15 سالہ مسلم لڑکی کو پسندیدہ شخص کے ساتھ شادی کرنے کا اختیار
پنجاب و ہریانہ ہائی کورٹ نے اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ 15 سالہ مسلم لڑکی اپنی رضامندی اور مرضی سے اپنے پسندیدہ شخص کے ساتھ شادی کرسکتی ہے
چندی گڑھ: پنجاب و ہریانہ ہائی کورٹ نے اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ 15 سالہ مسلم لڑکی اپنی رضامندی اور مرضی سے اپنے پسندیدہ شخص کے ساتھ شادی کرسکتی ہے اور ایسی شادی‘ بچپن کی شادیوں پر امتناع کے قانون بابتہ 2006ء کی دفعہ 12 کے تحت کالعدم قرار نہیں دی جائے گی۔
عدالت نے یہ تبصرہ 26 سالہ جاوید کی حبس بے جا کی درخواست کی سماعت کے دوران کیا جس نے اپنی 16 سالہ بیوی کو چلڈرنس ہوم میں محروس رکھنے کے خلاف درخواست داخل کی تھی۔ عدالت نے کہا کہ محمڈن لا کے مطابق ان دونوں کی شادی جائز ہے اور محروس لڑکی کی تحویل قانونی طور پر درخواست گزار کو حاصل ہے۔
درخواست گزار نے استدلال کیا تھا کہ اس کی بیوی کے ساتھ اس کی شادی فریقین کی رضامندی سے ہوئی تھی اور اس میں کوئی جبر و اکراہ نہیں تھا کیونکہ دونوں مسلمان ہیں، اسی لیے لڑکی کے نابالغ ہونے اور 18 سال سے کم عمر ہونے کے باوجود یہ شادی جائز ہے۔
درخواست گزار نے اپنے دلائل کی تائید میں یونس خان بمقابلہ ریاست ِ ہریانہ و دیگر 2014ء (3) آر سی آر (فوجداری) 518 کی نظیر پیش کی تھی۔ اس نے کہا کہ موجودہ حالات میں دونوں فریق مسلمان ہیں اور انہوں نے نکاح کیا ہے، لہٰذا محروس کو درخواست گزار کی تحویل میں دیا جانا چاہیے۔
دوسری جانب مدعی علیہ‘ ریاست نے بحث کرتے ہوئے کہا کہ اس درخواست کو مسترد کیا جانا چاہیے کیوں کہ محروس ایک نابالغ لڑکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ 18 سال سے کم عمر ہونے کی وجہ سے اسے چلڈرنس ہوم ”آشیانہ“ میں رکھنا درست ہے۔
جسٹس وکاس بہل پر مشتمل واحد رکنی بنچ نے متعلقہ دستاویزات، عہدیداروں اور محروس کا ضابطہئ فوجداری کی دفعہ 164 کے تحت قلمبند کردہ بیان کا جائزہ لینے کے بعد محروس کو آشیانہ سے رہا کردینے اور اس کی تحویل درخواست گزار کو منتقل کرنے کا حکم دیا۔
اس ضمن میں عدالت نے یونس خان کیس میں صادر کردہ فیصلہ پر انحصار کیا تاکہ یہ بتا سکے کہ درخواست گزار اور محروس کی شادی جائز ہے کیونکہ دونوں فریق مسلمان ہیں۔ اس کیس میں جس قانون کا سہارا لیا گیا اس کا حوالہ دیتے ہوئے عدالت نے کہا کہ اس معاملہ کو بھی ان ہی قانونی اصولوں پر پرکھا جائے گا۔