افتخار گیلانی
پاکستانی سیاست یا اس کی سوسائٹی کے بارے میں میری معلومات بس میڈیا، دوستوں یا نئی دہلی کا دورہ کرنے والے پاکستانی وفود کے ساتھ ملاقاتوں تک ہی محدود ہیں، لہٰذا اس محدود علم کے ساتھ اس ملک کے حالات و واقعات پر تبصرہ اور تجزیہ کرنا شاید ٹھیک نہیں ہوگا۔ مگر جس طرح کے حالات اس ملک میں پیدا ہوئے ہیں، وہ پورے خطے کے لیے باعث تشویش ہیں۔
اگر یہ معاملات صرف پاکستان کو ہی اثرانداز کرتے، تو ان کو صرف نظر کیا جاسکتا تھا، مگر کیا کریں اس ملک کے اندرونی حالات کا اثر پورے خطے پڑتا ہے۔ جنوبی ایشیاء میں کئی ممالک نیپال سے لے کر سری لنکا و مالدیپ حتی ٰ کہ بھوٹان تک خطے میں توازن کے لیے پاکستان کی طرف دیکھتے ہیں۔ جس کا ادراک مجھے کئی بار سارک سربراہ یا وزرائے خارجہ کی کانفرنس کو کور کرتے ہوئے ہوا ہے۔ مگر یا تو اس ملک کے اداروں، جن میں سیاستدان، فوج، عدلیہ، پارلیمنٹ شامل ہیں، کو اپنی اس اہمیت کا اندازہ نہیں ہے یا اس ملک کی مٹی ہی ایسی ہے کہ ستر سال گزرنے کے باوجودیہ ملک عدم استحکام سے دوچار ہے اور ابھی تک ادارے اپنے دائرہ اختیار کو متعین کرنے اور ریڈ لائنز کھنچنے سے قاصر ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ سازشی تھیوریز کو گھڑ نا اور ان پر یقین کرنا اس ملک میں ایک قومی جنون بن چکا ہے۔ جب ایک سیاسی لیڈر پرکیمروں کے سامنے قاتلانہ حملہ کیا جاتاہے، تو وہ بھی سازشی تھیوریز کی نذر ہوجاتا ہے، جیسا کہ اس سے قبل لیاقت علی خان سے لے کر ضیاء الحق اوربے نظیر بھٹو کے ساتھ ہوا ہے۔
تحقیق کرنے یا سچ کی کھوج کرنے کی کسی کو توفیق نہیں ہوتی ہے۔پاکستانی عوام و میڈیا بھی اس قدر مستقل عدم استحکام کا عادی ہوچکا ہے کہ ان کو ہر وقت سنسنی خیز اطلاعات سننے اور بسا اوقات انتہائی غیر مصدقہ خبریں نشر کرنے میں لطف آتا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ مملکت خداداد کو چلانے کے لیے واقعی خدا کے ہی حوالے کردیاگیا ہے۔
ایک دہائی قبل یروشلم شہر کے باب دمشق کے پاس چند ہندوستانی صحافیوں کی معیت میں، میں بھی ایک دکان میں شاپنگ کر رہا تھا۔ جب معلوم ہوا کہ دکاندار فلسطینی عرب ہے، میرے ساتھیوں نے قیمتوں میں رعایت حاصل کروانے کے لیے کاو¿نٹر پر بیٹھے سیلزمین سے میرا تعارف بطور کشمیری صحافی کے کروایا۔ اس کی آنکھوں میں واقعی ایک چمک سی آگئی اور اس نے چند اور دوستوں کو مجھ سے ملنے کے لیے بلایا۔ خیر علیک سلیک وغیرہ کے بعد ان میں سے ایک شخص کہنے لگاکہ آپ کشمیری تو ہماری نسبت خوش قسمت ہیں۔
میں نے پوچھا ایسا کیونکر ہے۔ کیونکہ فلسطین کا مسئلہ چاہے حل ہو یا نہ ہو، دنیا کے تصور و تخیل میں کلیدی درجہ تو رکھتاہے اور اس سے بھی زیادہ کہ اسرائیل خود اس کو ایک مسئلہ کے طور پر تسلیم تو کرتا ہے۔ اس نے جواب دیا:آپ کی پشت پر ایک جوہری طاقت (پاکستان) ہے۔ ہمارے آس پاس کوئی ایسا ملک نہیں ہے، جو اسرائیل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرسکے۔
اس فلسطینی نوجوان کی باتوں نے مجھے کچھ سوچنے پر مجبور کردیا، جس کا مجھے اس سے قبل ادراک بھی نہیں تھا۔ ایک اور نوجوان، جو کسی یونیورسٹی کا طالبعلم تھا، کہنے لگا کہ مشرق وسطیٰ میں طاقت کا توازن نہیں ہے، جس کی وجہ سے اسرائیل کو من مانی کرنے کی شہ ملتی ہے۔
دسمبر 1996ءمیں مغربی بنگال کے دارالحکومت کولکاتہ کے نواح میں باراسات ضلع میں پاکستان انڈیا فورم فارپیس اینڈ ڈیموکریسی کا ایک کنونشن منعقد ہوا، تو اس میں شرکت کے لیے تقریباً 200کے قریب پاکستانی مندوبین آئے ہوئے تھے۔ پاکستانی صحافیوں، انسان حقوق اور امن کے کارکنوں کا اس پیمانے پر ہندوستان میں اجتماع اس کے بعد شاید کبھی منعقد نہیں ہو سکا۔
اس کنونشن میں معروف کالم نویس مرحوم عطاء الرحمان بھی آئے ہوئے تھے۔ایک دن کانفرنس کیمپ کے باہر پاس کے ایک دیہات میں ان کے ساتھ گھومتے ہوئے ایک مسجد پر نظر پڑی۔ چونکہ نماز کا وقت بھی ہورہا تھا، اندر جاکر اور فراغت کے بعد عطاء الرحمان صاحب نے امام صاحب کے پاس جاکر اپنا تعار ف کرایا اور ان سے پوچھا کہ کیسے حالات ہیں؟ امام صاحب نے چھوٹتے ہی کہا کہ بس آپ سے(پاکستان سے) بہتر ہیں۔ آپ کی طرح مسجدوں یا امام باڑوں میں ایک دوسر ے کو قتل نہیں کرتے ہیں۔ چند لمحے خاموش رہنے کے بعد امام صاحب نے سر اٹھایا تو ان کا چہرہ آنسووں سے تر تھا۔ انہوں نے کہا،’افغانستان، ترکی یا عرب ممالک، اگر عدم استحکام کا شکار ہوتے ہیں، وہ ان کا اندرونی معاملہ ہوتا ہے، مگر پاکستان کا عدم استحکام اس کا اندرونی معاملہ نہیں رہتا ہے، ہم سب اس کی لپیٹ میں آتے ہیں۔ اپنے حکمرانوں سے جاکر کہو، کہ ایک پر امن، مستحکم اور مضبوط پاکستان، اس خطے کی اشد ضرورت ہے۔
ہندوستان میں مسلمانوں کو پاکستان کے ساتھ ہزاروں شکایتیں ہیں۔ ان کو اس ملک کے حالت کے لیے طعنے سہنے پڑتے ہیں۔ ان کی محلوں کو اکثر پاکستان کا نام دیا جاتا ہے۔ جس کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ اس محلے میں شہری سہولیات کا فقدان اور پسماندہ ہوگی۔
ایسا کیوں ہے کہ پاکستان میں جب بھی کسی ادارے، چاہے سویلین حکومت، صدر، عدلیہ، ملٹری و میڈیا کو طاقت ملتی ہے، تو وہ بے لگام ہو جاتا ہے؟وزیر اعظم کے پاس جب بھاری منڈیٹ ہوگا تو وہ بیک جنبش قلم آرمی چیف کو برطرف کرے گا۔
پھر اپنی مرضی کے دوسرے آرمی چیف سے بھی ناراض ہوکر اس کو ایسے وقت برطرف کرے گا، جب وہ ایک غیر ملکی دورے سے واپس آرہا ہوتا ہے اور مسافروں سے بھری فلائٹ کو اترنے کی اجازت ہی نہیں دی جائے گی۔ جب عدالت کا فیصلہ اس وزیراعظم کے خلاف آئے گا تو اس کے حامی عدالت پر ہی چڑھ دوڑ کر چیف جسٹس کے جان کے اس قدر درپے ہوجائیں گے۔
جب اپنے ہندوستانی ہم منصب سے انتہائی اہم ملاقات کرے گا تو کشمیر یا دیگر امور کے بجائے دوبئی کے راستے اپنے خاندان کی شوگر مل کے لیے رعایتی نرخوں پر مشینری فراہم کروانے کی درخواست کرے گا اور یہ بھی بتائے گا کہ ان مشینوں پر میڈان انڈیا کا لیبل نہ لگا ہو۔
ایک اور وزیرا عظم جب فوج کو اصرار کرتی ہے کہ اس کو نیوکلیر پروگرام سے متعلق بریفنگ دی جائے جو کہ اس کا آئینی حق ہے، مگر جب آرمی ہیڈ کوارٹر کے آپریشن روم میں پہنچتی ہے، تو امریکی سفیر کو بھی اپنے ہمراہ لے جاتی ہے۔ ایک فوجی آمر دنیا کے مسائل کو پاکستان میں درآمد کروا کر ہزاروں افراد کی ہلاکت کا موجب بن جاتا ہے۔
ہندوستان میں صدر کا عہدہ سیاست کی معراج سمجھا جاتا ہے۔ اگر وہ کسی پارٹی سے پوری عمر بھر وابستہ رہا ہوا، مگر اس عہدہ پر پہنچنے پر وہ نہ صرف سیاست کو خیر باد کرتا ہے، بلکہ ایک سرپرست کا رول ادا کرتا ہے۔ مگر کیا کیجیے مملکت خداداد میں ایک صدردو کشتیوں پر سوار ہوکر ملک کی صدارت اور ایک سیاسی پارٹی کی صدارت بھی کر تا ہے۔ اب اس طرح کا صدر کیسے عوام اور ادراوں میں بھروسہ قائم کروا سکتا ہے۔
اسی طرح جب پاکستانی عدالت کے سربراہ کو لگتا ہے کہ بس وہی ملک کا نجات دہندہ ہے تو وہ آئے دن وزیراعظم کو سمن کرنے اس کی تذلیل کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا ہے۔ احتساب کے نام پر ملکی استحکام کو قربان کرنا پاکستانی کی عدالتوں سے کوئی سیکھے۔
سابق ہندوستانی صدر پرنب مکھرجی، جو میرے استاد بھی رہے ہیں ایک بار بتا رہے تھے کہ ان کو بسا اوقات حیرت ہوتی ہے کہ پاکستانی وزیر اعظم آخر کب گورننس کے ایشوز کو لے کر کام کرتا ہوگا؟ اقتدار میں آنے اور ہنی مون پیریڈ ختم ہونے کے فوراً بعد ہی پاکستانی وزیر اعظم سیاسی امور کو سلجھانے اور اپنی کرسی بچانے کی تگ و دو میں لگ جاتا ہے۔ جس سے گورننس کے بجائے اس کا پورا وقت سیاسی امور کو سلجھانے میں ہی صرف ہوجاتا ہے۔
اگر پاکستانی سیاست کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو صرف تین وزرائے اعظم نے چار سال کی مدت تک حکومت کی ہے۔ جن میں لیاقت علی خان (4سال63دن)، یوسف رضا گیلانی (4سال 86دن) اور نواز شریف (4سال 53دن) برسراقتدار رہے ہیں۔
دہلی میں میرے ایک سینئر کولیگ پارسا وینکٹیشور راو¿کہتے تھے کہ انتخابات کے بعد پاکستانی عوام جلد ہی اپنے حکمرانوں سے اوب جاتے ہیں۔ اس کا واحد حل یہ ہے کہ آئین میں ترمیم کرکے مدت حکمرانی پانچ سال سے گھٹا کر تین سال کی جائے۔ تاکہ حکومت کو پہلا سال آنے اور سمجھنے میں، دوسرا سال حکومت کرنے میں تیسرا سال سیاسی امور کو سلجھانے اور اگلے انتخاب کی تیاری میں صرف ہو۔
پاکستانی اداروں، تھنک ٹینکوں و میڈیا کے لیے لازم ہے کہ تحقیق کرکے اس سوال کا جواب تلاش کریں کہ کون سے عوامل ان کے پڑوسی ہندوستان کو ایک مستحکم اور پاکستان کو ایک ناپائیدار نظام کی طرف لے جانے کے ذمہ دار ہیں؟
پاکستان کے لبرل مدبرین اس سوال پر بس یہ کہہ کر جان چھڑاتے ہیں کہ ان کے ملک میں ملٹری سویلین حکومتی فیصلوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔ ایسابالکل نہیں ہے کہ ہندوستان کے سیاسی نظام میں فوج یا سکیورٹی کا عمل دخل نہیں ہے۔ فیصلہ لیتے وقت ان کی رائے کو خاصی اہمیت دی جاتی ہے۔ مستحکم نظام کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہندوستان میں اداروں کو ایک دوسرے کے اوپر بھروسہ ہے۔
فیصلہ سازی، سیاسی لیڈران ہی کرتے ہیں، مگر ان کو لیتے ہوئے وہ فوج، سیکورٹی، انٹلی جنس، عدلیہ کی رائے کو خاصی اہمیت دیتے ہیں۔۔ پاکستان کی موجودہ سیاسی صورت حال اور اس کے لیڈروں کی پینترے بازیاں دیکھ کر ہندوستان کے معروف دلت لیڈر اور دستور ساز کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر بھیم راو¿امبیڈ کر کا وہ بیان یاد آتا ہے، جو انہوں نے نومبر 1948 کوآئین ساز اسمبلی میں دستور کا مسودہ پیش کرتے ہوئے دیا تھا۔
ان کا کہنا تھا؛ دنیا کا کوئی بھی آئین کامل نہیں ہوسکتا ہے۔ اس کو مو¿ثر اور قابل استعداد بنانا، روبہ عمل لانے والے افراد اور اداروں کی نیت اور ہیئت پر منحصر ہے۔ اگر اچھے سے اچھا آئین بھی نااہل اور بے ایمان افراد کے ہتھے چڑ ھ جائے تو بد سے بد تر ثابت ہوسکتا ہے۔اس کو چلانے والے اداروں کے ذمہ داران اگر ذہین، فراخ دل اور بامروت ہوں تو خراب سے خراب تر آئین بھی اچھا ثابت ہوسکتا ہے۔“
پاکستان میں فوج نے اگر سیاست سے دور رہنے کا فیصلہ کیا ہے، تو اس کا خیر مقدم کیا جاناچاہیے۔ مگر پاکستان کے عوام کے لیے بھی لازم ہے کہ فراخ دل، بامروت اور سنجیدہ افراد کا انتخاب کریں، جو ملک کو استحکام کی طرف گامزن کروانے اور بدعنوانی سے کسی حد تک پاک کروانے میں رول ادا کریں۔
ویسے تو پارلیمانی جمہوریت میں بدعنوانی کا عنصر پیدائشی ہی ہے، جس کا حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ مگر یہ اس قدر نہ ہو کہ خزانے ہی خالی ہوجائیں۔ماضی میں سیاسی پارٹیاں عوامی چندے سے چلتی تھیں، جس سے قدرتی طور پر ان کا احتساب بھی ہوتا تھا۔ مگر اب وافر تعداد میں یہ فنڈز کون فراہم کرتا ہے، ایک معمہ ہے؟
اگر کارپوریٹ گھرانے سیاسی جماعتوں اور منتخب نمائندوں کو فنڈز دیتے ہیں، تو اس کے عوض وہ اگلے پانچ سال تک کیا لیتے ہیں ایک بڑا سوال ہے؟ میڈیا اسٹیڈیزادارے کے سربراہ این بھاسکر راو¿ کے مطابق 2024کے عام انتخابات میں ہندوستان میں ایک ٹریلین روپے خرچ ہونے کے امکانات ہیں۔ یہی حال کچھ پاکستان کا بھی ہوگا۔
جنوبی ایشیاءمیں الیکشن کا کاروبار بلیک مارکیٹ سے زیادہ وسیع اور دست غیب سے زیادہ طلسماتی ہے۔یوروپی ممالک نے انتخابی اصلاحات کے ذریعے اس کو کسی حد تک ایڈریس کیا ہے۔ مگر کسی بھی اصلاح کے لیے عوام اور سیاستدانوں کو اپنے طریقوں اور مزاج میں بدلاو¿ لانے کی ضرورت ہے اور اداروں کے لیے بھی لازم ہے کہ ا پنے دائرہ کار کو متعین کرکے ایک دوسرے کا احترام کریں۔ ورنہ آئین یا اصلاحات بس کاغذ کے چند ٹکڑے ہی رہ جائیں گے۔٭٭٭