مضامین

کیا واقعی انتخابی وعدے رائے دہندوں کو متاثر کرتے ہیں؟

محمد محبوب

کہا جاتا ہے کہ انسان حُب ِ جاہ اور حُب ِ باہ کے لیے زمین و آسمان ایک کر دیتا ہے۔ ہم نے دیکھا بھی ہے کہ حب باہ سے زیادہ حب جاہ کی چا ہت اور اُمنگ ہر ایک کو ہو تی ہے۔ کرسی اور دولت کا اپنا ایک نشہ ہو تا ہے۔ جس کے لیے انسان سب کچھ کر گز رتا ہے۔ کر سی اور منصب میں اگر نشہ نہ ہو تا تو ہمارے سیاسی قائدین انتخابات کے مواقع پر ایک دوسرے پر سبقت لے جانے اور اقتدار حاصل کر نے کے لیے قطعاََ قطعاََ زمین وآسمان کے قلابے نہیں ملاتے۔ کہا جا تا ہے کہ سیاسی قائدین کے وعدے بھی محبوبہ کے وعدوں کی طر ح کبھی وفا نہیں ہو تے۔ چا ہے وہ وعدے انتخابات کے مواقع پر کیے جائیں یا پھر انتخابات کے بعد جب عوام کے درمیان جائیں تب کریں، یا پھر اقتدار حاصل ہونے کی مسرت میں کیے جائیں۔ بہرحال سیاسی وعدوں کے مقدر میں وفا ہونا نہیں ہوتا، لیکن سیاسی قائدین کی بھی اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں اور عوام بھی یہ سوچ کر اعتبار کرتے ہیں کہ اب کا وعدہ وفا ہوگا۔ اگر میں صرف ایک ہی مثال دوں تو یہ مناسب ہوگا کہ موجودہ مرکز کی بی جے پی حکومت نے 2014 کے پار لیمانی انتخابات کے وقت عوام سے یہ وعدہ کیا تھا کہ برسر اقتدار آنے کی صورت میں ہر شہری کے اکا ؤنٹ میں سو ئیز بنکوں میں جمع ملک کی پونجی واپس لاکر فی کس 15،15 لاکھ رو پئے جمع کروائے جائیں گے۔ نہ جانے اس وعدے پر یقین کرکے کتنے ہی معصوم عوام نے مختلف قومیائے ہوئے بینکوں میں اپنے اپنے اکاؤنٹ کھلوائے، لیکن تاحال ایک بھی روپیہ جمع نہیں ہوا، لیکن عوام نے ان وعدوں پر اعتبار کیا اور قائدین کو اقتدار پر فائزکیا۔ اس طرح ہر انتخابات کے موسم میں وعدوں کی گویا بارش ہوتی ہے۔ تاہم اب سپر یم کورٹ کی رولنگ کے بعد شا ید سیاسی قائدین کو انتخابی وعدے کر نے سے زیادہ ان وعدوں کو عملی جامہ پہنانا اہمیت کا حا مل ہوگا۔ کسی نے یہ نہ سوچا ہوگا کہ عوام کو رجھانے والے وعدوں پر بھی ایک دن قد غن لگے گی۔ جی ہاں! مفت کے وعدوں پر عوام کو سیاسی قائدین کی جانب سے دھوکہ دیے جانے سے دلبرداشتہ ہوکر بی جے پی کے ہی ایک سینئر قائد اشون اُپادھیائے نے سپریم کورٹ میں مفاد عامہ کی درخواست داخل کی۔ درخواست کی سماعت کے دوران سپر یم کورٹ کے چیف جسٹس نے یہ تا ریخی جملہ کہا کہ ”سیاسی قائدین انتخابات کے وقت جو عوامی وعدے کر تے ہیں، اس کو صد فیصد عملی جامہ پہنانے کے لیے مکمل قومی بجٹ بھی ناکافی ہوگا۔“ انہوں نے تعجب کا اظہار کیا کہ ریاستی حکومتیں بھی ریاست کی معاشی صورتحال کا اندازہ کیے بغیر ہی عوامی وعدے کر رہی ہیں جو ناقابل عمل ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان ناقابل عمل وعدوں پر قدغن لگوانا نا گزیر ہوچکا ہے۔ سپریم کورٹ نے ناقابل عمل وعدوں کے اعلان پر اپنی رائے ظاہر کر نے کے لیے مرکزی حکومت کے بشمول مرکزی الیکشن کمیشن کو بھی نو ٹسیں جا ری کی ہیں۔سپر یم کورٹ نے مرکزی حکو مت کو ہدایت دی ہے کہ انتخابات کے دوران کیے گئے وعدوں کا جائزہ لینے ایک کمیٹی تشکیل دی جائے۔ ان وعدوں پر جائزہ کے لیے نیتی آیوگ، مرکزی فینانس کمیشن، آر بی آئی کے سربراہوں کو کمیٹی میں شامل کیا جائے۔ سپریم کورٹ نے مز ید وضاحت کی کہ سیاسی پارٹیوں کی جانب سے کیے جانے والے وعدوں پر براہ راست قدغن تو لگائی نہیں جاسکتی کیوں کہ یہ سیا سی پارٹیوں کا انفرا دی معاملہ ہو تا ہے۔ تاہم سپر یم کورٹ نے دو ٹوک وضاحت کی کہ عوامی بہبود ریاستی و مر کزی حکومتوں کا نصب العین ہونا چاہیے اور عوامی فنڈ کو منا سب انداز میں خر چ کرنا مرکزی وریاستی حکومتوں کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ سپر یم کورٹ نے مز ید اس بات پر زور دیا کہ سیا سی پارٹیوں کی جانب سے جو وعدے اور اعلا نات کیے جا تے ہیں۔ ان میں سے لفظ ”مفت“ کو حذف کرنا چاہیے کہ تا کہ عوام ان وعدوں سے متا ثر نہ ہوں۔ سپر یم کورٹ نے مثال دی کہ مختلف ریاستوں اور مرکزی حکومت نے بھی کئی مر تبہ بلند بانگ دعوے کیے لیکن انتخابات میں انہیں شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ مر کزی الیکشن کمیشن نے بھی وضاحت کی کہ انتخابات سے قبل اور بعد میں کیے جانے والے وعدوں اور اس پر عمل آوری میں کلیدی رول سیاسی جماعتوں کا ہوتا ہے۔ تاہم رائے دہندوں کو اختیار ہو تا ہے کہ وہ ان وعدوں پربھروسہ کر یں یا پھر ان وعدوں کو مکمل طور پر خارج کر دیں۔
سیاست میں علاقائی پارٹیوں کا زور دن بدن بڑھتا جارہا ہے۔ اس مسابقت کے زمانے میں سیا ی پارٹیاں بلند بانگ دعوے کر رہی ہیں۔گر چیکہ بعض سیاسی اسکیمات عوام کے لیے واقعتاََ نفع بخش ثابت ہو رہی ہیں۔ مثال کے طور پر یو پی اے حکومت نے مہا تما گا ند ھی قومی دیہی روز گار طما نیت اسکیم کا آغاز کیا تھا جو سود مند ثا بت ہو رہی ہے۔ اسی طر ح دوپہر کے کھا نے کی اسکیم وغیر ہ جیسی بہبودی اسکیمات سے عوام کو فائدہ ہورہا ہے۔ اگر ہم ریاستی / علا قائی پارٹیوں کے لحا ظ سے دیکھیں تو آندھرا پردیش اور تلنگانہ حکومت کی جانب سے روشناس کی جانے والی کئی ایک اسکیمات عوام کے لیے سود مند ثابت ہورہی ہیں۔ حکومت تلنگانہ کی جانب سے روشناس کروائی جانے والی اسکیمات، رعیتو بندھو، رعیتو بیمہ، شادی مبارک، کلیا ن لکشمی، کے سی آر کٹ اور دلت بندھو متاثر کن اسکیمات ہیں۔ حکومت تلنگانہ کی جانب سے متعارف کردہ ”دلت بند ھو“ اسکیم ایک منفرد اسکیم ہے جس کی مثال ملک کی کسی ریاست میں نہیں ملتی۔ حضور آباد حلقہ اسمبلی کے ضمنی انتخاب میں کا میا بی کے لیے ”دلت بند ھو“ اسکیم کو متعارف کروا یاتھا۔پڑ وسی ریاست آندھرا پر دیش میں ”اماں بڈی“ اسکیم ایک پر کشش اسکیم ہے۔ حکومت ہر یانہ کی جانب سے متعارف کرد ہ اسکیم ”آپ کی بیٹی ہماری بیٹی“ اسکیم بھی اپنی نوعیت کی ایک منفرد اسکیم ہے جس کے تحت نو زائدہ بچی کو اس کی شادی تک تعلیم اور شادی کے بعد بھی یکمشت رقم دی جا تی تھی۔ متحدہ ر یاست آند ھرا پردیش میں ”بنگا رو تلی“ اسکیم بھی اسی نو عیت کی تھی۔
یہ حقیقت ہے کہ سیا سی جماعتیں انتخابات سے عین قبل رائے دہندوں کو متا ثر کر نے اور را ئے دہندوں کی حمایت بلکہ ہمدردی حا صل کر نے کے لیے مختلف حر بے استعما ل کر تی ہیں۔ کبھی ان حربوں میں کامیاب تو کبھی ناکام بھی ہوتی ہیں۔ انتخابات سے قبل جو سیا سی، سماجی اور معاشی حا لات پیدا کیے جاتے ہیں۔ ان تمام کا اثر را ست طور پر را ئے دہندوں پر ہو تا ہے۔ اسی قبیل کا ایک واقعہ مشہور ہے کہ ایک شا طر شخص کو جب انتخابات میں مقابلہ اور کا میا بی کی سو جھی تو اُ س نے انتخابات سے کچھ ماہ قبل اشیا ئے ضروریہ جیسے چاول، آٹا، دال اور آلو وغیر کاذخیرہ کروا یا اور کچھ دنوں بعد جب عوام دیگر کا مو ں میں مصروف تھے تو ایک دن صبح کی اولین ساعتوں میں بلکہ صبح کاذب کے وقت دونوں طبقات کی عباد تگا ہوں مسجد اور مندر میں دو گوشت کے ٹکڑ ے ڈال دیے اور صبح ہو تے ہو تے یہ خبر عام ہو گئی کہ مسجد میں خنزیر اور مندر میں گا ئے کا گوشت کسی نے ڈا ل دیا ہے،جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سورج چڑ ھتے چڑ ھتے یہ خبر عام ہو گئی اور دونوں طبقات مار نے اور مر نے پر آمادہ ہو گئے لا اینڈ آرڈر کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے منسٹر نے شہر میں کر فیو نافذ کر دیا اور عوام کا گھروں سے باہر نکلنا محال ہو گیا۔ اس کا فائدہ اٹھا تے ہو ئے شا طر قائد نے عوام میں ذخیرہ اندوز کی ہوئی اشیا تقسیم کر تے ہوئے ان کی ہمدردی حا صل کی اور جب مستقبل قر یب میں انتخابات آئے تو شاطر موصوف نے اکثریتی وو ٹوں سے کا میا بی بھی حا صل کی۔ یہ واقعہ اس زمانے کے سیا سی قائدین کے طر ز عمل کی مکمل عکا سی کر تا ہے۔
بہر حا ل یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ انتخابات سے قبل عوام کو جو عوامل متا ثر کر تے ہیں، ان میں اہم عنا صر سیاسی قائد کی شخصیت، اُمیدار کا سماجی موقف، اُمیدوار کی فلمی، مذہبی اور کھیل کود کے میدانوں کی چمک دمک، اس کی سیاسی پارٹی، علاقہ واریت، طبقہ واریت اور اس کی پارٹی کی جانب سے جاری کئے گئے انتخابی منشور اہمیت کے حا مل ہو تے ہیں۔ اگر ہم یہ مان لیں کہ را ئے دہندے صر ف انتخابی وعدوں سے متا ثر ہو تے ہیں تو یہ غلط ہو گا، کیوں کہ کئی ایسی مثا لیں ہیں کہ جس میں بعض پارٹیاں کچھ وعدے نہ کر کے بھی اکثریت سے کا میاب ہو تے ہیں تو بعض پارٹیاں کئی ایک وعدے کر کے بھی نا کام ہوجا تی ہیں۔ حلقہ اسمبلی حضور آباد میں کا میا بی کے لیے دلت بندھو اسکیم کو متعارف کروا یا گیا تھا، لیکن یہاں بر سر اقتدار پارٹی کو نا کامی کا سامنا کر نا پڑا۔ یہاں اُمیدوار کی شخصیت سر کاری وعدوں پر غا لب آگئی اور ایٹا لہ را جندر نے کا میا بی حا صل کرلی۔ کبھی کبھی امیدوار کا سماجی موقف بھی پارٹی اور علا قائی وابستگی پر سبقت لے جا تا ہے۔ مایہ ناز کر کٹ کپتان محمد اظہرالدین نے جب حلقہ پا رلیمنٹ مر اد آباد سے کا نگر یس کے ٹکٹ پر مقابلہ کیا تو کا میابی حاصل کر لی۔ این ٹی را ما را ؤ نے جب 1982 ء میں تلگو دیشم پارٹی قائم کی اور 1984 ء میں ہو ئے اسمبلی انتخابات میں انہوں نے شا ندار کا میا بی حا صل کی اور اقتدار پر فا ئز ہو ئے اس میں این ٹی را ما را ؤ کی فلمی چمک دمک کا اثر را ست دکھا ئی دیا۔ با لرا ست انتخا بات میں جب سال 2002 ء میں این ڈی اے نے اے پی جے عبد الکلام کو ملک کے جلیل القدر عہدے کا اُمیدوار بنا یا تو تمام عوامی منتخبہ نمائندوں نے پارٹی وابستگی سے با لا تر ہو کر اے پی جے کلام صاحب کی شخصیت اور سما جی موقف اور ان کی خد مات کے پیش نظر انہیں زبر دست اکثر یتی کا میا بی سے ہمکنار کیا۔ان کے مدمقابل اُ میدوار کو شر منا ک شکست کا سا منا کر نا پڑا بلکہ ان کی ضمانت بھی ضبط ہوگئی تھی۔بعض علاقوں میں بعض سیاسی جماعتوں کا بھی اپنا ایک مقام ہو تا ہے۔ یہ پارٹیاں جن اُمیدواروں کو ٹکٹ دیتی ہیں وہ بلا شبہ کا میا بی سے ہمکنار ہو تی ہیں۔اگر میں شہر حید رآباد کی بات کروں تو پرا نے شہر میں مجلس کا ایک مضبوط موقف ہے۔ اس کے متعلق مشہور ہے کہ مذکورہ پارٹی جس اُمیدوار کو ٹکٹ دے تو وہ کا میاب ہو تا ہے۔ اُ ڑیسہ کی پارٹی بیجو جنتادل کے بارے میں بھی مشہور ہے کہ اس پارٹی سے جس اُمیدوار کو ٹکٹ دیا جا تا ہے وہ کا میابی سے ہمکنار ہو تا ہے۔ علاقہ واریت اور طبقہ واریت بھی انتخابات میں را ئے دہندوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔ بعض علاقوں میں ان عوامل کا اتنا اثر ہو تا ہے کہ را ئے دہندے صر ف اس بات کو دیکھتے ہیں کہ ہمارا نما ئندہ صر ف ہمارے علاقے کا ہو چا ہے وہ ہماری فلاح و بہبود کے لیے کو ئی کام کر ے یا نہ کر ے، بس اتنا ہی کا فی ہے کہ وہ ہمارے علاقہ کا ہی ہو۔ بہار کے عوام کے تعلق سے مشہور ہے کہ وہ علاقہ واریت کو زیادہ تر جیح دیتے ہیں، بلکہ ترقی اور انعام سے زیادہ وہ علاقہ واریت کو تر جیح دیتے ہیں۔ اسی طر یقہ سے طبقہ واریت کا بھی را ئے دہندوں پر زیادہ اثر ہو تا ہے۔ را ئے دہندے صر ف اپنی ذات اور مذہب سے تعلق رکھنے والے امیدوار کو ہی ووٹ دیتے ہیں۔ اس کی پارٹی وابستگی، اس کا سماجی موقف اور اس کی کار کردگی کو ثا نوی درجہ دیتے ہیں۔ تاہم را ئے دہندوں کو متا ثر کر نے والے ان تمام عوامل میں ایک اہم عنصر سیا سی پارٹیوں کے نا قابل عمل انتخابی وعدے ہیں۔ اس سے را ئے دہندے ضرور متا ثر ہو تے ہیں لیکن وعدے ہی مکمل طور پر را ئے دہندوں پر اثر انداز نہیں ہوتے۔ پارٹیوں کا کام تو وعدے کر نا ہو تا ہے لیکن اختیار تو رائے دہندوں کے ہاتھ میں ہو تا ہے کہ وہ دلفر یب وعدوں میں نہ آکر درست انداز میں فیصلہ کر یں اور کسی بھی رُجھا نے والے وعدے پر آنکھ بند کرکے یقین نہ کریں۔

a3w
a3w