مضامین

یومِ آئین۔ یوم ِمحاسبہ!

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد

ہندوستانی قوم نے جب اپنی ایک صدی کی پیہم جدوجہد کے بعداپنے ملک کو انگریزوں سے آزادکرانے میں کا میابی حاصل کرلی توآزادی وطن کے بعد سب سے بڑا چیلنج یہی تھا کہ اس آزاد ملک میں کس قسم کی حکومت قائم کی جائے۔ اس ملک کی انفرادیت یہ رہی کہ یہ ملک صدیوں سے کئی مذاہب، کئی تہذیبوں اور کئی زبانوں کا گہوارا رہا ہے۔ یہاںایک ایسے طرز حکمرانی کی ضرورت تھی جس میںسب ہی طبقوں کی شراکت کو یقینی بنایا جا سکے۔ کسی خاص مذہب یا تہذیب کی بالادستی کو ملک کے سارے عوام پر مسلط کرنا، ہندوستان کو پھر ایک مرتبہ غلامی کی زنجیروں میں جکڑنے کے برابر تھا۔ اسی لیے تحریک آزادی کی قیادت کرنے والے قائدین نے ایک ایسے دستور کی تدوین کا فیصلہ کیا جو اس ملک میں رہنے والے ہر شہری کی آرزوو¿ں کی تکمیل کر سکے۔ چنانچہ ہندوستان کی آزادی سے ایک سال پہلے ہی دستورساز اسمبلی (Constituent Assembly) کا قیام عمل میں آیا ۔ اسی اسمبلی کی نگرانی میں ایک مسودہ ساز کمیٹی (Drafting Committee) ڈاکٹر بی۔ آر۔ امبیڈکر کی صدارت میں قائم کی گئی۔ اس کمیٹی نے 2 سال، 11 مہینے، 18دن کی شبانہ روزمشقت کے بعد آئین کا مسودہ تیار کیا۔ اس مسودّے پر کافی بحث و مباحثہ کے بعد دستور ساز اسمبلی نے اسے26 نومبر 1949کو منظور کرلیا۔اسی کی یاد میں ہر سال 26 نو مبر کو ”یوم آئین “منایا جا تا ہے۔ اس دن سارے ملک میں آئین کے حوالے سے مختلف نو عیت کے پروگرام حکومتی سطح پر اور سیول سوسائٹی کی جانب سے بھی منعقد کیے جا تے ہیں۔ ”یوم آئین “منانے کا مقصد دراصل ملک کے عوام کو اپنے ملک کے دستور سے واقف کرانا ہے۔ ہندوستانی آئین کا فلسفہ اور اس کی خصوصیات اگر ہندوستانی قوم اور خاص طورپرحکمرانوں کے سامنے واضح ہو جائیں توملک اس وقت جس بحرانی دور سے گزر رہا ہے اس سے نکلنے کی راہیں ہموار ہو سکتی ہیں۔ جس آئین کو مجلس دستور ساز اسمبلی نے 26 نومبر1949کو منظور کیااورجسے 26 جنوری 1950سے ملک میں نافذ کیا گیا ، اس آئین کی بنیاد جمہوریت اور قانون کی حکمرانی پر ہے۔ ہندوستان کا آئین مدوّن کرنے والے چاہتے تھے کہ یہاں کے عوام کو ایک آزادانہ جمہوری ماحول میسر ہو، جس میں اظہارخیال اوراختلاف رائے کا حق ہر شہری کو حاصل ہو۔ آئین کے مرتب کرنے والوںکا یہ بھی جذبہ تھا کہ ہندوستانی سماج کومذہبی رواداری کی بنیاد پر استوارکیا جائے۔ معماران دستورنے ہندوستان کو ”کثرت میں وحدت “قرار دیا ۔ اسی کے ساتھ ہندوستانی سماج میں انصاف، مساوات اور اخوت کی فضاءکو پروان چڑھانے کے لیے آئین میں اولین ترجیح دی گئی۔ آئین کے دیباچہ میں اس بات کااعلان کیا گیا کہ ہر فرد کو سماجی، معاشی اور سیاسی انصاف فراہم کیاجائے گا۔ مذہب، ذات،زبان، علاقہ یا جنس کی بنیاد پر کسی کے ساتھ امتیازنہ برتا جا ئے گا۔ اس بات کی بھی ضمانت دی گئی کہ ہر فرد کو آزادیِ فکر و عقیدہ حاصل ہوگی۔ اسی کے ساتھ اظہار خیال اور عبادت کے حق کو تسلیم کیا گیا۔دستور کے دیباچہ میں ہرایک کے ساتھ مساویانہ سلوک روا رکھنے کی ضمانت دی گئی۔ یکساں مواقع ہر ایک کو حاصل ہوں گے۔دستور کی تمہید میں اخوت اور بھائی چارہ کے فروغ کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے کا وعدہ کیا گیا تاکہ ملک میں قومی یکجہتی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی فضاءعام ہوسکے۔ آئین کے دیباچہ میں درج یہ نکات بھارت کے آئین کا بنیادی ڈھانچہ ہیں۔اسی لیے دستورسازوں نے دیباچہ کودستورکی روح قرار دیا۔
معمارانِ دستورنے ہندوستان کی مخصوص روایات کو سامنے رکھتے ہوئے ایک ا یسا دستور مدوّن کیا جو ہندوستان جیسے ہمہ مذہبی، ہمہ تہذیبی اور ہمہ لسانی خصو صیات رکھنے والے ملک کے تما م شہریوں کی ضروریات کی تکمیل کر سکے۔ چناچہ یہ بات بلا کسی تردّد کے کہی جا سکتی ہے کہ ہندوستان کا دستور دنیا کا ایک منفرد دستور ہے جس میں ملک کے رہنے والے تمام طبقات کے جذبات اور خیالات کا بطور خاص خیال رکھا گیا۔ دستور کے مرتب کرنے والے اس حقیقت سے بخوبی واقف تھے کہ اس ملک میںکسی ایک مذہب، زبان یا تہذیب کا بول بالا نہیں ہو سکتا۔ اس ملک کے خمیر میں روحانیت اور اخلاقیات کا جو عنصر ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ تمام مذاہب اور تہذیبوں کو دستور میں نمائندگی دی جا ئے۔ اسی لیے ہر فرد کو عقیدہ اور فکر کی نہ صرف آزادی دی گئی بلکہ اس کی ضمانت دی گئی۔ مذہبی آزادی کے حق کو بنیادی حق کے طور پر تسلیم کیا گیا۔ ہندوستان کے آئین نے ملک کے عوام کو ہر معاملہ میں مقتدر مانا ہے۔ دستور کے دیباچہ کا آغاز ہی ”ہم بھارت کے عوام “سے ہوتا ہے۔ اس سے یہ حقیقت سامنے آ تی ہے کہ ملک کے حکمران اصل مقتدر نہیں ہیں بلکہ یہ حق عوام کو دیا گیا۔ اس ملک میں جو بھی حکومت بنے گی وہ عوام کی مرضی سے بنے گی۔ رائے دہندوں کو اس بات کی مکمل آزادی دی گئی کہ وہ اپنے ووٹ کا استعمال بغیر کسی ڈر و خوف کے کریں۔ اس کے لیے وقفے وقفے سے انتخابات کو لازمی قرار دیا گیا۔ ملک کی پارلیمنٹ سے لے کر گاو¿ں کی پنچایت تک کے انتخابات میں شہری اپنے ووٹ کا استعمال کر تے ہیں۔ رائے دہی کا یہ حق ایک ایسا ہتھیار ہے جس کے ذریعہ عوام آسانی کے ساتھ اقتدار کو تبدیل کرسکتے ہیں۔ اس کا مظاہرہ گز شتہ برسوں میں رائے دہندوں نے بڑی دانشمندی کے ساتھ کیا۔ مسز اندرا گاندھی نے جب جون 1975 میں ملک میں قومی ایمرجنسی نافذ کرکے جمہوریت کا گلا گھونٹ دیا تھااور سارے دستوری اداروں کو مفلوج کر دیا تھا، لیکن جب الیکشن کا مر حلہ آیا تو ملک کے رائے دہندوں نے اندرا گاندھی کو ہی اقتدار سے بیدخل کر دیا۔ عوام کو یہ سیاسی طاقت ملک کے دستور کے تحت ہی حاصل ہوئی۔ آج بھی ملک کے باشعور عوام اگر فیصلہ کرلیں تو ملک میں الیکشن کے ذریعہ ایک بڑی تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔ موجودہ حکومت کے طرزِ حکمرانی کو دیکھتے ہوئے کوئی بھی نہیں کہہ سکتا کہ اس حکومت سے عام عوام مطمئن ہیں۔ دستور اور قانون کو بالائے طاق رکھ کر من مانی کی جا رہی ہے۔ چار سال پہلے جو وعدے کئے گئے تھے وہ سب جملے ثابت ہوئے۔ سماج کا کو ئی طبقہ حکومت کی کارکردگی سے خوش نہیں ہے۔ ہر طرف ناراضگی اور عدم اطمینان دیکھا جا رہا ہے۔ یوم آئین کے مو قع پر ملک کے رائے دہندں کو حکومت کی تبدیلی کے بارے میں سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے۔ آئین نے آپ کو جو دستوری حق دیا ہے، اس کا صحیح استعمال کرتے ہوئے ملک کو ترقی اور سماج میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے فروغ کے لیے مثبت فیصلے کرنا عوام کی بھی ذ مہ داری ہے۔ آج کا دن محض جشن منانے کا نہیں ہے کہ ایک جامع دستوراس ملک میں موجود ہے۔ اس کی بجائے حکمرانوں کو اپنا محاسبہ کرنا ضروری ہے کہ ملک کے آئین کا انہوں نے کہاں تک پاس ولحاظ رکھا۔ جس آئین کے فلسفہ میں یہ بات موجود ہے کہ وہ حریت پسندی اور قانون کی حکمرانی کو اولین ترجیح دے گا۔ تمام مذاہب کا یکساں احترام اور ہر سطح پر مساوات کو یقینی بنانا جس کے فلسفہ میں شامل ہو اور جہاں پر امن بقائے باہم کی فضاءکی بر قراری کو لازمی عنصر قرار دیا گیا ہو۔ کیا حکومت آئین کے اس فلسفہ پر کاربند ہے۔ آئین کا یہ فلسفہ ہی دراصل اس کے مقاصد کی عکاسی کرتا ہے۔ گزرتے وقت کے ساتھ ملک کے عوام نے محسوس کیا کہ یوم آئین اور یوم جمہوریہ کے موقع پر دستور کی تعریف تو کی جا تی ہے، لیکن اس دستور پر عمل کرنے کا جذبہ ناپید ہوتا جا رہا ہے۔
دستور سازوں نے دنیا کے مختلف نظریات کے عمیق مطالعہ کے بعد ہی ان اصولوں کو ہندوستان کے دستور میں اس امید پر شامل کیا کہ حکمران اس پر عمل کرکے ہندوستان کو ایک مثالی مملکت بنائیں گے، لیکن یکے بعد دیگرآنے والی حکومتوں نے آئین کے فلسفہ، اس کی خصوصیات اور اس کے تقاضوں کو پس پشت ڈال دیا۔ دستوری دفعات کو نظرانداز کرکے حکومتوں نے اپنی پسند کے قوانین بنانے شروع کردیے جس سے ملک میں دستوری بحران پیدا ہو گیا۔ خاص طور پر 2014کے الیکشن کے بعد سے جس پارٹی کی حکومت آئی ہے ، اس نے ملک کے آئین اور اس میں درج اصولوں کی خلاف ورزی کرنا اپنا مزاج بنالیا۔ کتنے ہی دستوری اور قانونی اداروں کی آزادی ختم کر دی گئی۔ الیکشن کمیشن آف انڈیا ہو کہ سی بی آئی یا کوئی اور اہم ادارے ان کی اب کوئی انفرادیت باقی نہیں رہی۔ یہ حکومت کے اشاروں پر چلنے کے لیے مجبور ہیں۔ سپریم کورٹ آف انڈیا کے فیصلے بھی عوام کے درمیان قدر و منزلت سے اس لیے نہیں دیکھے جا رہے ہیں کہ بعض فیصلے حکومت کے اشاروں پر دیے جارہے ہیں۔ شفافیت اور غیرجانبداری کافقدان ہر طرف دیکھا جا رہا ہے۔ شہریوں کے حقوق اور آزادیوں کو تو یکلخت ختم کر کے رکھ دیا گیا ہے۔ حکومت سے سوال کرنا، اس کی غلط کارکردگی پر تنقید کرنا اب ملک سے غداری مانی جا رہی ہے۔ کتنے ہی نوجوان برسوں سے جیلوں میں محض اس لیے قید تنہائی گزارنے پر مجبور ہیں کہ انہوں نے حاکمِ وقت کو عوام کو گمراہ نہ کرنے کا مشورہ دیا۔ جن خوابوں کے ساتھ ملک کو آزاد کرایا گیا اور جس کی تعبیر کے لیے ایک منفرد دستور نافذکیا گیا ، پچہھتر سال بعد ایسا محسوس ہوتا ہے یہ سب خواب بکھر کر رہ گئے۔ قوم کے رہنماو¿ں نے جس محنت اور مشقت کے ساتھ ایک جامع دستور قوم کے حوالے کیا تھا ، حکمران نیک نیتی کے ساتھ اس پر عمل پیرا ہو تے تو ملک کا نقشہ ہی کچھ اور ہو تا۔ یوم آئین کو ہندوستانی قوم اور اس کے حکمران یوم احتساب مانتے ہوئے اس بات کا جائزہ لیں کہ کیا واقعی ہم نے دستور کے تقاضوں کی تکمیل کی ہے یا محض اس کے گُن گاتے رہے۔ دستور کے فلسفہ اور اس کی خصوصیات کو دیکھا جائے تو اس میں کوئی کمی نظر نہیں آئے گی۔ اسی حقیقت کو سابق صدر جمہوریہ آنجہانی کے آر نارائنن نے دستور ہند کی پچاس سالہ تقریب کے موقع پر پارلیمنٹ میں منعقدہ خصوصی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بیان کیا تھا۔ انہوں نے اس تاریخی موقع پر یہ کہا تھا کہ ”آج ہم دیکھیں کہ آیا دستور ناکام ہوا ہے یا ہم نے دستور کو ناکام کردیا ہے“ سابق صدر جمہوریہ نے دو ٹوک انداز میں جو با ت کہی تھی وہ حقیقت بن کر ہمارے سامنے آ رہی ہے۔ دستور کو ناکام کرنے میں حکمرانوں کا کردار بڑا بھیانک رہا۔ دستورکو انہوں نے ایک کھلونا بنا لیا۔ جب چاہا اس میں تر میم کر ڈالی۔ عوام کی مرضی اور منشاءکے بغیر قوانین کو بنالینا حکومتوں کا وتیرہ بن چکا ہے۔ حالیہ عرصہ میں کسانوں کے مفادات کے خلاف قوانین بنادیے گئے، جب کسان سڑکوں پر نکل آئے اور سارے ملک میں احتجاج شروع ہوگیا تو حکومت کو پیچھے ہٹنا پڑا۔ اس طرح سی اے اے کا قانون لاکر ملک کے ایک بڑے طبقہ کو ہندوستان سے نکالنے کی تیاری کی گئی۔ اقلیتوں کے حوالے سے حکمت کا رویہ دیکھا جائے تو یہ تلخ حقیقت سامنے آ تی ہے کہ تمام تر دستوری ضمانتوں کے باجود اقلیتیں اور خاص طور پر مسلمانوں کو ان کے دستوری حقوق اور آزادیوں سے محروم رکھا گیا۔ ان کے مذہبی، تعلیمی، سیاسی یا سماجی حقوق سلب کرنے کی پوری کوشش کی جا رہی ہے اور انہیں دوسرے درجہ کا شہری بنانے کے حربے اختیار کئے جا رہے ہیں۔یوم آئین کو رسمی طور پر منانے کی بجائے حکومت اپنا محاسبہ کرے کہ آیا اس نے ملک کے دستور کے مطابق اپنا فرض نبھایا ہے یا پھر جمہوریت کے نام پر اس نے ایک استبدادی نظام کو رائج کیا ہے جہاں آئین کی کوئی اہمیت نہیں ہو تی !

a3w
a3w