکیل پاتا ہے تو آئندہ سال ہونے والے عام انتخابات میں بی جے پی کو شکست دینا کوئی نا ممکن کام نہ ہوگا، لیکن اس کے لیے سب ہی سیکولر پارٹیوں کو اٰٰیثار و قربانی کے جذبہ سے آ گے بڑھنا ہوگا۔ بی جے پی کے سیاسی غلبہ کو آسانی سے ختم نہیں کیا جاسکتا۔ ہر الیکشن میں بی جے پی کے لیے ساری ہندوتوا تنظیمیں یک جٹ ہو کر کام کر تی ہیں۔ کرناٹک الیکشن میں بھی مبینہ طور پر پانچ ہزار سے زائد آر ایس ایس کے کارکن گز شتہ چھ ماہ سے گاو¿ں ، گاو¿ں پھر کر بی جے پی کے لیے مہم چلارہے تھے۔ بجرنگ دَ ل جیسی تنظیم فرقہ وارانہ ماحول کو گرما کر ہندوو¿ں کے ووٹ متحد کرنے میں لگی تھی۔ اسی طرح وہ تنظیمیں جو کسی نہ کسی طرح سنگھ پریوار سے اپنا رشتہ رکھتی ہیں ہر الیکشن میں اپنے سیاسی باوز کی مدد کے لیے انتخابی مہم میں کود پڑتی ہیں۔ ان سب کا مقابلہ کرنے کے لیے سیکولر پارٹیوں کو ایک جامع حکمت عملی کے ساتھ رائے دہندوں سے رجوع ہونا پڑے گا۔ محض ایک ریاست میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ کر یہ سمجھنا کہ پورے ملک سے فسطائی طاقتوں کا قلع قمع ہو گیا یہ سیاسی دانشمندی نہیں ہو گی۔ اس سال کے اوخرا میں چار ریاستوں، چھتیں گڑھ، تلنگانہ ، مدھیہ پردیش،راجستھان اور میزورم میں اسمبلی الیکشن ہونے والے ہیں۔ ان ریاستوں میں سیکولر پارٹیوں کا بر سر اقتدار آنا سیاسی مطلع کو صاف کرنے کا ذریعہ بنے گا۔ لوک سبھا الیکشن سے پہلے ہی اپوزیشن پارٹیوں کے درمیان تال میل اور انتخابی مفاہمت حالات کو سیکولر پارٹیوں کے حق میں سازگار کر سکتی ہے۔ عام طور پر دیکھا گیا کہ سیکولر پارٹیان نظریاتی ہم آہنگی رکھنے کے باوجود انا کے خول میں بند ہوتی ہے۔ اس معاملے میں کانگریس کا رویہ سابق میںآمرانہ نوعیت کا رہا۔ کانگریس قائدین ہمیشہ یہ چاہتے ہیں کہ ساری پارٹیوں پر کانگریس کو فوقیت حاصل ہو۔ کانگریس نے بارہا بڑے بھائی کا رول ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس لئے خاص طور پر علاقائی پارٹیوں کو یہ شکایت رہی کہ کانگریس ان کے اثر و رسوخ کے علاقوں پر بھی قبضہ کرنا چاہتی ہے۔ اس کی اس سوچ کا خود کانگریس کو نقصان ہوا۔ ممتا بنرجی نے بھی گز شتہ دنوں جو بیان دیا اس میں انہوں نے یہ بات صاف طور پر بیان کر دی کہ جن ریاستوں میں کانگریس کا موقف مضبوط ہے وہاں اپوزیشن پارٹیاں کانگریس کی تائید کریں اور جہاں علاقائی پارٹیاں مضبوط ہوں، وہاں کانگریس ان کی تائید کرے۔ اسی حکمت عملی کے ذریعہ بی جے پی کو شکست دی جا سکتی ہے۔ ممتا بنرجی کی یہ تجویز اگرچکہ بہتر ہے۔ آیا اس پر سیکولر پارٹیوںکا اتفاق ہو سکتا ہے۔ یہ مشورہ قابل ستائش ہے لیکن قابل عمل اس لیے نہیں ہے کہ اس پر سیکولر پارٹیاں رضا مند نہیں ہو ں گی۔ ہر پارٹی اپنا ووٹ بینک ہر جگہ رکھنا چاہتی ہے۔
ملک سے فرقہ پر ستی کے خاتمہ کے لئے سیکولر پارٹیوں کے درمیان اگر مفاہمت ہوجا تی ہے اور ایک مشترکہ ایجنڈا کے ساتھ یہ پارٹیاںعوام کے درمیان جا تی ہیں تو اس کے گہرے سیاسی اثرات بر آمد ہو سکتے ہیں۔ بی جے پی کے خلاف متحدہ اپوزیشن کا قیام ہی سارے مسائل کا حل ہے۔ چھوٹی ، چھوٹی سیاسی پارٹیوں کا آپس میں مل جانا کوئی دوررس نتائج کا باعث نہ ہوگا۔ وہ ساری سیکولر پارٹیاں جو ملک کو فرقہ واریت کی عفریت سے نکالنا چاہتی ہیں ان سب کو ایک سیکولر پلیٹ فارم پر جمع ہونا پڑے گا۔ یہ وقت کا تقاضا بھی ہے اور عوام کا مطالبہ بھی ہے۔ منتشر سیکولر طاقتیں ملک کو فرقہ پر ستی کی دلدل سے نکالنے میں کامیاب نہیں ہو سکتیں۔ اس کے لیے مشترکہ جدوجہد کی ضرورت ہے۔ کرناٹک اسمبلی الیکشن کے نتائج نے ثابت کر دیا کہ عوام ان تفرقہ پسند طاقتوں سے تنگ آگئے ہیں جو محض اپنے سیاسی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے عوام کو مذہب یا ذات کی بنیاد پر تقسیم کر کے ان کو آپس میں لڑاتی ہیں۔ بی جے پی کی پالیسیاں عوام دوست ہو تیں تو آج اس کا یہ حشر نہ ہوتا۔ عوام بھی سیاسی طور پر با شعور ہو چکی ہیں۔ اسے اپنی نسلوں کی تعلیم اور روزگار کی فکر ہے۔ ہندوتوا کا انجکشن دے کر عوام کو زیادہ دن تک سُلا کر نہیں رکھا جا سکتا۔ کرناٹک میں ہندوو¿ں کو باور کرایا گیا کہ مسلمان تمہارے دشمن ہیں۔ لہٰذا ہماری ساری کارروائیاں جومسلمانوں کے خلاف کی جا رہی ہیں، وہ تمہیں فائدہ پہنچانے کے لیے ہیں، لیکن کرناٹک کے سمجھدار اور انصاف پسند عوام جان چکے تھے کہ بی جے پی نہ مسلمانوں کی دوست ہے اور نہ ہندوو¿ں کی بہی خواہ ہے۔ اس لیے انہوں نے اپنی ریاست میں اسے چاروں خانے چِت کردیا۔ بی جے پی کی اس سیاسی ہزیمت سے ہر سیاسی پارٹی کو سبق لینے کی ضرورت ہے۔ یہ بات سچ ہے کہ ہمیشہ ہر ایک کو بیوقوف نہیں بنایا جا سکتا ہے۔ کرناٹک الیکشن کے بعد کانگریس کا جو قد بلند ہوا ہے اسے باقی رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس سیاسی جیت پر غرور اور تکبر کا شکار ہوئے بغیر جو وعدے الیکشن سے پہلے کئے گئے اس کو پورا کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات کر ے۔ عوام نے 2013ء کے بعد ایک بار پھر کانگریس پر بھروسہ کیا ہے۔ اب اگر وہ عوام کے اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کی کوشش کرے گی تو اس کا خمیازہ آنے والے اسمبلی الیکشن میں اسے چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش اور راجستھان میں بھگتنا پڑے گا۔ کانگریس کو ایک طرف کرناٹک کو ایک مثالی ریاست بنانے کے لیے اپنی کوششوں کو تیز کرنا ہوگا اور دوسری طرف سیکولر طاقتوں کو مجتمع کرنے کے لیے ملک گیر سطح پر کام کرنا ہوگا۔ کرناٹک میں سب ہی طبقوں نے کانگریس کو برسراقتدار لانے میں اپنی ساری طاقت جھونک دی ۔ ان میں مسلمان بھی شامل ہیں۔ کانگریس کی یہ شاندار کامیابی کانگریس کے حق میں مسلمانوں کے متحدہ ووٹوں کا نتیجہ ہے۔ اس حقیقت کو خود کانگریس کے قائدین تسلیم کرتے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ کانگریس نے جو وعدے مسلمانوں سے کیے تھے ،انہیں روبہ عمل لایا جائے۔یہ امید کی جا تی ہے کہ کانگریس اپنے وعدوںکو فراموش نہیں کرے گی۔ کرناٹک میں مسلمانوں کے ساتھ انصاف ہوگا تو پھر دیگر ریاستوں میں مسلمان کانگریس کا ساتھ دیں گے اور 2024 میں مرکز میں کانگریس کو اقتدار پر لانے میں مسلمانوں کا کلیدی رول ہوگا۔ کرناٹک کی اس کا میابی سے کانگریس سارے ملک کو یہ پیغام دے کہ وہ ملک میں سیکولر اقدار کی بحالی کے لیے کسی بھی سیکولر پارٹی کے ساتھ چلنے کے لئے تیار ہے۔ جہاں جس پارٹی کا موقف مضبوط ہوگا وہاں کانگریس اس سیکولر پارٹی کی تائید کرے گی۔ کانگریس قائدین کا یہ اٹل موقف ہی ملک میں اپوزیشن کو متحد کر سکے گا اور ملک میں سیکولر پارٹیوں کے اتحاد کے ذریعہ ایک جمہوری اور عوام دوست سیکولر حکومت مرکز میں قائم ہو گی۔ اس کے لیے ابھی سے اپوزیشن پارٹیوں کو حکمت عملی ترتیب دینی ہوگی۔٭٭