سیاستمضامین

ہندوستان میں مساجد‘ مدارس اور خانقاہوں کی تباہیمسجد الحکیم کا دورہ‘ مودی سے مصر کی نیک تمنائیں

سلیم مقصود

مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کرنے ‘ ان کی لنچنگ کرنے اور مخالف اسلامی جنون کو ہوا دینے کے سبب مودی حکومت اور آر ایس ایس اور اس کی پالتو تنظیمیں بہت بدنام ہوگئیں۔ مسلم ممالک‘ یوروپی ممالک اور اقوام متحدہ میں بھی مودی حکومت ذلیل ہوگئی۔
مودی حکومت اور آر ایس ایس نے دوبارہ اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنے کے لئے اندرون ملک مسلم علماء اور مسلم ملکوں سے گفت وشنید کا سلسلہ شروع کیا۔ اجیت ڈوبھال جیسے ہندوستان کی خفیہ ایجنسی کے سابق اعلیٰ عہدیدار اور مودی حکومت کے مشیرنے مسلمانوں کے ساتھ بہتر سلوک کی ہندوتوا تنظیموں کو رائے دی ۔جس سے ایسا لگتا ہے کہ بعض مسلم ممالک ہندوستان کے قریب آنے لگے ہیں۔ خصوصاً یو اے ای نے حال ہی میں ہندوستان کے 100 بلین ڈالر کی تجارتی مفاہمت انجام دی ہے جس کا تعلق پٹرول کی سربراہی سے نہیں ہوگا بلکہ ہندوستان کی بہت سی تجارتی اشیاء برآمد کی جاسکیں گی۔ ہندوستان نے روس سے سستے داموں پٹرول لے کر یوکرین جنگ سے متاثر جن ممالک کو بھاری قیمتوں میں تیل سربراہ کرنا شروع کیا تھا اس سے روس سخت ناراض نظر آرہا تھا۔ مگر شاید اسے اب اس بات کا پتہ چل چکا ہے کہ اس اقدام سے خود روس کو بھی شدید فائدہ حاصل ہوسکتا ہے۔
مودی کے ماہ جون میں امریکہ میں داخل ہوتے ہی امریکہ کے بہت سے کثیر اشاعتی اخبارات نے مودی پر مسلمانوں کے ساتھ ظالمانہ سلوک کی تمام تفصیلات شائع کرنا شروع کردیں۔ امریکہ کے نائب صدر نے بھی ایک تقریب میں اس کا تذکرہ کردیا۔ امریکہ کی بعض ریاستوں میں منی پور کے ہلاکت خیز واقعات کے خلاف احتجاج کیا گیا۔ امریکہ کے سابق صدر بارک حسین اوباما نے بھی مودی حکومت کے مسلمانوں کے ساتھ متعصبانہ رویہ پر نکتہ چینی کردی۔ جس پر مودی کے بہت ہی قریبی خدمت گار اور وفادار آسام کے وزیراعلیٰ ہیمنت بسوا شرما نے ایک پریس کانفرنس میں پہلے ہندوستان کے بارک حسین اوباما کے خلاف کارروائی کرنے کو ترجیح دینے کا اظہار کیا ۔ اس سے مودی نے اپنی تقریر میں امریکہ میں جو دعویٰ کیا تھا کہ ہندوستان میں جمہوری نظام قائم ہے اور یہاں تمام برادریوں کے ساتھ یکساں سلوک کیا جاتا ہے اس دعویٰ کی قلعی کھل گئی۔
نریندر مودی بدقسمتی سے جب پہلی بار ہندوستان کے وزیراعظم بنے تھے تو انہیں مبارکباد دینے کے لئے بوہرہ فرقہ کے قائدین نے ان سے ملاقات کرنے کی غلطی کی تھی اور انہیں بہت ہی خوشی کے ساتھ بوہرہ ٹوپی پہنانے کی کوشش کی تھی جسے مودی نے نہایت ہی حقارت کے ساتھ غضبناک انداز میں رہتے ہوئے سر سے اتاردیا تھا جس سے بوہرہ فرقے کی شدید دل شکنی ہوئی تھی ۔ مودی ہی کے دورانِ وزارت اعلیٰ میں2002ء میں گجرات فسادات کے دوران بوہرہ فرقے کے تجارتی وسائل ‘ گھروں ‘ دوکانوں‘ مردوں ‘ عورتوں اور بچوں اور لڑکیوں کو بیدردی کے ساتھ قتل کردیا گیا تھا اور آگ میںجلادیا گیا تھا۔ یہی مودی 24جون کو مصر کے اپنے پہلے دورے میں بوہرہ فرقے کی بحال کردہ تاریخی مسجد الحکیم میں نہایت ہی ادب و احترام اور محبت کے ساتھ وہاں موجود بوہرہ بزرگوں اور بچوں کے ساتھ مل کر ان کے ہندوستانی ہونے پر فخر کا اظہار کررہے تھے۔
مودی نے مصر کے دورے پر جمال عبدالناصر اور نہرو کا تذکرہ تو نہیں کیا لیکن غیر جانبدارانہ ممالک کی تحریک میں مصر اور ہندوستان کے قریبی تعلقات کی بہت تعریف کی ۔ مودی کے مصر کے دورے کو26سال بعد ہندوستان کے وزیراعظم کا پہلا دورہ تصور کیا جارہا ہے ۔ 9 سال کی مدت میں مودی نے 50سے زائد ممالک کا ’’ تفریحی دورہ‘‘ کیا لیکن امریکہ کے 4دن کے حوصلہ افزاء سفر کے بعد انہوں نے مصر کا دو دن کا سفر کیا ہے۔ مصر کے وزیراعظم مصطفیٰ مدبولی کی کابینہ میں وزراء کا ایک ہندوستانی یونٹ بھی شامل ہے جسے مصر کے صدر السیسی نے ہندوستان کے ساتھ گرم جوشانہ تعلقات قائم کرنے کیلئے مقرر کیا ہے۔ مصر کے لئے مودی کے دورے کی اہمیت اس لئے بھی زیادہ ہے کہ مودی کی سفارش پر افریقی یونین کے ممالک کے ساتھ مصر G-20 گروپ میں شامل ہوسکتا ہے۔
مودی کو اپنی ایک تقریب میں ہندوستان میں داؤدی بوہرہ فرقہ نے2018ء میں شرکت کی دعوت دی تھی انہیں مودی نے اپنی ایک بدسلوکی کا کفرہ ادا کرنے کے لئے ’’ قوم کی ریڑھ کی ہڈی‘‘ قراردیا تھا ۔ مصر کو اساسی ڈھانچوں اور تجدیدی توانائی(Renewable Energy) کی سخت ضرورت ہے۔ ہندوستان کی مدد سے اسے اس کی سہولت ہوسکتی ہے اور ہندوستان مصر کے بعض ممالک کے ساتھ برادرانہ تعلق سے فائدہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔ ہندوستان قاہرہ میں ہونے والی چوٹی کانفرنس سے بھی فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔ مصریوں کو ہندوستانی فلموں اور اس کی موسیقی سے جنون کی حد تک لگاؤ ہے ۔ مصر میں ہندوستانی فلموں کو مقبولیت حاصل ہے۔ مصر کی آبادی105ملین ہے اور اس کی معاشی حیثیت 378بلین ڈالر ہے ۔ مصر کے معاشی و سیاسی حالات عراق‘ شام ‘ یمن اور لبنان کے مقابلے میں بہت مستحکم اور پرسکون ہیں۔ مصر کو فی الحال گندم‘ ادویات‘ موٹر کاروں‘ اساسی ڈھانچوں اور صاف ستھرے پٹرول کی شدید ضرورت لاحق ہے۔ یہ اشیاء اسے ہندوستان ہی سربراہ کرسکتا ہے۔ یوکرین کی جنگ کے بعد مصر کو روس سے گندم اور پٹرول کا ملنا بہت مشکل ہوگیا ہے اس کی یہ کمی ہندوستان ہی پوری کرسکتا ہے۔ مصر کی حکومت نے 49 میگا پراجکٹ ‘ 25بلین ڈالر کے بجلی کے ایک نیوکلیائی پلانٹ کی تیاری کا منصوبہ تیار کیا ہے۔ جدید قاہرہ کی تعمیر کے لئے 25 بلین ڈالر کا مصر کا منصوبہ ہے ۔ 2015ء سے اب تک مصر جنگی اسلحہ کی درآمد کرنے والا تیسرا بڑا ملک بن چکا ہے۔ لیکن عالمی بیماریوں‘ یوکرین کی جنگ‘ سیاحتی آمدنی میں شدید کمی کے سبب مصر کا سالانہ افراط زر 30فیصد تک پہنچ چکا ہے۔ مصر کے قرضہ جات خوش حالی کے باوجود بھی عالمی ناہموار حالات کے سبب163 بلین ڈالر تک پہنچ چکے ہیں۔ یہ قرضہ جات خام گھریلو پیداوارGDP کے 43فیصد کے برابر ہیں لیکن اس کے غیر ملکی اثاثہ جات 24.1 بلین ڈالر(منفی) تک پہنچ چکے ہیں ۔ اس لئے مصر کے غیر عوامی منتخبہ صدر السیسی کو نریندر مودی سے بہت زیادہ توقع ہے کہ وہ ان کی ہر معاملے میں مدد فرمائیں گے۔
یوم آزادی کی دعوت میں عبدالفتح السیسی اس لئے بڑی امید کے ساتھ ہندوستان تشریف لائے تھے اور انہوں نے ہندوستان سے اپنے ملک واپس جانے سے قبل مودی سے چند مطالبات بھی کئے تھے اور انہیں مصر آنے کی دعوت بھی دی تھی۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰

a3w
a3w