طنز و مزاحمضامین

کٹی عمر ہوٹلوں میں

سید محمد جلیل

ہوئے اس قدر مہذب کبھی گھر کا منھ نہ دیکھا
کٹی عمر ہوٹلوں میں، مَرے اسپتال جاکر
اکبر الٰہ آبادی مرحوم کے ذہن میں اس شعرکو کہتے وقت کس طرح کے ہوٹلوں کا تصور تھا، یہ تووہ جانیںمگر یہ تو طے ہے کہ ان کے زمانے میں آج کی طرح کے اعلیٰ معیار، فائیو اسٹار ہوٹل تو عام تھے نہیں جہاں عمر کاٹنے کا ہر کس وناکس تصور بھی کر پاتا،البتہ آج ایسے ہوٹل ضرور عام ہیں کہ اگرمالی حیثیت اچھی ہے تو نہ صرف ان ہوٹلوں میں عمر گزارنے کی تمنا کی جا سکتی ہے بلکہ وہ محبوب بھی جو کسی کے گھر میں جا کر ملنا معیوب سمجھتا ہے،ان ہوٹلوں میں بے دھڑک ملنے آسکتاہے۔اور اگرخدا نخواستہ وہیں مر بھی گئے تو کم از کم یہ غم تو نہیں ستائے گا کہ
زندگی میں تو وہ محفل سے اٹھا دیتے تھے
دیکھوں اب مر گئے پہ کون اٹھاتا ہے مجھے
اگر غالب کے زمانے میںاس طرح کے ہوٹل ہوتے تو ان کا معشوق بھی بجائے خیمہ کے کسی ہوٹل کے آرام دہ سوٹ میں ہی قیام پذیر ہوتا اور انھیں نہ خیمے کے پیچھے رونے کی حاجت ہوتی اور نہ یہ کہنے کی کہ ع مری قسمت میں یا رب کیا نہ تھی دیوار پتھر کی
بہر حال بڑے ہوٹل تو اعلیٰ تہذیب کی نشانیاں ہیں ،اکبر نے گرچہ مہذب کا لفظ بطور طنز استعمال کیا ہو لیکن آج تو نئی تہذیب سے متعارف لوگ ہی مہذب سمجھے جاتے ہیں اور گھر کامنھ دیکھتے رہنے والے غیر مہذب جو دنیا کی لذتوں سے بے خبر ہوا کرتے ہیں۔اور ہم جیسے لوگ اسی قبیل میں آتے ہیں ۔
لہٰذا میں یہاں صرف ان ہوٹلوں کاہی ذکر کرنے کا اہل ہوںجو چائے کے علاوہ چند اشیائے خوردنی مہیا کراکر چائے خانوں کی تہمت سے اپنے ہوٹلوں کو بچائے رکھتے ہیں۔بے شمار لوگ ہیں جو ساری عمر ان ہی ہوٹلوں کے سہارے گزار دیتے ہیں ۔بلکہ اگر یہ ہوٹل نہ ہوتے تو مجرد زندگی گزارنے والے یا اپنے اہل و عیال سے دور، حالات سے مجبور ،معاشی ضروریات کی تکمیل کی تگ ودو میں محصور،روزی کمانے کے لیے شہروں میں رہنے پر مامور،کلکتیہ زبان میںیہ ”مفلسان“ کھانے کھانے کے محتاج ہو جاتے۔
ان ہوٹلوں کے سہارے گزر بسر کرنے والے حضرات کم ازکم ان پریشانیوں سے تو دوچارنہیں ہوتے جو باورچی خانے کی جھنجھٹ اور اس کے لوازمات کی کلفت سے ہوتی ہے۔نہ انھیںآٹے دال کا بھاو¿ جاننے کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ سبزی ترکاری کا جھولا ڈھونے کی ،نہ مرچ مصالحے کی تلخی سے سروکار نہ املی، امچور کی ترشی سے،نہ دیگچی پتیلی کی جھنکار سے مطلب نہ اسٹوو اور چولھے کی تپش سے واسطہ۔
ایسے فن کا ر جن کی تخلیقات عام لوگوں کی فہم سے بالاتر ہوں، وہ ان مخصوص ہوٹلوں کے ارد گرد سامع کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں، کیوں کہ یہاں سخن شناس طبقہ اپنے ذوق کی تسکین اور شوق کی تکمیل کے لیے بآسانی مل جاتاہے اور معمولی جان پہچان نکل آنے پر بھی ایک کپ چائے اور سموسے کی قیمت پر تخلیقات سننے کے لیے راضی بہ رضا رہتا ہے۔
کچھ ایسے مدیر صاحبان جو ایک عدد جریدے کے تو مالک متحقّق ہوتے ہیں لیکن اس کے لیے ایک دفتر کے متحمل نہیں ہو سکتے ،ان کے لیے اس طرح کے ہوٹل دفتر متبادِل کا کام کرتے ہیں اس لیے کہ خط و کتابت کے لیے تو رہائشی کمرے کا ڈاک پتہ کام آ جاتا ہے لیکن لین دین کے معاملے میں رہائشی کمرے کے استعمال سے محلے والوںکے بیچ متعارف ساکھ کے متزلزل ہونے کا خدشہ متعاقب رہتا ہے۔اس غرض کے لیے وہ ایک ٹیبل اور وقت مقرر کر لیتے ہیں ،خواہ تقاضائی ہوں یا شناسائی، سر اٹھا کر زندہ دلی سے ملنے والے ہوں یا سر جھکا کر خستہ دلی سے،یہاں مل کر سبھی قضیوںسے وہ نپٹ لیتے ہیں۔ ان ہوٹلوں میں ادیب و شاعر نہ صرف سنتے سناتے ہیں بلکہ تنقیدات و تنقیحات پر بھی بحثیں ہوتی ہیں اور اگر مقطع میں سخن گسترانہ کوئی بات آجائے تو مطلع صاف کرنے کے لیے زبان کے علاوہ دیگر اعضائے متحرک کے استعمال سے بھی نہیں چوکتے۔
بعض ہوٹلوںمیں مستقل گاہکوں کے کھاتے بھی چلتے ہیں۔اس قرض خوری میں فائدہ یہ ہے کہ چونکہ جیب کی صحت پر فوری کوئی اثر نہیں پڑتا اس لیے غذائیں پوری کی پوری جُزو بدن ہوتی ہیں اور جسمانی صحت کو اس قابل بنا دیتی ہیں کہ تقاضائے رقم کے وقت کام آسکے ،اس کے علاوہ کئی بے تکلف دوست بھی اچانک آ دھمکیں تو ان کی خاطرداری بھی بے تکلف کرنے میں کوئی تعرّض نہیں ہوتا۔بلکہ بعض دوست تو اس قدر بے تکلف ہوتے ہیں کہ آپ نہیں بھی موجود رہے تو کھانے کے بل کی رقم آپ کے کھاتے میں لکھوانے میں بھی تکلف سے کام نہیں لیتے۔
پھر دیکھیے انداز گل افشانیِ گفتار
¿ٍِہوٹلوں میں کھانے والے جتنی انواع واقسام کی غذاو¿ں سے لطف اندوز ہوتے ہیں وہ گھر میں کھانے والوں کو کہاں نصیب۔ایک وقت میں اگر کباب اور پراٹھوں کا مزہ لے رہے ہیں تو دوسرے وقت میں بریانی اورمرغ کا۔جاڑے میں آنکھ کھلتے ہی نہاری اور پایوں سے نبرد آزمائی کر رہے ہیں تو گرمیوں میں فالودہ اور لسی سے فرحت حاصل کر رہے ہیں ۔
گویا آج ہوٹلوں میںعمرکاٹنا کوئی مذموم عمل نہیں بلکہ مستحسن عمل ہے اور اسپتال میں آخری لمحے گزارنا صاحب استطاعت ہونے کی نشانی۔
٭٭٭