مشرق وسطیٰ

کیا امریکی صدر بائیڈن کے دورہ سعودی عرب سے اسرائیل مضبوط ہوگا؟

بائیڈن نے کہا ہے کہ ہمیں یقین ہے کہ اس خطے میں زیادہ سے زیادہ صلاحیتوں کو شامل کرنے کی بہت ضرورت ہے اور یقینی طور پر اسرائیل کے پاس اہم فضائی اور میزائل دفاعی صلاحیتیں ہیں جس کی ان عرب ممالک کو ضررت ہے۔

ریاض: اسرائیل اور مشرق وسطی کے دورہ کے دوران امریکی صدر جو بائیڈن سعودی عرب پہنچے جہاں وہ ہفتے کے روز سعودی عرب میں عرب رہنماؤں سے ملاقات کے دوران علاقائی میزائل اور دفاعی صلاحیتوں پر تبادلہ خیال کریں گے جہاں وہ اسرائیل کو ایک نئے محور کے حصے کے طور پر عرب دنیا میں ضم کرنے کی کوشش کریں گے۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق بائیڈن نے کہا ہے کہ ہمیں یقین ہے کہ اس خطے میں زیادہ سے زیادہ صلاحیتوں کو شامل کرنے کی بہت ضرورت ہے اور یقینی طور پر اسرائیل کے پاس اہم فضائی اور میزائل دفاعی صلاحیتیں ہیں جس کی ان عرب ممالک کو ضررت ہے، لیکن ہم ان ممالک کے ساتھ دو طرفہ طور پر بات چیت کر رہے ہیں۔

جو بائیڈن نے بطور امریکی صدر اپنے پہلے دورہ مشرق وسطیٰ پر سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے ساتھ ملاقات کی اہمیت کو کم کرتے ہوئے چھ خلیجی ریاستوں اور مصر، اردن اور عراق کے ساتھ طے شدہ سربراہی اجلاس پر توجہ مرکوز کی ہے لیکن محمد بن سلمان سے ان کی ملاقات پر امریکہ میں انسانی حقوق کے اداروں نے سعودی عرب کی جانب سے کی جا رہی خلاف ورزیوں کی ناندہی کرتے ہوئے تنقید کی ہے۔

ڈان میں شائع رپورٹ کے مطابق بائیڈن نے 2018 میں سعودی ایجنٹوں کے ہاتھوں صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے معاملے پر سعودی عرب کو عالمی سطح پر تنہا کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن آخر کار امریکی مفادات کے سبب وہ تیل برآمد کرنے والے دنیا کے سب سے بڑے ملک اور عرب دنیا کی سب سے بڑی طاقت کے ساتھ تعلقات بحال کرنے پر مجبور ہو گئے۔

بائیڈن نے کہا کہ انہوں نے جمعے کو سعودی ولی عہد کے ساتھ اپنی ملاقات میں خاشقجی کے قتل کا معاملہ سرفہرست اٹھایا تھا اور انسانی حقوق کے معاملے پر خاموش رہنا نامناسب طرز عمل ہے۔

سعودی عرب کے زیر ملکیت العربیہ ٹیلی ویژن نے ایک سعودی اہلکار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ولی عہد نے بائیڈن کو بتایا کہ اگر امریکہ صرف ان ممالک کے ساتھ معاملہ کرتا ہے جو اس کی اقدار میں 100 فیصد شریک ہیں تو اس کے ساتھ صرف نیٹو ممالک ہی کام کریں گے۔

بائیڈن کو خام تیل کی بڑھتی قیمتوں قیمتوں اور روس-یوکرین تنازع سے متعلق دیگر مسائل کے دوران سعودی عرب کی مدد کی ضرورت ہے بالخصوص ایسے موقع پر جب وہ یمن جنگ کو ختم کرنے کی کوششوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں جہاں ایک عارضی جنگ بندی ہو رہی ہے، اس کے ساتھ ساتھ امریکہ خطے میں ایران کے تسلط اور چین کے عالمی اثر و رسوخ کو بھی روکنا چاہتا ہے۔

انتظامیہ کے عہدیدار نے کہا کہ امریکہ کو امید ہے کہ وہ آنے والے ہفتوں میں اوپیک کی پیداوار میں اضافہ دیکھے گا، بائیڈن سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ خلیج میں تیل پیدا کرنے والے دیگر ممالک پر مزید تیل کی پیداوار کے لیے دباؤ ڈالیں گے۔ اوپیک پلس اتحاد میں روس بھی شامل ہے اور اس کا اگلا اجلاس 3 اگست کو ہو گا۔

امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے جمعہ کو کہا کہ خطے کے دورے کا آغاز اسرائیل کے دورے سے کرنے والے امریکی صدر وسیع سربراہی اجلاس میں شرکت سے قبل مصر، متحدہ عرب امارات اور عراق کے رہنماؤں سے دوطرفہ بات چیت کریں گے جہاں وہ اپنے نقطہ نظر اور مشرق وسطیٰ میں امریکہ کی مصروفیت کے لیے حکمت عملی کو واضح طور پر پیش کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ وہ اس بات کو یقینی بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں کہ چین اور روس کے لیے مشرق وسطیٰ میں کوئی خلا پیدا نہ ہو۔انتظامیہ کے ایک اور سینئر اہلکار نے کہا کہ بائیڈن اعلان کریں گے کہ امریکہ نے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے لیے 1 ارب ڈالر کی قریبی اور طویل مدتی فوڈ سیکیورٹی امداد کا وعدہ کیا ہے اور خلیجی ریاستیں عالمی انفراسٹرکچر اور سرمایہ کاری میں امریکی شراکت داری کے ساتھ اگلے دو سالوں میں 3 ارب ڈالر کا وعدہ کریں گی۔

خلیجی ریاستوں نے یوکرین کے تنازع میں روس کے خلاف مغرب کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا ہے اور اب وہ بدلے میں امریکہ سے اسٹریٹیجک تعلقات کے لیے ٹھوس وابستگی کی خواہاں ہیں۔

دوسری جانب سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات ہتھیاروں کی فروخت پر امریکی شرائط اور 2015 کے جوہری معاہدے کو بحال کرنے کے لیے ہونے والے بالواسطہ امریکہ-ایران مذاکرات سے باہر کیے جانے کی وجہ سے مایوس ہوئے ہیں جسے وہ تہران کے میزائل پروگرام اور رویے کے بارے میں علاقائی خدشات سے نمٹنے میں ناکامی کے طور پر دیکھتے ہیں۔

ریاض میں قائم گلف ریسرچ سینٹر کے چیئرمین عبدالعزیز ساگر نے کہا کہ سعودی قیادت اور دیگر خلیجی رہنماؤں کی جانب سے سب سے اہم مطالبہ یہ ہے کہ وہ امریکی پالیسی اور خطے کے حوالے سے اس کی سمت کی وضاحت چاہتے ہیں۔