سیاستمضامین

ہندو انڈومنٹ ڈپارٹمنٹ کے ایڈوکیٹس نے اپنی شاندار کارکردگی سے ہزاروں کروڑ روپیہ مالیتی اراضیات کو رئیل اسٹیٹ مافیا کے قبضہ سے واپس حاصل کرلیا لیکن وقف بورڈ کی اراضیات پر رئیل اسٹیٹ مافیا کے قبضے بڑھتے جارہے ہیں

٭ ہندوجا گروپ نے لیز شرائط کی خلاف ورزی میں رئیل اسٹیٹ بزنس شروع کردیا تھا۔ ٭ ہندو انڈومنٹ ڈپارٹمنٹ نے ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں مقدمات میں کامیابی حاصل کی۔ ٭ لیز شرائط کی خلاف ورزی میں لیز کی منسوحی جائز قراردی گئی اور اراضیات کی واپسی کا حکم ہوا۔ ٭ دوسری جانب وقف بورڈ کے وکلاء اپنے مقدمات ہارتے ہی چلے جارہے ہیں۔

محمد ضیاء الحق (ایڈوکیٹ

٭ ہندوجا گروپ نے لیز شرائط کی خلاف ورزی میں رئیل اسٹیٹ بزنس شروع کردیا تھا۔
٭ ہندو انڈومنٹ ڈپارٹمنٹ نے ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں مقدمات میں کامیابی حاصل کی۔
٭ لیز شرائط کی خلاف ورزی میں لیز کی منسوحی جائز قراردی گئی اور اراضیات کی واپسی کا حکم ہوا۔
٭ دوسری جانب وقف بورڈ کے وکلاء اپنے مقدمات ہارتے ہی چلے جارہے ہیں۔
حسینی علم حیدرآباد میں واقع ایک ہندو اداسین مٹھ کو 1904 میں ایک اراضی کا تحفہ دیا گیا تھا ۔ صرف حسینی علم میں اس مٹھ کی اراضیات کی قیمت15000 کروڑ روپیہ ہے۔ علاوہ ازیں اس مٹھ کو ‘کوکٹ پلی میں 530 ایکر اراضیات کا تحفہ دیا گیا تھا۔ اس بات کا علم نہیں کہ ان اراضیات کا تحفہ کس نے دیا تھا لیکن یہ بات مسلمہ ہے کہ ان تمام اراضیات کا مالک متذکرہ مٹھ کا انتظامیہ ہے۔
اس مٹھ کے انتظامیہ نے ہندوجا گروپ کو 530 ایکر اراضیات لیزپر دیا تھا اور اس غرض کے لئے لیزپر دیا گیا تھا کہ اس تمام اراضی پر فیکٹریاں کھولی جائیں گی اور مقامی عوام کو روزگار دیا جائے گا۔ لہٰذا ہندوجا گروپ نے اس اراضی کے ایک چھوٹے سے حصہ یعنی صرف پچاس ایکر پر ایک فیکٹری کی تعمیر کی اور اس کمپنی کا نام انڈین ڈیٹونیٹرس رکھا یعنی اس فیکٹری میں ڈائنامیٹ اور جلیٹن اسٹکس بنانے کاکام شروع کیا۔ کمپنی چل رہی تھی اور اب بھی چل رہی ہے اور اس فیکٹری میںپروڈکشن ہورہا ہے۔
لیکن دولتمند صنعت کار تھوڑی سی دولت سے مطمئن نہیں رہتے۔ ہندوجا گروپ نے ایسے وقت جبکہ حیدرآباد میں رئیل اسٹیٹ تجارت عروج پر تھی سوچا کہ پانچ سو ایکر اراضی بیکار پڑی ہوئی ہے اور خواہ مخواہ 99 سال تک اس کا کرایہ ادا کرنا پڑرہا ہے ۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ کرایہ چھ ہزار روپیہ فی ایکر تھا۔ اب ہندوجا گروپ نے اس پانچ سو ایکر اراضیات پر رئیل اسٹیٹ وینچر بنائے اور اراضیات کے پلاٹس کا سلسلہ چل پڑا۔ بڑے بڑے کامپلکس تعمیر کرنے کا پروگرام بنانا شروع کیا۔
لیکن وقف بورڈ کے برعکس جب ہندوانڈومنٹ ڈپارٹمنٹ نے محسوس کیا کہ یہاں تو لیز شرائط کی خلاف ورزی ہورہی ہے تو ہندوجا گروپ کو نوٹس جاری کی گئی کہ لیز شرائط کی خلاف ورزی میں تمام رئیل اسٹیٹ کاروبار بند کردیئے جائیں ورنہ لیز کو شرائط کی خلاف ورزی میں منسوخ کردیا جائے گا کیوں کہ رئیل اسٹیٹ (Activities) روز بڑھتی ہی جارہی ہیں۔ ہندوجا گروپ نے نوٹس کا کوئی جواب نہیں دیا لہٰذا ہندو انڈومنٹ ڈپارٹمنٹ نے 99 سالہ لیز کو اس عنوان پر منسوخ کردیا کہ لیز شرائط کی صریحاً خلاف ورزی ہوئی ہے اور وہ لیز کی آڑ میں رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں تجارت کررہے ہیں۔ لہٰذا لیز کو منسوخ اور برخواست کردیا گیا۔
ارب پتی گروپ کب خاموش بیٹھنے والا تھا۔ انڈومنٹ ٹریبونل سے لے کر ہائیکورٹ اور ہائیکورٹ سے لے کر سپریم کورٹ تک مقدمہ چلا اور ہر مرحلے پر انڈومنٹ کی جیت اور ہندوجا گروپ کی ہار ہوئی اور آخرِ کار 16ستمبر2022ء کی تاریخ پر سپریم کورٹ نے اپنا حتمی فیصلہ سنادیا اور لیز کی منسوخی درست قرارپائی۔ اس ضمن میں ہندوانڈومنٹ ڈپارٹمنٹ کے ایڈوکیٹس نے جان توڑ کوشش کی اورآخر کار کامیابی حاصل کرلی جسے ایک تاریخی جیت قراردیا جاسکتا ہے۔ ان ایڈوکیٹس کو متذکرہ ڈپارٹمنٹ کی جانب سے تہنیت پیش کی گئی اور ان کی مخلصانہ کوششوں کو سراہا گیا۔
دوسری جانب تلنگانہ وقف بورڈ اور درجِ رجسٹر وقف جائیدادوں کا کیا حال ہے اور ان جائیدادوں کی حفاظت کا ذمہ دار سرکاری محکمہ یعنی وقف بورڈ کس حد تک فعال ہے۔ درگاہ حسین شاہ ولی ؒ کی وقف اراضی موازی 1654 ایکر جس پیشہ ورانہ نااہلی سے برباد ہوئی‘ اس کی مثال نہیں دی جاسکتی۔ قانونی موقف بالکل واضح تھا ۔ 1958ء میں سجادہ نشین کے نام منتخب جاری ہوا تھا جس کا ریکارڈ موجود ہے ۔ زمین کورٹ آف وارڈ میں تھی کیوں کہ وراثت زیرِ تصفیہ تھی۔ جب1958ء میں منتخب جاری ہوا تو شک و شبہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی تھی اور ساری اراضی درگاہ کے نام ہوجاتی اور ریوینیو ریکارڈ میں ضروری اندراج ہوجاتا۔1989ء میں گزٹ نوٹیفکیشن میں ترمیم کی گئی اور اس ترمیم کے خلاف کسی نے بھی اعتراض نہیں کیا۔ بات بالکل صاف ہوگئی۔ لیکن یہ باتیں عدالت کے علم میں نہیں لائی گئیں۔ اس زمین کے ایک قابل لحاظ حصہ پر وقف بورڈ کے اربابِ مجاز کے تعاون سے ایک سیاسی لیڈر نے قبضہ کرلیا اور وہاں پر Lanco Hills نامی رئیل اسٹیٹ تعمیرات کا آغاز کیا ۔ شہر حیدرآباد کے ہمدردانِ ملت نے وقف بورڈ کے علم میں یہ ساری باتیں لائیں اور درخواست کی کہ وقف بورڈ فوری طور پر قانونی اقدام کرے لیکن وقف بورڈ نے خاموشی اختیار کی۔ یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ اس وقت کے ایک وقف کے اسٹانڈنگ کونسل نے عدالت کے انتہائی خطرناک سوال پر اظہارِ رضامندی ظاہر کی اور یہی اظہارِ رضامندی بعد میں سپریم کورٹ میں مقدمہ کی تباہی کا باعث بنی۔ اسٹانڈنگ کونسل کی اس رضامندی کو ریکارڈ پر لایا گیا اور سب کچھ تباہ ہوگیا۔
علاوہ ازیں ایسی سینکڑوں بلکہ ہزاروں اراضیات ہیں جو اس وقت معلق ہیں۔ ان اراضیات سے وقف بور ڈکو کوئی فائدہ نہیں ہورہا ہے۔
اس ضمن میں ایڈوکیٹس کی رائے کچھ عجیب ہے ‘ کیوں اچھے ایڈوکیٹس کا تقرر نہیں کیا جاتا۔ کوئی قابل اور اچھی پریکٹس رکھنے والا ایڈوکیٹ وقف بورڈ کا وکیل بننا پسند نہیں کرتا‘ کیوں کہ فیس انتہائی قلیل ہوتی ہے اور دو دو تین تین سال کے بعد بھی انہیں وقف بورڈ کی جانب سے فیس نہیں ملتی تو پھر کونسا اچھا اور قابل ایڈوکیٹ اپنا وقت برباد کرے گا۔
اہم اور ضروری فائلس کا گم جانا یا Trace نہیںہونا ایک معمولی سی بات ہے۔ مفاداتِ حاصلہ جو وقف اراضیات پر غیر قانونی طور پر قابض ہیں‘ چند ہزار یا دو ایک لاکھ روپیہ ادا کرکے ضمیر و ایمان فروش ملازمینِ وقف بورڈ سے ضروری کاغذات حاصل کرلیتے ہیں جو مقدمہ کے لئے بہت اہم ہوتے ہیں۔ دورِ حاضر میں سب سے ارزاں چیز ایمان ہے جسے خریدلینا ہر مفاداتِ حاملہ کے لئے کوئی بڑی بات نہیں
وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کاراں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
درگاہ حضرت بابا شرف الدینؒ کی وقف شدہ 2123ایکر اراضی کہاں گئی؟
حضرت بابا شرف الدینؒ کی درگاہ کی خدمت کے لئے ایک صاحب خیر نے اپنی پٹہ اراضی موازی 2123 ایکر وقف کی اور اس وقف کو درج رجسٹر وقف کیا گیا اور گزٹ نوٹیفکیشن بھی جاری کیا گیا۔ اس نوٹیفکیشن کے خلاف کوئی اپیل دائر نہیں کی گئی اور یہ اراضی وقف اراضی قراردی گئی۔
لیکن اس قانونی حقیقت کے باوجود کیا ساری کی ساری 2123 ایکر اراضی وقف بورڈ کے قبضہ اور کنٹرول میں ہے ۔ اس اراضی پر بڑے بڑے رئیل اسٹیٹ Tycons نے قبضہ کررکھا ہے اور وہاں ان اراضیات پر ہمہ منزلہ تعمیرات کی جارہی ہیں۔ یہ علاقہ زبردست تجارتی مرکز بن گیا ہے اور یہاں سے شمس آباد ایر پورٹ نہایت قریب ہے۔
کیا کبھی وقف بورڈ نے اس ضمن میں ان ناجائز قبضہ جات کو برخواست کرنے کی کوشش کی ؟اگر نہیں تو کیوں نہیں؟
وقف اراضیات پر غیر قانونی اور ناجائز قبضہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ لینڈ گرابرس اور اربابِ وقف بورڈ ‘ ریوینیو ڈپارٹمنٹ اور وزارتِ اقلیتی امور کے درمیان کوئی Nexus نہ ہو۔ لینڈ گرابرس لابی کے پاس اس قدر دولت ہے کہ وہ کسی بھی عہدیدار ‘ کسی بھی ملازمِ وقف بورڈ اور اقلیتی امور کو منہ بولے داموں میں خرید سکتے ہیں۔
یہ قابلِ فروخت اشیاء ہیں ان کے دلِ ان کے ضمیر اور ان کا ایمان تمام کا تمام قابلِ فروخت ہے صرف خریدار کی ضرورت ہے اور خریداروں کی کمی نہیں۔ بہت کم لوگ واقف ہیں کہ اب وقف قانون 1995ء زعفرانی حکومت کی زد میں آنے والا ہے۔
ساؤتھ زون میں قتل و غارت گری اور اراضیات کے پلاٹس پر قبضہ روز کا معمول بنتا جارہا ہے
ساؤتھ زون (پرانا شہر) میں قتل و غارت گری روز کا معمول بنتا جارہا ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر قتل ہورہے ہیں۔ مسلمانوں کے ہاتھوں مسلمانوں کا قتل ہورہا ہے۔ اکابرین ملت اس خونین معاملہ میں بالکل خاموش ہیں اور کچھ نہیں کہتے۔ اگر معمولی اختلافات بھی ہوں تو نوجوانوں کا ایک گروپ کسی نوجوان کے گھر جاتا ہے اور بات کرنے کے بہانے کسی نوجوان کو بلا لے جاتے ہیں۔ پھر دو دن بعد خبر آتی ہے کہ اس نوجوان کا قتل ہوگیا۔ کبھی کبھی تو صرف پانچ سو روپیوں کی خاطر قتل ہورہے ہیں۔ یہ لعنت ساؤتھ زون میں ہی کیوں ہے۔ کچھ سال پہلے جب حیدرآباد پولیس نے سرچ اینڈ کارڈن آپریشن شروع کیا تھا تو محلوں کو محصور کرکے ہر گھر کی تلاشی لی جاتی تھی اور ہتھیار ضبط کرلئے جاتے اور آرمس یکٹ میں مقدمات چلائے جاتے۔ یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ جب تک کہ تلاشی کا سلسلہ چلتا رہا‘ پرانے شہر میں قتل کی کوئی واردات نہیں ہوئی۔ اگر یہ سلسلہ بند نہ ہو تو ساؤتھ زون میں دوبارہ (Cordon & Search) آپریشن شروع ہوسکتا ہے۔ اس وقت شکایت بے جا ہوگی ۔ والدین سے التماس ہے کہ وہ اپنے بچوں پر نظر رکھیں اور انہیں بری صحبت سے دور رکھیں۔ نوجوان گمراہ ہورہے ہیں اور منشیات کی لت میں پڑے ہوئے ہیں۔ رات دیر گئے تک چبوتروں پر بیٹھنا اور لوگوں کی نیند حرام کرنا ایک معمول بن گیا ہے۔ شاہین نگر سے شکایت آئی ہے کہ ایک صاحب کا 700 مربع گز پلاٹ پر کچھ مقامی افراد نے زبردستی قبضہ کرلیا ۔ جب مالکِ پلاٹ گئے توانہیں مار کر بھگادیا گیا۔ جب پولیس اسٹیشن سے رجوع ہوئے تو رائے دی گئی کہ یہ سیول معاملہ ہے۔ آپ سیول عدالت جائیے جبکہ یقینی طور پر یہ Tres Pass کا کیس ہے۔
اور کئی شکایتیں فون پر آرہی ہیں۔ مسلمانوں کا خون ‘ مال اور اراضی مسلمانوں پر حلال ہورہا ہے جبکہ یہ حرام۔
ان لوگوں کو اس دنیا میں سزا تو ملے گی مگر آنے والی زندگی میں اللہ کی پکڑ بہت مضبوط ہوگی۔ قتل گناہِ عظیم ہے۔ ایک انسان کا قتل ساری عالمِ انسانیت کا قتل ہے۔ قرآن کریم کی اس ہدایت کو مسلمان کیوں نہیں سمجھتے۔ مومن کے قاتل کی سزا دائمی عذابِ جہنم ہے۔ ان لینڈ گرابرس کیلئے یہ وعید ہے کہ قیامت کے روز ان کی گردنوں میں سات زمینوں کا طوق پہنایا جائے گا۔ تب یہ لوگ کیا کریں گے؟
وہ لوگ جنہوں نے دوسروں کی افتادہ اراضیات پرناجائز قبضہ کرلیا ہے وہ اس اراضی کو اس کے مالکین کو واپس کردیں اور اللہ تبارک تعالیٰ سے معافی کے خواستگار ہوں۔ شائد کہ ان کی بخشش ہوجائے۔
یہ بات بھی دیکھی گئی ہے کہ نوجوان آج کل معمولی سی بات پر طیش میں آجاتے ہیں اول فول بکنے لگتے ہیں اور خنجر بھی نکال لیتے ہیں۔ان سب کے پیچھے ام الخبائث کارفرما ہے ۔ شراب اور گانجہ کا استعمال روز کا معمول بنتا جارہاہے۔
سب تباہی کے ہیں آثار چنا جور گرم
سوال :- السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ محترم ایڈوکیٹ صاحب مدظلہ العالی اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ آپ اور اخبار منصف ملت اسلامیہ کو بے لوث قانونی مشوروں سے روشناس کرتے ہیں اور روزنامہ منصف کے قارئین تک پہنچاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس کام کا اجر عظیم عطا کرے۔ آمین ثمہ آمین بجاہ سید المرسلین۔
عرض خدمت یہ ہے کہ زید رجسٹر شدہ دستاویز کے مکان کو بذریعہ نوٹری دستاویز پر خریدا تھا زید اس مکان کو اپنی حقیقی بہن کی لڑکی(بھانجی) کے نام پر ہبہ کردینا چاہتا ہے ۔ اسلامی قانون کے مطابق مشورہ سے نوازیئے۔فقط۔
محمد صدیق (جہاں نما لانسرز)
جواب:- زید اگر چاہے تو اپنی زر خرید جائیداد کو یقینی طور پر اپنی ہمشیرہ کی بیٹی کے نام پر ہبہ کرسکتا ہے ۔ اس فرض کی تکمیل کے لئے اسے ایک دستاویز تیار کرنا ہوگا جس میں صراحت ہوکہ اس نے اپنے ہوش و حواس میں اور بغیر کسی اکراہ کے بخوشی اپنی بھانجی کے نام ہبہ کردیا جسے اس لڑکی نے قبول کرلیا اور اس مکان کا قبضہ بھی حاصل کرلیا ۔ اس دستاویز پر دو گواہوں کے دستخط بھی ضروری ہیں لیکن مکان کا قبضہ لڑکی کو دینا ضروری ہوگا۔

a3w
a3w