رب کو راضی کرنے والا دو جہاں میں عزت والا، الانصار فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام درس قرآن کی 117 ویں نشست سے مفتی حافظ محمد وجیہ اللہ سبحانی کا خطاب
مفسرین کرام و عربی داں حضرات فرماتے ہیں: صُمٌّ، یہ صَمَمٌ سے مشتق ہے۔ جس کے معنی کان کا بوجھ یا کان کی گرانی کے ہیں اور یہ دو طرح کا ہوتا ہے۔ ایک تو یہ کہ جس سے سننے کی طاقت ہی سلب ہوتی رہے دوسرے یہ کہ جس سے اونچا سنائی دینے لگے۔
حیدرآباد: مفسرین کرام و عربی داں حضرات فرماتے ہیں: صُمٌّ، یہ صَمَمٌ سے مشتق ہے۔ جس کے معنی کان کا بوجھ یا کان کی گرانی کے ہیں اور یہ دو طرح کا ہوتا ہے۔ ایک تو یہ کہ جس سے سننے کی طاقت ہی سلب ہوتی رہے دوسرے یہ کہ جس سے اونچا سنائی دینے لگے۔
بُکْمٌ کا مطلب زبان کا وہ عارضہ جس سے حروف ادا نہ کئے جاسکیں، پھر اس کی بھی دو قسمیں ہیں، ایک وہ جس سے حروف کی ادائی کے وقت بگاڑ آجائے، بزبان اردو اسے توتلا پن کہتے ہیں اور عربی میں اسے عقدۃ اللسان کہا گیا۔
دوسرے وہ جس سے تکلم و گفتگو ہی محال ہو، بزبان اردو اسے گونگا پن کہا جاتا ہے۔ اور بزبان عربی خرس (گونگا پن، خاموشی) کہتے ہیں۔ اور یہ دوسرے معنی ہی یہاں مراد ہیں۔
ان خیالات کا اظہار مفسر قرآن حضرت علامہ مفتی حافظ محمد وجیہ اللہ سبحانی نظامی نقشبندی قادری چشتی، امام جامع مسجد محبوبیہ ریاست نگر مارکٹ و خطیب مسجد رضیہ بیگم ملک پیٹ جدید نے 4/ اگست 2024ء بروز اتوار بعد مغرب الانصار فاؤنڈیشن کے زیراہتمام جامع مسجد محبوبیہ ریاست نگر مارکٹ میں ہفتہ واری درس قرآن کی 117 ویں نشست میں سورہ بقرہ کی 18 ویں آیت پر خطاب کرتے ہوئے کیا۔
مولانا قاضی ابواللیث شاہ محمد غضنفر علی قریشی اسد ثنائی خطیب جامع مسجد محبوبیہ ریاست نگر و بانی الانصار فاؤنڈیشن نے نگرانی کی۔ قاری محمد تراب علی قریشی نائب امام مسجد محبوبیہ کی قرأت اور شیخ عبد السلیم کی نعت سے درس کا آغاز ہوا۔
مفتی صاحب نے کلام کا تسلسل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ عُمْیٌ یعنی وہ عارضہ چشم جس میں بینائی بالکل جاتی رہتی ہے۔ بزبان اردو اسے اندھا پن کہا جاتا ہے، پھر اس کی بھی دو اقسام ہیں۔ ایک پیدائشی اندھا پن جس کو بزبان عربی عُمْیٌو کَمْہٌ کہتے ہیں اور ایسے معذور کو اکمہ کہا جاتا ہے۔
دوسرے یہ کہ پہلے تو بینا ہو بعد میں اندھا ہوا ہو۔ یہ آخری مفہوم یہاں مراد ہے۔ اس کی بھی دو صورتیں ہیں، ایک یہ کہ سرے سے آنکھ ہی نہ ہو۔ یہ عربی میں طَمْسٌ کہلاتا ہے۔ دوسرے یہ کہ آنکھ تو ہو مگر اس میں روشنی و بینائی نہ ہو۔ یہاں موخر الذکر معنی مراد ہیں۔ عارضہ چشم چار طرح کا ہوسکتا ہے۔
عمہ، عمی، طمس، کمہ۔ عمہ: کا معنی ہے دل کا اندھا ہونا۔ اس آیت میں یعمھون فرماکر واضح کردیا کہ وہ لوگ (منافقین) دل کے اندھے ہیں۔ جہاں عمی فرمایا گیا وہاں قلب و نظر کا اندھا پن مراد ہے۔ مفتی وجیہ اللہ سبحانی نقشبندی نے کہا کہ علمائے کرام فرماتے ہیں کہ انسان کے راہ راست پر آنے کی تین ہی صورتیں ہوسکتی ہیں۔
ایک یہ کہ اس کی بینا ئی قائم ہو، جس سے وہ راستہ دیکھ پاتا ہے۔ دوسرے یہ کہ اس میں بولنے کی طاقت و قدرت ہو کہ کسی کو پکار کر اس کی مدد سے راہ راست پر آجائے۔ تیسرے یہ کہ اس کے کان درست ہوں کہ کسی ہادی و رہبر کی آواز جب اس کے کانوں تک پہنچے تو وہ اس آواز کو سن کر سیدھی راہ پر آجائے۔
اب رہے منافقین تو ان کی یہ تینوں قوتیں سلب و ختم ہوچکیں، تو اب فہم لا یرجعون کے مصداق ان کے کفر سے لوٹنے کی کچھ بھی امید باقی نہ رہی۔ مفتی صاحب نے اس آیت کے حوالہ سے کہا کہ مسلمانوں کو یہ امید ہوگی کہ شاید یہ منافقین کبھی نہ کبھی تو راہ ہدایت پر گامزن ہوں گے، اس لیے وہ انہیں راہ راست پر لانے کے لیے کوشاں بھی ہوں گے اور پھر اپنی عدم کامیابی پر رنجیدہ خاطر بھی ہوں گے۔
بایں سبب اللہ رب العزت نے مسلمانوں کے اس رنج و محن کو دور کرنے کی خاطر فرمایا کہ ان کی منافقت اور دل سے ایمان نہ لانے پر مایوس و رنجیدہ خاطر نہ ہوں، کیونکہ یہ (منافقین) تو بہرے، گونگے اور اندھے ہوچکے ہیں۔ اب تم ان کے ایمان لانے کی بالکل امید نہ رکھو وہ اپنی ان بری حرکتوں سے باز آنے والے نہیں۔ بعض اوقات کسی شیء کی امید چھوڑ دینا بھی ایک طرح کی راحت ہوتی ہے۔
اس لیے مسلمان ان کے ایمان کی امید چھوڑ کر انتظار کی تکلیف سے بچ گئے۔ اس آیت سے چند فائدے حاصل ہوتے ہیں۔
1) اللہ کے نزدیک وہ ہی عضو کار گر ہے جو اپنے مقصود کو پورا کرے اور جس میں یہ صفت نہیں وہ محض بیکار ہے۔ چونکہ زبان حق بولنے، کان حق سننے اور آنکھیں حق دیکھنے کے لیے دی گئی ہیں، اس کے علاوہ جو بھی دنیوی کام اس سے لیے جاتے ہیں وہ سب تابع ہیں۔ جب ان اعضاء نے اپنا اصلی کام نہ کیا تو ان کو بیکار ہی کہا جائے گا۔ اولیائے کرام اور شہدائے راہ حق اگرچہ بظاہر وفات پاتے ہیں مگر قرآن کریم انہیں زندہ کہتا ہے، کیونکہ انہو ں نے اپنی زندگی کے مقصود کو پالیا۔
2) جو اللہ تعالیٰ کی طرف بخوشی رجوع کرتا ہے وہ اس کی بارگاہ اقدس میں عزت و کرامت سے بلایا جاتا ہے کہ مرتے وقت اس کو کہا جاتا ہے اے مبارک روح! اپنے رب کی طرف چل کہ تو اس سے راضی اور تیرا رب تجھ سے راضی (سورہ فجر: 28)۔
اور جو بخوشی خالق کائنات کی طرف رجوع نہیں کرتے انجام کار ان کو بھی سختی، سزا و تکلیف برداشت کرتے ہوئے وہیں جانا پڑے گا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ہم ان کو قیامت کے دن ان کے چہروں کے بل اندھا، گونگا، بہرا اٹھائیں گے۔ (سورہ بنی اسرائیل: 97)۔ صوفیاء کرام ارشاد فرماتے ہیں: کچھ چیزیں قلب کی آنکھ کو اندھا کردیتی ہیں۔
1) اپنے اعضاء کو گناہوں میں مشغول رکھتے ہوئے آلود ہ کرنا۔
2) ریا کاری سے عبادت کرتے ہوئے خالق کو چھوڑ کر مخلوق سے امید لگائے رکھنا۔ یہ عارضہ تپ دق (Tuberculosis) کی طرح ابتداء میں تو معمولی و ہلکا معلوم ہوتا ہے لیکن آخر میں مہلک ثابت ہوتا ہے۔ بلا تشبیہ و تمثیل نفاق کا عارضہ دنیا میں ہلکا معلوم ہوسکتا ہے لیکن آخرت میں اس کی انتہائی سخت ترین سزا ہے۔
یہاں تک کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل شدہ کتاب قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: بے شک منافق لوگ جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں ہوں گے اور تو ہرگز ان کا کوئی مددگار نہ پائے گا۔
(جو انہیں عذاب سے بچا سکے اور جہنم کے سب سے نچلے طبقے سے انہیں باہر نکال سکے)۔ (سورہ نساء:145)۔
مفتی حافظ محمد وجیہ اللہ سبحانی کی دعا پر درس قرآن کی 117 ویں نشست اختتام کو پہنچی۔ اس موقع پر عوام الناس کی کثیر تعداد شریک تھی۔