مذہب

گستاخی رسولؐ اور آزادئ رائے کا فریب

پچھلے ہفتہ شہر حیدرآباد سے ایک فسطائی قائد نے آنحضرتؐ کی شان میں گستاخی کرنے کی جرأت کی؛ بیہودہ کلمات ادا کرتے ہوئے ایک ویڈیو بنایا گیا اور اسے سوشیل میڈیأ کے ذریعہ تشہیر دی گئی۔

ڈاکٹر عبد الغفار مہکری
پچھلے ہفتہ شہر حیدرآباد سے ایک فسطائی قائد نے آنحضرتؐ کی شان میں گستاخی کرنے کی جرأت کی؛ بیہودہ کلمات ادا کرتے ہوئے ایک ویڈیو بنایا گیا اور اسے سوشیل میڈیأ کے ذریعہ تشہیر دی گئی۔ اس کے چند ہی گھنٹوں میں شہر حیدرآباد کے غیور نوجوانوں نے نبی کریمؐ سے جڑے محبت کے جذبات کے ساتھ پرامن احتجاج منعقد کیا۔ احتجاجوں کا سلسلہ تب تھما جب ویڈیو بنانے والے قائد کو گرفتار کیا گیا۔ ان احتجاجوں میں نوجوانوں نے لاٹھی بھی کھائی اور کچھ گرفتار بھی ہوئے، اس طرح انہوں نے نبیؐ سے اپنی محبت کا ثبوت دیا۔ اللہ انہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اتباع کی توفیق دیکر مزید حقیقی محبت رسولؐ کا حامل بنائے، آمین۔

اس طرح کے واقعات کا رونما ہونا سارے عالم میں ایک عام بات بنایا جا رہا ہے۔ دنیا میں اور ملک میں کئی بار اسلام اور رسولؐ کی شان میں گستاخی کی کوششں کی گئی ہیں اور جاری بھی ہیں۔ ہر بار مسلمان اس کے خلاف احتجاج کرتے ہیں، دونوں فریقین میں سے کچھ گرفتاریاں ہوتی ہیں، کچھ لوگوں کو عہدوں سے برطرف کیا جاتا ہے، پھر حالات اگلی گستاخی تک معمول پر آ جاتے ہیں۔ اور ہر بار گستاخی میں شدّت پیدا ہوتی چلی جا رہی ہے اور دوسری طرف اس کے خلاف ردِّ عمل میں کمی دیکھی جا رہی ہے۔ اسے انگریزی اصطلاح میں نارملائزیشن کہا جاتا ہے، یعنی کسی ناگوار بات کو اتنی بار معاشرہ میں عام کرتے چلے جائیں کہ جس سے اس کے خلاف احساس میں کمی پیدا ہو۔ باوجود اس کے امّتِ مسلمہ کے دلوں سے محمدؐ کی محبت کو نکالنے کی کوشش کبھی کامیاب نہیں ہوگی۔ لیکن اُمّت کو اس بات پر فوری غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اس طرح کے واقعات کس بنیاد پر ہوتے ہیں، اور ان پر حقیقی روک کیسے لگائی جا سکتی ہے۔

ان واقعات کے تناظر میں سب سے اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کیا چیز ہے جو لوگوں کو اس بات کا حق دیتی ہے کہ وہ بِنا کسی کی پرواہ کیے دوسرے مذاہب یا افکار کی کھلے عام توہین کریں۔ حقیقت کچھ اس طرح ہے کہ آج سارے عالم میں سیکولر جمہوری نظامِ حکومت بیشتر ممالک میں نافذ ہے اور عالمی سیاست پر اسی نظریہ کا غلبہ ہے۔ سیکولر نظریہِ جمہوریت چار بنیادی اصولوں پر مبنی ہے: آزادئ ملکیت، آزادیِ رائے، آزادیِ مذہب اور شخصی آزادی۔ مغرب سے لیکر مشرق تک جہاں کہیں بھی آنحضرتؐ کی شان میں گستاخی عمل میں آتی ہے یا کسی بھی مذہب کی توہین کی جاتی ہے تو وہ آزادیِ رائے کے پرچم تلے ہوتا ہے۔

توہین آمیز واقعات کے بعد آزادیِ رائے کا ہی پرچم بلند کر کے بات کی جاتی ہے کہ یہ ہمارا حق ہے کہ ہم جو سونچتے ہیں اس رائے کا اظہار کر سکیں۔ چونکہ آزادیِ رائے جمہوریت کا ایک بنیادی اصول ہے؛ لِہٰذا سارے عالم کی تمام جمہوری حکومتوں پر اس آزادی کو یقینی بنانے کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ چنانچہ اگر کوئی ملک مذہبی توہین کے خلاف کارروائی کرتا ہے تو اسے اس آزادی کی خلاف ورزی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ آج امریکہ، یورپ، لندن، ہندوستان اور دیگر جمہوری پارلیمنٹوں اور میڈیأ میں اس آزادی کے دفاع کی بحث وقتاً فوقتٍاً چھیڑی جاتی ہے تاکہ اس آزادی کی دفاع کی جا سکے۔

تاریخی جائزہ کے مطابق آزادیِ رائے کے مفہوم کو سب سے پہلے یورپ میں متعارف کیا گیا اور عمل میں لایا گیا۔ ۱۷ویں اور ۱۸ویں صدی عیسوی میں جب یورپ میں انقلابات کا دور تھا، بادشاہت کے نظام کو ختم کر کے عوامی حاکمیت یعنی سیکولرزم کا قیام اور اس کے مطابق ممالک کی تقسیم و تعمیر جاری تھی، اس دور میں جمہوری نظام کے بنیادی اصولوں میں سے آزادیِ رائے کو ایک بنیادی اصول کی شکل میں پیش کیا گیا۔ شروعات میں اس آزادی کو ملحوظ رکھنے کا مقصد یہ تھا کہ چونکہ جمہوریت عوامی حاکمیت کا نظام ہے اس لیے اس نظام میں عوام کو اپنے حکمرانوں کا محاسبہ کرنے کی آزادی ہونی چاہیے۔ لیکن عوامی حاکمیت کی ناکامی کے باعث وقت کے ساتھ اس آزادی کا دائرہِ عمل آگے بڑھ کر عوام کے درمیان اس طرح سے آ پہنچا کہ کسی مذہب یا عقیدہ کی توہین کرنا بھی آزادیِ رائے کہلانے لگا۔ اور آج یہ حقیقت ہے کہ حکمراں کا محاسبہ ایک غیر حقیقی شئے بن چکا ہے جب کہ آزادئ رائے کا استعمال، مختلف مذاہب خاص طور پر اسلام کی توہین کے لیے سارے عالم میں کیا جاتا ہے۔

آزادیِ رائے ایک منفی سونچ ہے جس کی بِنأ پر معاشرہ کے ایک طبقہ کو یا کسی ایک مذہب کے لوگوں کو دوسرے عقائد، افکار اور مذاہب کی توہین کا ‘حق’ فراہم کیا جاتا ہے۔ جمہوری ممالک میں یہ ایک عام بات ہے، مثال کے طور پر امریکہ و یورپ میں خود عیسائی اپنے مذہب کے خلاف کہانیاں اور کارٹون شائع کرتے ہیں اور اسے مذاق کا مرکز بناتے ہیں۔ اسی طرح ہندوستان میں بھی لبرل طبقہ کے درمیان خود اپنے ہی مذہب کا مذاق اڑانا یا مذاق کو ٹھنڈے پیٹ برداشت کرنا تعریف کے قابل عمل مانا جاتا ہے؛ وہ چاہے کارٹون کی شکل میں ہو یا جدید اسلوب جیسے اسٹینڈاپ کامیڈی کی شکل میں۔ انٹرنیٹ پر ہزاروں ایسے ویڈیو مِل جائینگے جن میں مذہب کی توہین کی جاتی ہے لیکن آزادیِ رائے کو ملحوظ رکھتے ہوئے کسی ویب سائیٹ کو اختیار نہیں کو وہ ایسی ویڈیو پر امتناع عائد کر سکے۔ اپنی رائے کی آزادی کے ذریعہ دوسروں کی توہین کی آزادی اگر عام بنا دی جائے تو کیسے کسی بھی معاشرہ میں امن و استحکام کی امید کی جا سکتی ہے؟ اس منفی سونچ اور اس پر عمل کے عوض، معاشرہ میں عوام کو مذہب کی بنیاد پر بانٹا جاتا ہے، نفرت پیدا کی جاتی ہے، امن کو نقصان پہنچایا جاتا ہے، عدم رواداری پیدا ہوتی ہے، اور اس صورتِ حال کو جمہوری پارٹیاں اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ چنانچہ اس منفی سونچ کی بنیاد پر معاشرہ میں ایک دراڑپیدا ہوتی ہے اور باہمی تعلقات میں اتحاد کا پہلو اوجھل ہو جاتا ہے۔

اس کے علاوہ آزادیِ رائے کے عملی نفاذ میں ایک علانیہ منافقت دیکھنے کو ملتی ہے۔ جب کسی مذہب کے عقائد یا اس کے رہنمأ یا پھر کتابوں کی توہین ہوتی ہے تو اسے آزادیِ رائے کا نام دیا جاتا ہے؛ خاص طور پر عالمی اور ملکی سطح پر اسلام کے خلاف یہ عمل زوروں پر ہے۔ لیکن جب کسی ملک کے قائدین، حکمراں، رہنمأ، دستور یا پرچم کے خلاف کچھ کہا جائے تو وہ قابلِ قبول نہیں ہوتا؛ مثال کے طور پر ہندوستان میں شروعات سے سیڈیشن کا قانون نافذ ہے ان سب کے خلاف جو قومی مفاد، پرچم یا دستور کی توہین کرتے ہیں۔

اسی طرح مغربی ممالک میں اگر برطانیہ کی ملکہ، فرانس کے صدر، امریکہ کے پرچم، یا اسرائیل کے وجود کی توہین کی جاتی ہے تو وہ قابلِ قبول عمل نہیں ہوتا۔ چنانچہ دیکھا جاتا ہے کہ مذہب کے معاملہ میں آزادیِ رائے کو خوب ہوا دی جاتی ہے لیکن حکومتوں کے سیاسی مفاد کی خالف ورزی ہو تو آزادیِ رائے نام کی چیز کا ذکر نہیں ہوتا۔ یہ اس لیے کیونکہ آزادیِ رائے ایک نام نہاد آزادی ہے جس کو حکومتیں اپنے مفاد کے مطابق تحریف کر کے عمل میں لا سکتی ہیں اور اس پر حسبِ ضرورت امتناع عائد کر سکتی ہیں۔ معلوم ہوا کہ کامل آزادی ایک غیر حقیقی شئے ہے۔

مندرجہ بالا گفتگو کا لبِ لباب یہ ہے کہ شانِ اقدسؐ میں گستاخی اور توہین آمیز تقریر، تحریر یا کارٹون وغیرہ کا شائع کیا جانا، یا پھر معاشرہ میں کسی اور مذہب کے عقائد کی توہین کا پیش آنا یہ سب آزادیِ رائے کی سونچ کی بنیاد پر عمل میں آتا ہے۔ یاد رہے کہ ہر عمل کا دار و مدار افکار پر ہے، اس کے علاوہ معاشرہ میں نافذ نظام کی جانب سے فراہم کردہ مواقع، سہولیات اور مفادات بھی اس سے مربوط ہیں۔ موجودہ سیکولر جمہوری نظامِ حیات آزادانہ افکار کو فروغ دیتا ہے، اور اپنے موجودہ سیاسی ایجنڈہ کےمطابق اسلام کے خلاف کھلی دشمنی کو نہ صرف ہند میں بلکہ تمام عالم میں فروغ دے رہا ہے۔ یہ اسی عوامی حاکمیت کے نظام کی دین ہے کہ فسطائی طاقتیں دنیا کے کئی ممالک میں اقتدار پذیر ہیں۔ لہٰذا سیکولر نظامِ حیات بذاتِ خود اور اسکی فسطائی شکل، موجودہ مسائل کی جڑ ہیں۔

انسانوں کے خود ساختہ نظام ہائے زندگی کے برعکس اسلام ایک ایسا دین، ایسا نظریہ، ایک ایسی آئیڈیالوجی ہے جو انسانی عقل، خواہشات اور خود ساختہ مفادات سے بالاتر ہے؛ یہ وہ دین ہے جسے خالقِ کائنات اللہ رب العزّت نے وحی کے ذریعہ خاتم النبیین محمد عربیؐ کی جانب نازل فرمایا اور تا قیامت انسانیت کے لیے اسی دین کو پسند فرمایا۔ جمہوریت کے برعکس اسلام انسانی آزادی کے جھوٹ پر مبنی نہیں ہے بلکہ اسلام یہ اعلان کرتا ہے کہ انسان دنیا میں اللہ کے نازل کردہ احکام کا پابند ہے۔ جمہوریت دعویٰ کرتی ہے کہ انسان آزاد ہے لیکن بالآخر چند انسانوں کے اقتدار کے ذریعہ ان کو باقی عوام کا مالک اور عوام کو ان کا غلام بنا دیتی ہے؛ اور شخصی آزادی کی فکر کی بنیاد پر انسان کو اپنی خواہشات کا غلام۔ تو پھر یہ آزادی کیسے ہوئی؟ حقیقی آزادی انسانوں کے لیے یہی ہے کہ ان کو دیگر انسانوں کی غلامی سے نجات دِلا کر خالقِ کائنات کی اطاعت میں لایا جائے۔

دینِ اسلام میں آزادیِ رائے نام کی کوئی فکر یا سیاسی مفہوم موجود نہیں ہے۔ اسلام ایک ایسے معاشرہ کی تعمیر کا حکم دیتا ہے جہاں مختلف مذاہب و عقائد کے لوگ اسلام کے اقتدار کے تحت اپنے مذہب پر زندگی گزار سکتے ہیں۔ اسلام تمام انسانیت کو دینِ حق کی طرف دعوت دیتا ہے لیکن کسی پر اس معاملہ میں جبر نہیں کہ وہ عقیدہِ اسلام کو قبول کریں۔ اس کے علاوہ معاشرتی سطح پر شریعت کا یہ حکم ہے کہ مسلمان دیگر مذاہب کے لوگوں کے عقائد کا مذاق نہ اُڑائیں اور نہ ان کے مانے جانے والے معبودوں کی توہین کریں؛ بلکہ حکمت و دانائی کے ساتھ انہیں اسلامی عقیدہ کی دعوت دیں۔ اسی طرح دیگر مذاہب کے افراد کو بھی اسلامی شریعت میں اس بات کی اجازت ہرگز نہیں ہوگی کہ وہ اسلامی عقائد و شعائر کی توہین کریں۔ ان قوانین کی نافرمانی کرنے والے افراد کے لیے شریعت نے تعزیرات متعین کیے ہیں۔

اس طرح آزادیِ رائے کی منفی سونچ کے برعکس اسلام معاشرہ میں حقیقی امن، رواداری اور مثبت باہمی تعلقات کو فروغ دیتا ہے۔ مدینۃ النبیؐ میں آپؐ کی قیادت کے تحت مسلمان، یہودی، عیسائی اور مشرکین تمام ایک پُر امن معاشرہ میں زندگی گزارا کرتے تھے۔ اسلام کی خلاف ورزی کرکے اسلامی اقتدار اور معاشرہ کے امن کو نقصان پہنچانے والے طبقات کو مؤثر انداز میں روکا جاتا۔ یہی حقیقت خلافتِ راشدہ اور اس کے بعد ۱۳۰۰ سال تک خلافتِ اسلامیہ کے اقتدار کے تحت یقینی بنائی گئی۔

عقیدہ کے معاملہ میں اس بات کی سہولت تھی کہ مختلف مذاہب کے لوگ اپنے عقیدہ پر رہ سکتے تھے، اپنی عبادتیں اور انفرادی زندگی کے معاملات میں اپنے مذہب کے مطابق عمل کرنے کا اختیار رکھتے تھے؛ اور معاشرتی معاملات مثلاً سیاست، معیشت، معاشرت، وغیرہ میں اسلامی قوانین کے پابند کیے جاتے۔ یہ ایک مثالی معاشرہ ہوتا ہے جس میں انسانی فطرت کا لِحاظ رکھا جاتا ہے، امن و انصاف کو یقینی بنایا جاتا ہے، اور شریعتِ اسلامی کے نفاذ اور غلبہ کے ذریعہ دیگر انسانیت کو کفر کے اندھیروں سے نکال کر اسلام کے نور کی طرف رہنمائی کا راستہ ہموار کیا جاتا ہے۔ قارئین اس پیغام پر غور و فکر کریں اور اس نظریاتی پہلو کو اپنی سیاسی تجزیہ نگاری اور لائحہ عمل کی تیاری میں ملحوظ رکھیں۔
٭٭٭