رشید پروین (سوپور، کشمیر)
آخر بلی تھیلی سے باہر آگئی یا ایک اور بلی کا جنم سیاسی پیٹ سے ہوچکا ہے ، جو بھی کہیے ، پیر کے روز اس بچے کی پیدائش ماں کے پیٹ میں ٹھیک ٹھاک وقت پرورش پانے کے بعد ہوئی ہے اور اس میں کوئی انہونی یا اچھنبے کی بات نہیں ، سب جانتے اور مانتے تھے کہ ایک اور سیاسی بچہ جموں وکشمیر کی سیاسی کوکھ سے جنم لینے والاتھا ، سو وہ پیر ۶ ۲ستمبر کو آچکا ہے ، اور زمین پر اترتے ہی اس کا نام آزاد ڈیمو کریٹک پارٹی رکھا گیا ہے ، ظاہر ہے کہ یہ نام سیاسی نجومیوں نے پہلے ہی تجویز کر رکھا تھا۔ انہوں نے خود اس بات کی وضاحت کی ہے کہ، یہ میرے نام سے منسوب نہیں ، بلکہ ، آزاد، یعنی freeکے ہم معنوں میں ہی لی جانی چاہیے ، اب یہ اتفاق ہی ہے کہ ان کا نام بھی آزاد ہی ہے ، بہرحال آزاد صاحب ہاف سینچری، پورے پچاس برس جو ہر لحاظ سے بہت ہیں ، کانگریس کے ساتھ ہم قدم رہے ہیں، پچاس برس کے بعد کسی عزیز اور محبوب سنگ آستاں سے اٹھ کر چلے آنا کرب ناک ہی رہا ہوگا ، چار وزرائے اعظم اندرا گاندھی، راجیو گاندھی ، نرسمہا راو¿ اور من موہن سنگھ کے ساتھ کام کیا اور اچھی خاصی قربتیں رہیں، اور ہمارے سامنے ان کا جو چیف منسٹر کی حیثیت سے وقفہ ہے ، میری ذاتی رائے کے مطابق بڑا شاندار اور جاندار رہا کیو ںکہ صرف تین سال کے عرصے میں انہوںنے کئی بڑے پروجیکٹ نہ صرف مکمل کئے بلکہ یوں لگتا تھا کہ تعمیر و ترقی پر واقعی سرکار مر کوز ہو چکی ہے ،ظاہر ہے کہ ان کا سیاسی سفر شاندار رہا ہے ، بی جے پی سر کار نے ماضی قریب میں انہیں پدم بھوشن ایوارڈ سے نوازا ہے اور اس وقت اس خیال نے شدو مد کے ساتھ جنم لیا تھا کہ شاید وہ بی جے پی جوائن کرنے والے ہیں ، لیکن یہ خیال غلط ثابت ہوا ،بلکہ یہ خیال ہی درست ثابت ہوا کہ وہ ایک نئی ، آزاد پارٹی کا قیام کریں گے ، جو ہوچکا ہے ، بہر حال کانگریس کو چھوڈ کر آزاد صاحب نے اپنی نئی پارٹی ، آزاد ڈیمو کیٹک پارٹی لانچ کی ہے ، اب آزاد صاحب نے جو باتیں پریس کانفرنس میں کی ہیں اور اور اس پارٹی کے جو ا ہداف منظر عام پر لائے ہیں، ان کا تجزیہ کیا جائے تو ، ہمیں ان میں اس کے سوا کوئی خاص بات نظر نہیں آئی کہ اس کے کماندار ، آزاد صاحب ہیں۔ کچھ معاملات میں یعنی کچھ سوالات میں ان کے الفاظ کا متن الطاف بخاری کے الفاظ سے ہی ملتا جلتا ہے جب انہوں نے ”اپنی پارٹی“ لانچ کی تھی ، سب سے پہلی بات جو آزاد صاحب نے کہ وہ جموں و کشمیر کی ترقی ، خوشحالی ، اور امن کے بارے میں کی ہے ۔ یہ الفاظ این سی ، ۷۰ برسوں سے دہرا رہی ، پی ڈی پی اپنے قیام سے اور اس کے بعد اگر آپ کو یاد ہوگا تو الطاف صاحب نے بھی سب سے پہلے یہی الفاظ دہرائے اور کہے تھے،، اب این سی ستر برسوں میں انہیں عملی جامہ نہیں پہنا سکی اور الطاف صاحب تو بہر حال ابھی اقتدار سے باہر ہیں، اس لیے بس نئی آزاد کی پارٹی اور ”اپنی پارٹی “کا صرف لفظی موازنہ ہی بہتر رہے گا، لیکن انہوں نے اس امن میں گاندھیائی سیاست اور نظریات کو ضرور جوڑا ہے ،اور ان کا کہنا ہے کہ وہ گاندھی جی سے متاثر رہے ہیں ، اور شاید ان الفاظ کا مفہوم یہ بھی لیا جاسکتا ہے کہ ان کے نقش قدم ہی پر آگے بڑھتے رہیں گے ۔ بہر حال آزاد ایک منجھے ہوئے سیاست داں ہیں ، ان کے من میں کیا چل رہا ہوگا، اس کا فہم مشکل ہی ہے ، ”یہ ایک جمہوری پارٹی ہوگی“ ، ایسا کہنا بھی کوئی خاص اور اہم بات نہیں کیوں کہ زمینی سطح پر پرکھا جائے تو کون سی پارٹی اپنے آپ کو جمہوری نہیں کہتی ؟این سی کا نعرہ ہی شروع سے ، ہندو مسلم سکھ عیسائی اتحاد رہا ہے جسے آزاد صاحب نے دل کے چار خانے بتاکر اتحاد کی بات کہی ہے ، اور میں آپ کو یہ بھی یاد دلاو¿ں کہ شیخ خاندان نے اس نعرے کو صرف ایک نظریہ کے طور ہی پیش نہیں کیا بلکہ اپنی عملی اور خاندانی زندگی میں اس کے واضح ثبوت بھی دیے ، اور الطاف بخاری بھی اس اتحاد کے حامی ہیں ، یہاں بھی اس پارٹی کے منشور میں کوئی نیا پن نہیں ۔ ۷۰ ۳ کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے سوال کا رخ بڑی ہوشیاری سے ہی اگرچہ موڑا ہے اور اس کا جواب دو ٹوک بتانے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے ، ان کے الفاظ یہ رہے کہ ، نریندر مودی اور امیت شاہ پر میرے اثرات اتنے گہرے نہیں ، یا ان پر میرا اتنا گہرا اثر نہیںکہ وہ میرے کہنے پر انہیں بحال کر دیں۔ ظاہر ہے کہ نریندر مودی اور امیت شاہ ہندوستان کے اصل مالک ہیں اور جنہیں جو کچھ دینا چاہیے عطا کرتے ہیں اور جن سے جو کچھ چاہیں لے سکتے ہیں۔ الطاف بخاری نے دو ٹوک کہا تھا کہ اب یہ قصہ پارینہ ہے اور اس کے لیے کوئی بھی تگ و دو لایعنی ہی ہوگی۔ یہاںاب صرف انداز بیاں ہی کا فرق رہ جاتا ہے ، دونوں نے واضح اعلان کیا ہے کہ وہ مرکز کی پالیسی کو قبول کرتے ہیں ، اور جو کچھ بھی ہوا ہے، ہو چکا ہے اور بقول ِ اندرا جی گھڑی کی سوئیوں کو پیچھے نہیں موڑا جاسکتا ، بس اس کے بعد صرف اقتدار کی کشمکش رہ جاتی ، اقتدار ہی منزل رہ جاتی ہے ، ، اب اس نئی پارٹی کے جھنڈے پر آجائیں ، تو یہاں کچھ مختلف ضرور ہے ، سفید ۔ ہر دور اور ملک میں امن کی نشانی رہا ہے، اور آزاد کی ڈیمو کریٹک پارٹی کا یہ ایک رنگ ہے ، لیکن سوال بڑا پیدا ہوتا ہے کہ کیا کوئی بھی مینسٹریم پارٹی کشمیر میں وہ امن ، پائدار امن پیدا کرسکتی ہے جو تعمیر و ترقی اور خوشحالی یقینی بنا سکے ،؟ پچھلے ستر برسوں کے دوران شیخ جیسے قد آور ، لیڈر نے بھی ۱۹۷۵ کے ایکارڈ کے بعد صرف تعمیر و ترقی پر ہی اپنی توجہ مرکوز کی تھی اور ایسا انہوں نے خود کہا تھا، سارے کشمیر میں اس کے خلاف کوئی آواز نہیں تھی ، اس کے باوجود کوئی پائیدار امن قائم نہیں ہوسکا اور خوشحالی کا دور اب تک کشمیر کی سر زمین کو نصیب نہیں ہوا ، یہاں مختلف ادوار میں یقینی طور پر قبرستانوں کی خا موشیاں چھائی رہی ہیں ، قلیل عرصوں کے لیے،یا لمبی مدتوں کے لیے۔ بظاہر آتش فشانی مادے ٹھنڈے اور مردہ نظر آتے رہے ہیں، لیکن ، آپ جانتے ہیں اور تاریخ گواہ کہ ایسا کچھ نہیں۔ اب ۵ اگست ۲۰۱۹ کے بعد سے جموں و کشمیر یقینی طور پر ایک ٹروما سے گزر رہا ہے ، اور ایسا لگتا ہے کہ مرکز کی زبردست کوششوں اور پالیسیوں سے قبرستانوں کی ایک وسیع و عریض سر زمین ایک سرے سے دوسرے سرے تک وجود میں آچکی ہے ۔ اب اس پر صرف بلڈوزر چلاکر نئی فصل کے لیے نئے سرے سے زمین تیا ر کرنی ہے ، اس پس منظر میں ایک نئی پارٹی کا جنم اور وجود کسی اور ہی کی طرف اشارہ کرتا ہے ، جھنڈے کا دوسرا رنگ ، پیلا ہے ، یہ ”سرسوں “ کا رنگ ہے اور بقول آزاد صاحب یہ تخلیقی صلاحیتوں کی نشانی کے ساتھ ساتھ ”تنوع “ کا حامل بھی ہے ، اس کی وضاحت وہ کبھی آگے کریں گے اور اس کے بعد نیلے رنگ کا تو کیا کہنا وہ تو سمندروں کی نشانی اور سمبل ہے ہی ، لیکن اس جھنڈے میں سمندروں کی شان اور پارٹی میں سمندروں کی آن کیا ہے ، بس یہ جملہ سامنے آیا ہے ، ”کہ ہماری پارٹی میں سمندروں کی طرح گہرائی ہونی چاہیے “اس نئے بچے نے اسمبلی انتخابات کی تیاریوں کے بیچ جنم لیا ہے ، اور سیاسی آسمانوں میں یہاں انتخابات کے مشورے ہی نہیں بلکہ اس کی سائنس بھی طئے ہورہی ہے اور یہ پتہ نہیں کہ کس وقت اس کا اعلان کیاجائے ، لگتا ہے کہ اسٹیج سارا سٹ ہوچکا ہے اور بس پردہ اٹھنے کی دیر ہی ہے ، اور تبھی اسٹیج پر آزاد صاحب اپنی پارٹی کا اعلان کرتے ہیں ، میں جہاں تک سیاست سمجھتا ہوں یہاں کوئی بھی الل ٹپ واقع ظہور پذیر نہیں ہوتا بلکہ اس طرح کے سیاسی بچوں کو دنیا میں لانے کے لیے بھی ایک موزوں وقت اور اسٹیج کی تیاری ایک اہم فیکٹر ہوتا ہے ۔ آزاد صاحب کا قد جموں کے ناردرن مسلم ائریاز میں ہمارے مینسٹریم لیڈروں سے کافی اونچا ہے۔ اس لحاظ سے کہ انہوں نے جموں و کشمیر کی سرکار کامیابی کے ساتھ چلائی ہے اور ان کے بارے میں عوام کا یہ خیال موجود ہے کہ وہ ایک اچھے ایڈمنسٹریٹر ہیں ، اندرونِ وادی بھی ان کے لیے ایک بڑی تعداد عوام کی ہے جو ان کے بارے میں سافٹ کارنر کی حامل ہے۔ کیا اس بات نے انہیں ایک نئی پارٹی تشکیل دینے کے لیے ذہنی طور پر تیا کیا ہوگا ،یا پس پردہ کچھ اور ہی عوامل ہوں گے ، یا ان کی اس شبیہہ سے کچھ اور کام لینے مقصود ہیں ؟ وادی میں ابھی تک این سی کا پلہ بھاری ہے ، کیا یہ نئی پارٹی این سی پی ڈی پی اور اپنی پارٹی تینوںکے ووٹ بینک پر اثر انداز نہیں ہوگی ؟کیونکہ ایک نیا چہرہ ہے اور اچھی ریپوٹیشن کا حامل ہے ۔ اب چھوٹی پارٹیوں کو چھوڑ کر مجھے لگتا ہے کہ مینسٹریم میں ایک اور بڑی پارٹی کا اضافہ ہونے والا ہے، کیا این سی ،،پی ڈی پی ،، ”اپنی پارٹی “ کو سیاسی منظر نامے سے ہٹانے کا عمل شروع ہوچکا ہے ؟ غلام نبی آزاد سنجیدہ طبیعت اور ٹھنڈے مزاج کے آدمی ہیں ، نشیب و فراز کو سمجھے بغیر کوئی قدم نہیںاٹھائیں گے اس لیے قبر ستانوں کی خاموشیوں میں ایک نئے مہمان کی آمد پتہ نہیں کچھ عجیب سی کیوں لگتی ہے ؟جب کہ اس جیسے رنگ و روپ ، شکل و شباہت ، قد کاٹھ اور جسم و جان کی پارٹیا ں پہلے سے ہی موجود ہیں جو اپنی طرف سے ہر دور میں مرکزی سرکار اور اسی فریم میں کشمیری عوام کی کافی ”خدمت گزار“ رہی ہیں ،ان میں اضافہ ، وہ بھی بھارت کی ایک بہت بڑی پارٹی سے پچاس برس جڑے رہنے کے بعد ، جب اس پارٹی کو نئی بنیادوں پر اٹھانے کے لانگ ٹرم منصوبوں پر عمل پیرا ہوا جارہاہو تو یہاں جموں و کشمیر اب ایک ریاست بھی نہیں اور جس کا کوئی تشخص بھی نہیں ، ایسی صورتحال میں ایک نئی پارٹی کی تشکیل کے اہداف اور مقاصدسمندروں ہی کی طرح گہرے ہوسکتے ہیںعام فہم لوگوں کے لیے یہی کہا جاسکتا ہے کہ ” ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ “