مضامین

گاندھی کے دیش کو گوڈسے کی دھرتی بنانے کی تیاری!

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد

ہندوستان کے حالات اس وقت جس تیزی کے ساتھ بدلتے جا رہے ہیں، اس کا اندازہ شاید ملک کو آزاد کرانے والے مجاہدین آزادی کو بھی نہیں تھا۔ جن آرزوو¿ں اور تمناو¿ں کے ساتھ آزادی کی یہ جنگ لڑی گئی تھی یہ سب اب تازیانہ عبرت بن گئی ہیں۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ سب کچھ ختم ہو گیا ہے۔ جن اعلیٰ اصولوںا ور قدروں کی پاسداری کرتے ہوئے ملک میں قانون کی حکمرانی ، آئین کی برتری ور بھائی چارہ کی فضاءکو پروان چڑھانے کا عہد کیا گیا تھا ب اس کے کوئی آثار دور دور تک نظر نہیں آرہے ہیں۔ اب تو انتہا یہ ہے کہ بابائے قوم گاندھی جی کے قاتل کو قوم کے ہیرو کے طور پر پیش کیاجا رہا ہے۔ ناتھورام گوڈسے کا نام اب تک ہندوستان کی تاریخ میں ایک مجرم کی حیثیت سے تھا، لیکن اب اس کے جنم دن کو ایک جشن کے طور پرمناتے ہوئے فسطائی طاقتیں یہ ثابت کرنا چاہتی ہیں کہ ا ب یہ دیش گاندھی جی کے آدرشوں کو با لائے طاق رکھتے ہوئے گوڈسے واد کی سیاست پر چلایا جائے گا۔ 2014 میں جب پہلی مر تبہ بی جے پی کو ملک پر حکمرانی کرنے کا موقع ملا، اسی وقت سے زعفرانی پارٹی کا یہ خفیہ ایجنڈا تھا کہ کسی طرح حقیقی مجاہدین آزادی کی قربانیوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے سنگھ کے لیڈروں کو مجاہدین آزادی کارتبہ دیا جائے۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ سنگھ پریوار کے کسی نیتا نے ہندوستان کی جنگ آزادی میں کوئی حصہ ہی نہیں لیا۔اس کے بر عکس انہوں نے انگریزوں کو معافی نامے لکھ کر دیے۔ ساورکر، جو ہندوتوا کے بڑے علمبردار ہے ، انہوں نے نہ صرف انگریزوں سے معافی چاہی بلکہ یہ وعدہ کیا کہ وہ کبھی بھی جدو جہد آزادی میں حصہ نہیں لیں گے۔ ساورکر انگریزوں کے لیے کام کرتے تھے اور انہیں اس کے پیسے بھی بطور معاوضہ کے ملتے تھے۔ ایسا شخص جس کا ملک کی آزادی سے کوئی تعلق نہیں رہا اور جوہمیشہ انگریزوںسے ا پنی وفاداری نبھاتا رہا ، اس کی تصویر ملک کی پارلیمنٹ کے سنٹرل ہال میں لگائی جا تی ہے اور اب ناتھو رام گوڈسے ، جس نے تحریک آزادی کی قیادت کرنے والے بابائے قوم کا وحشیانہ انداز میں قتل کرکے انتہائی گھناو¿نے جرم کا ارتکاب کیا، اسے قومی ہیروکے طور پر منظر عام پر لانا اس بات کا اشار ہ ہے کہ اب ملک کو گاندھی، نہرو، مولانا آزادا ور ڈاکٹر امبیڈکر جیسے رہنماو¿ں کے نظریات کی ضرورت نہیںہے۔ یہ وہ قوم کے قائدین تھے جنہوں نے اپنے آفاقی نظریات کو روبہ عمل لاتے ہوئے اہل وطن میں آزادی کی شمع روشن کی تھی۔ خاص طور پر گاندھی جی نے ستیہ گرہ اور عدم تشدد کے ہتھیار کے ذریعہ انگریزوں کو شکست فاش د ی اور انہیں ہندوستان چھوڑنے پر مجبور کیا۔ گاندھی جی نے ہندوستان کی آزادی کے لئے جو رہنماءاصول مرتب کیے تھے، انہی اصولوں کو بنیاد بناکر دنیا کے دیگر ممالک نے آزادی حاصل کی تھی۔ ساری دنیا میں گاندھی جی کی عدم تشدد کی پالیسی کو بڑے احترام سے دیکھا جا تاہے۔ گزشتہ مہینہ کے اواخرمیں اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیرس نے بھی اپنے ہندوستان کے سہ روزہ دورہ کے موقع پر گاندھی جی کی ا علیٰ اقدار ، ان کی انسانیت نوازی اور روادری کے پیغام کی یاد دہانی کراتے ہوئے کہا تھا کہ ہندوستان کو گاندھی جی کے اصولوں پر ہی چلنا چاہیے کیوں کہ ہندوستان کی جنگ آزادی جو ان کی قیادت میں لڑی گئی ، اس سے صرف ہندوستان کو ہی آزادی نہیں ملی بلکہ اس نے یوروپ کی نو آبادیات کو پوری دنیا میں ناکام کردیا۔ دنیا کے بڑے قائدین کو گاندھی جی کے نظریات یاد ہیں اور وہ ہمیں ان نظریات کو قومی زندگی کا حصہ بنانے کی تاکیدو تلقین کر رہے ہیں۔
گاندھی جی کے نظریات کوعالمی سطح پر تسلیم کیا جارہا ہے، لیکن ہمارے ملک کے حکمرانوں نے ان کے افکار کو فراموش کردیا۔ ان کے یوم پیدائش پر ان کی یاد منالینا کوئی اہمیت کی بات نہیں ہے ۔ اصل میں ان کے مشن کو زندہ رکھنا ان کے لیے صحیح خراج عقیدت ہوگا۔ موجودہ صورت حال تو بالکل الگ ہے۔ مجاہدین آزادی کے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے کی بجائے جن عناصر نے ان کی توہین کی اور ان کو قتل کردیا اب انہیں قوم کے حقیقی مسیحا کا درجہ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کل تک بند کمروں میں آر ایس ایس کے کارندے اپنے قائدین کے کارناموں کو سنگھ سے وابستہ افراد کے سامنے سناتے تھے، لیکن ا ب کھلے عام کہا جا رہا ہے کہ آرا یس ایس کے یہ لیڈر ہی اصل مجاہدین آزادی ہیں۔ ساروکر ہو یاگوڈسے یہ محض علامتیں ہیں ، یہ جن نظریات کے علمبردار تھے، انہیں ملک کے عوام پرمسلط کرنے کی سازش رچائی جا رہی ہے۔ یہ باور کرایا جا رہا ہے گاندھی ، ہندوو¿ں سے زیادہ مسلمانوں کے دوست تھے۔ سنگھ کے لیڈر یہ بھی کہتے ہیں کہ خلافت تحریک کا ساتھ دے کر گاندھی جی نے ترکی کی خلافت کو بحال کر نے کے لیے ہندوستانیوں کو استعمال کیا۔ حالانکہ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ خلافت تحریک کی وجہ سے ہندوستان کی تحریک آزادی میں ایک نئی جان آگئی تھی۔ علی برادران کی اس تحریک نے ہندوستانیوں میں آزادی کا ایک نیا جذبہ پیدا کر دیا تھا۔ مولانا محمد علی جوہر نے گاندھی کو ”مہاتما “کے اعلیٰ مقام پر فائز کیا تھا۔ حصول آزادی کے لیے علی برادران نے گاندھی جی کا ساتھ دیتے ہوئے ہندوستانی عوام کی رگوں میں وہ خون دوڑادیا تھا کہ انگریز اس کی تاب نہ لاسکے اور انہیں ہندوستان چھوڑنا پڑا۔ ہندو۔ مسلم اتحاد کا جو نظارہ گاندھی جی کی قیادت میں دیکھنے کو ملا ، اس کی نظیر پھر بعد کے دور میںکہیں نظر نہیں آئی۔موجودہ بر سر اقتدار طاقتیں یہ چاہتی ہیں کہ ہندوستان کی ان دیرینہ روایات کو ختم کر کے اس ملک کو ایک رنگ میں رنگ دیں۔ اسی لیے کبھی گاندھی جی کی شخصیت اور ان کے نظریات کو نظرانداز کرنے کوشش کی جا تی ہے اور کبھی نہرو کے سوشلسٹ نظریات کا مذاق اُڑایا جاتاہے ۔ پنڈت نہرو کو یہ کہہ کر بدنام کیا جارہا ہے کہ ان کی غلط سیاسی حکمت عملی کی وجہ سے کشمیر ، ہندوستان کا حصہ نہ بن سکا اور آج تک یہ مسئلہ جوں کا توں ہے۔ ملک کے پہلے وزیراعظم کی حیثیت سے پنڈت جواہر لال نہرو نے جو انقلابی اقدمات کیے، اسے ان کے ناقدین بھی تسلیم کر تے ہیں۔ اسی لیے انہیں جدید ہندوستان کا معمار بھی کہا جاتا ہے۔ آزادی سے پہلے جس ملک میں ایک سوئی بھی نہیں بنتی تھی ، ایسے ملک میں نہرو نے جو پالیسیاں بنائیں اس کے ثمرات کھلی آنکھوں سے دیکھے جا رہے ہیں۔ زراعت کا شعبہ ہو کہ اقتصادی مسائل، تعلیم کی فراہمی ہو کہ حفظان صحت کا مسئلہ، ان سارے مسائل کے حل کے لیے اس وقت کے قائدین کی دوررس نگاہوں نے جو فیصلے کیے، اس میں نہرو بھی شامل تھے۔ پنڈت نہرو کے سیاسی نظریات اور ان کے بعض فیصلوں سے اختلاف کی پوری گنجائش ہے، لیکن یہ ماننا پڑے گا کہ وقت اور حالات کی مناسبت سے انہوں مناسب قدم اٹھائے۔ آج ملک کی آزادی کے 75سال بعد پنڈت نہرو کی پالیسیوں پر لعن طعن کرنا یہ محض تنگ نظری کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ اسی طرح دیگر سیکولر قائدین کو بدنام کرنے کی سنگھ پریوار کی جانب سے پوری کوشش ہو رہی ہے۔ ان میں مولانا آزاد بھی ہیں۔ ابھی کچھ دن پہلے ان کا یوم پیدائش منایا گیا۔ ان کے یوم ولادت کو ”یوم قومی تعلیم “کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا گیا۔ لیکن کیا واقعی اس اندازمیں یہ تقاریب منائی گئیں جس طرح دیگر قومی قائدین کی منائی جاتی ہیں۔ مولانا آزاد نے قومی اتحاد اور متحدہ قومیت کے جذبہ کو ابھارنے کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی تھی۔ انہوں نے آخری وقت تک ملک کے بٹوارے کی مخالفت کی۔ اس کے لیے قوم کی گالیاں ان کو سننی پڑیں۔
ان ساری قربانیوں کے باوجود کیا ہندوستان میں مولاناآزاد کو وہ مقام اور مرتبہ مل سکا، جس کے وہ مستحق تھے۔ گاندھی، نہرو اور آزاد کے بجائے اب اس ملک میں ساورکر ، ناتھورام گوڈسے، شیاما پرشاد مکھرجی اور ہیڈگیوار کے گُن گائے جا رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہندوستان کی آزادی سے پہلے ہی ہندوستانی سماج میں مذہب کی بنیاد پر زہر گھولنا شروع کر دیا تھا۔ ہندو احیاءپرستی کے بیج بوکر ہندوو¿ں اور مسلمانوں کو لڑانے اور ان کے درمیان نفرت و عناد پھیلانا ان کا مقصد تھا۔ انگریزوں کی وفاداری ان کی گھٹّی میں تھی۔ ہر لمحہ وہ سامراج کے لیے جاسوسی میں لگے رہتے تھے ۔ اب یہی تنگ نظر اور ملک سے بے وفائی کرنے والے ملک کے پسندیدہ قائدین بن گئے ہیں۔ فسطائی طاقتوں کے اس دوہرے پن پر مجاہد آزادی مولانا حسرت موہانی کا یہ شعر یاد آتا ہے :
خرد کانام جنوں پڑگیاجنوں کا خرد
جوچاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
اس وقت ملک میں جس انداز کی حکمرانی کو اختیار کرلیا گیا ہے اس میں تحریک آزادی کی اعلیٰ اقدار اور صدیوں قدیم روایات کی کوئی اہمیت اور معنویت باقی نہیں رہی۔ جمہوریت کا لبادہ تو اوڑھ لیا گیا ہے لیکن اس کا کوئی پاس و لحاظ رکھنا اب حکمرانوں کے لیے لازمی نہیں رہا۔ اب یہ ملک بتدریج ہندو راشٹرا ہی نہیں بلکہ ظالمانہ ہندوراشٹرا (Tyrannical Hindu Rashtra)کی طرف بڑی تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ موجودہ مرکزی حکومت کی بے رحم حکمرانی کے چرچے پوری دنیا میں ہو رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹو نیو گوٹیرس نے ہندوستان آکر مودی حکومت کو کھری کھری سنادی۔ اس کے باوجود مودی حکومت ان عناصر کو روکنے میں ناکام ہوجا تی ہے ، جوگاندھی ، نہرو اور آزاد کی شخصیت کو داغدار کرتے ہوئے انگریزوں کے وفاداروں کو قوم کے مسیحا بناکر پیش کر رہے ہیں۔ یہ تعصب اور تنگ نظری ملک کو ایک ایسے آتش فشاں پر لا کھڑا کر دے گی کہ ملک اس کے شعلوں کی نذر ہو کر بھسم ہوجائے گا۔ ان انتشار پسند قوتوں کو من مانی کرنے کی مودی حکومت کھلی چھوٹ دے گی تو پھر محباّن وطن کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہو جائے گا۔ ایک سو سال پہلے ابھرے ہندوتوا کے نظریہ کو ملک میں نافذ کرنے کی جولگا تار کوشش ہو رہی ہے، اسی کی ایک کڑی کے طور پر ملک کے قدآور مجاہدین آزادی کی خدمات کو مسخ کیا جارہا ہے۔ گاندھی، نہرو، آزاد اور امیڈکر یہ وہ قائدین ہیں جنہوں نے ملک کی آزادی اوراس کی تعمیر نو میں ناقابل فراموش رول ادا کیا ہے۔ ملک کا قومی میڈیا بھی یہ سوال کرنے کی جرات نہیں کررہا ہے کہ آخر کن بنیادوں پر ساورکر اور گوڈسے کو اہمیت دی جا رہی ہے۔ کیا تاریخ کو جھٹلایاجا سکتا ہے۔ ملک سے بے وفائی کرنے والے آخر اچانک مجاہد آزادی کیسے بن گئے۔ کیا ناتھو رام گوڈسے نے گاندھی جی کا قتل نہیں کیا تھا؟ ناتھورام گوڈسے کو پھانسی کی سزا کیوں دی گئی؟ بغیر کسی جرم کے اسے بھانسی پر چڑھادیا گیا؟ کیا ہندوستان کی عدالتیں اس کے ساتھ انصاف نہیں کیں؟ یہ وہ سوالات ہیں جو ہندوستان کے ہر شہری کے ذہن میں آ تے ہیں۔ جس شخص نے30 جنوری 1948کو بابائے قوم کے سینہ میں بندوق کی تین گولیاں داغ دیں ، اسے آج قومی ہیرو کا درجہ دیا جا رہا تو اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ ملک کدھر جا رہا ہے۔ اس ذہنیت کو روکنا اور اس کے خلاف احتجاج کرنا ہر محب وطن کی ذ مہ داری ہے۔ باپو کے دیش کو ، ترشول برداروں کی دھرتی بننے سے بچانے کے لیے ان طاقتو ں کو ملک میں پنپ©نے کا موقع نہ دیا جائے تاکہ یہاں کی مشترکہ تہذیب اور اخوت کا ماحول متاثر نہ ہو۔ عامر عثمانی نے سچ کہا
کتنے شاہیں بسیرے کو ترسا کیے، باغ پر چھا گئے کتنے زاغ و زغن
کتنے اہل وفا ‘دار پر چڑھ گئے ، کتنے اہل ہوس بن گئے نورتن !
٭٭٭