سیاستمضامین
ٹرینڈنگ

21 سال بعد برأت مگر میڈیا خاموش تماشائی!

2002میں ہونے والے گجرات فسادات کے بعد جن لوگوں کو گرفتار کیا گیا تھا وہ تیس سے چالیس سال کی عمر کے درمیان کے تھے جن کے چھوٹے چھوٹے بچے بھی تھے۔ وہ پیشے کے اعتبار سے مزدور تھے ان میں سے کوئی لیمو شربت کا کاروبار کرتا تھا کوئی برف بیچتا تھا تو کوئی کسی گیرج میں کام کرتا تھا۔

ابوحرم ابن ایاز عمری

حالیہ عرصہ میں ملک میں ایسی فضا بنائی گئی ہے کہ جب بھی کوئی حادثہ یا سانحہ رونما ہوتا ہے تو سب سے پہلے اسلاموفوبیائی سیاستداں، سرکاری اہلکار اور میڈیا چینلز وغیرہ سب مل کر کسی نہ کسی مسلمان کو مورد الزام ٹھہرانے لگتے ہیں۔ آج کے اس سوشل میڈیا کے زمانے میں ایک عام شہری بھی ہندوتوائی زہر کے زیر اثر اسی سمت میں سوچنے پر مجبور ہے۔

یہ اکیس سال پرانی بات ہے جب گجرات میں ہندو مسلم فسادات پھوٹ پڑے تھے۔ جس کی اصل وجہ گودھرا ریل حادثہ بتایا جاتا ہے جس میں بڑی تعداد میں کارسیوک اتر پردیش سے گجرات لوٹ رہے تھے کہ گودھرا کے مقام پر اس کے دو ڈبوں S5 اور S6 میں آگ لگ گئی جس کے نتیجے میں پچاس سے زائد لوگ جل کر مر گئے۔ انہیں اسی طرح احمد آباد لایا گیا اور یہ دعویٰ کیا گیا کہ سارے مرنے والے ’کار سیوک‘ تھے۔ اور الزام لگایا گیا کہ ٹرین کو آگ لگانے والے مسلمان تھے۔ یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح پورے ملک میں پھیل گئی۔ نتیجے میں پورے گجرات میں فسادات پھوٹ پڑے۔ اس وقت کے میڈیا چینلوں نے میڈیائی اقدار کو بالائے طاق رکھتے ہوئے لائیو کوریج کے ذریعے حساس معلومات برسر عام پیش کرکے آگ میں گھی ڈالنے کا کام کیا۔ نتیجتاً سیکڑوں مسلمان مارے گئے۔ ہزاروں بے گھر ہوئے اور کروڑہا روپیوں کا نقصان ہوا۔

جب فسادات ہوئے تو حسب سابق پولیس اور جانچ ایجنسیوں کا قہر کئی بے گناہ مسلمانوں پر ٹوٹ پڑا، انہیں میں سے احمدآباد سے تعلق رکھنے والے چھ غریب مسلمان مزدور بھی تھے جو محنت مزدوری کرکے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پال رہے تھے جن کے نام ہیں: تاج محمد پٹھان، معین خان پٹھان، اقبال علاؤالدین، اشرف مکرانی، شہزاد شیخ اور حیدر خان دیوان۔ ان لوگوں پر یہ الزام لگایا گیا کہ وہ بم بنانے کی فیکٹری چلاتے ہیں اور بموں سے دھماکے کرکے معصوم لوگوں کی جانیں لیتے ہیں۔

2002 میں ہونے والے گجرات فسادات کے بعد جن لوگوں کو گرفتار کیا گیا تھا وہ تیس سے چالیس سال کی عمر کے درمیان کے تھے جن کے چھوٹے چھوٹے بچے بھی تھے۔ وہ پیشے کے اعتبار سے مزدور تھے ان میں سے کوئی لیمو شربت کا کاروبار کرتا تھا کوئی برف بیچتا تھا تو کوئی کسی گیرج میں کام کرتا تھا۔ بقیہ لوگ بھی اسی طرح کی چھوٹی موٹی مزدوریاں کرتے تھے۔ ان پر الزام تھا کہ یہ دہشت گرد ہیں۔ پولیس نے انہیں مار پیٹ کرکے زبردستی گرفتار کرلیا پھر معاملہ عدالت میں پہنچا اور ایک ایسے مقدمہ کا آغاز ہوا جس کے انجام کے بارے میں خود ان کو بھی نہیں معلوم تھا۔ انہیں بس یہی معلوم تھا کہ وہ بے قصور ہیں اور ان کو جان بوجھ کر پھنسایا جارہا ہے اور ساتھ ہی انہیں عدلیہ سے امید تھی کہ ایک نہ ایک دن انہیں انصاف ملے گا اور وہ بے قصور قرار دیے جائیں گے۔

ملک کا عدالتی نظام کس قدر کمزور ہے وہ کسی سے بھی پوشیدہ نہیں ہے۔ جب کسی پر دہشت گردی کا داغ لگا دیا جاتا ہے تو پھر اس دھبے کو دھوتے دھوتے کئی زندگیاں ختم ہو جاتی ہیں۔ مذکورہ معاملے میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ 2002 میں شروع ہونے والے اس مقدمے کو اپنے انجام تک پہنچتے پہنچتے تقریباً 21 سال کا عرصہ لگااور پچھلے دنوں احمدآباد کی عدالت نے یہ کہہ کر انہیں بری کر دیا کہ ان کے خلاف لگائے گئے دہشت گردی اور بم بنانے جیسے الزامات بے بنیاد تھے۔

اب سوال یہ ہے کہ ان بے چاروں کا کیا ہوگا جن کو ایک دو دن نہیں پورے اکیس برس دہشت گردی کے الزامات کا ٹوکرا سر پر لیے ہوئے گزارنے پڑے؟ بلکہ ان چھ لوگوں میں سے تین لوگ اشرف مکرانی، شہزاد شیخ، اور تاج محمد پٹھان اس کیس کے ختم ہونے سے پہلے ہی اللہ کو پیارے ہو گئے اور بقیہ تین میں سے ایک لاپتہ ہے اور دو لوگ نہایت ہی کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں۔

دیش لائیو کے بے باک صحافی سہل قریشی نے ان ملزمین میں سے ایک اقبال علاؤالدین سے بات چیت کر کے ان کے حالات جاننے کی کوشش کی۔ علاؤالدین نے انہیں بتایا کہ جب انہیں بم بنانے کا الزام لگا کر گرفتار کیا گیا تھا اس وقت ان کی عمر 37 سال رہی ہوگی، اس وقت وہ اپنے اور اپنے گھر والوں کی گزر بسر کے لیے لیمو کا شربت اور برف بیچنے کا کاروبار کیا کرتے تھے۔ جب فسادات ہونے لگے اور کرفیو نافذ کر دیا گیا تھا تو اچانک ان کے گھر پر پولیس اور دیگر ایجنسیاں آئیں اور انہیں مار پیٹ کر باہر نکالا اور دیوالی میں جلائے جانے والے پٹاخے دکھا کر کہا کہ ان کو تم نے بنایا ہے۔ علاؤالدین نے کہا ہے کہ ان کے گھر کے پاس ایک میدان تھا جہاں پر پولیس والوں کو یہ پٹاخے ملے تھے۔

اسی دوران ان کے گھر کے قریب ہی کسی نے پٹاخوں کے چند ڈبے بھی لاکر رکھ دیے تھے اسی کو بنیاد بنا کر انہیں گرفتار کرلیا گیا۔ پولیس انہیں تھانے لے گئی اور وہاں چند کاغذات پر ان کے دستخط لیے گئے۔ انہیں یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ ان کاغذات میں کیا لکھا ہوا ہے۔ پولیس کی مار کے خوف سے انہوں نے دستخط کر دیے۔ ان پر یہ الزم لگایا گیا تھا کہ وہ ایک بم بنانے کی فیکٹری چلاتے ہیں جبکہ اس قسم کی کسی بھی فیکٹری کا ان سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔ جس کے بعد انہیں جیل میں ڈال دیا گیا اور ایک طویل عرصے کے بعد ثبوت کمزور ہونے کی وجہ سے ضمانت پر رہا کر دیا گیا تھا۔

اس دوران ان کو بے حد نقصانات کا سامنا کرنا پڑا، عدالتوں کے چکر لگاتے لگاتے جب ان کی جمع پونجی ختم ہوگئی تو انہیں اپنا گھر بیچنا پڑا، ان کا کاروبار ختم ہوگیا اور نہایت ہی غربت کے عالم میں وہ زندگی گزار نے پر مجبور ہوگئے۔ دہشت گردی کا الزام لیے ہوئے معاشرے میں رہنا کسی جنگ سے کم نہیں، اور جب ان پر بڑھاپا آیا تب جاکر اس الزام سے انہیں بری کردیا گیا۔ کسی فلاحی ادارے نے ان کی مدد کی۔ اور اب وہ گزر اوقات کے لیے دن میں ایک ہوٹل میں بیرے کا کام کرتے ہیں اور رات میں کہیں واچ مین کی خدمات بھی انجام دے رہے ہیں۔ ان کی مالی حالت اس قدر کمزور ہے کہ ایک مہینے کی تنخواہ ان کی ایڈوانس میں چل رہی ہے اور وہ قرضوں کے بوجھ تلے بھی دبے ہوئے ہیں۔

اسی طرح ایک اور ملزم تاج محمد پٹھان جن کی وفات ہو چکی ہے ان کی بیوی دردانہ اور بیٹے مظہر سے سہل قریشی نے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ سال 2002 میں کرفیو کے دوران ان کے علاقے ٹھاکور واس سے قریب بھرواڑ واس میں فسادات اور آتش زنی کی اطلاعات تھیں پھر اچانک ان کے علاقے میں چند فسادی گھس آئے اور بلند آوازوں سے ہر ہر مہادیو کے نعروں کے ساتھ ہاتھوں میں تلواریں لیے مسلم گھروں پر حملے کرنے لگے۔ جب مسلمانوں نے اپنے گھروں کے دروازے اور کھڑکیاں بند کر لیں تو ان پر پتھراؤ کیا گیا۔ کچھ دیر بعد پولیس اور جانچ ایجنسیوں کے کچھ اہلکار آئے۔ انہوں نے تاج محمد کو خوب مارا پیٹا۔ جب گھریلو خواتین انہیں بچانے کے لیے آئیں تو پولیس والوں نے انہیں گندی گالیاں دے کر بھگا دیا اور ان کے گھر سے لکڑی، کوئلہ اور بلیچنگ پاؤڈر کے چھ ڈبے ضبط کر کے لے گئے۔

دردانہ کہتی ہیں کہ اس وقت ان کے گھر میں گیس کا استعمال نہیں تھا وہ لوگ لکڑی کا چولہا استعمال کرتے تھے اسی لیے ان کے پاس لکڑی اور کوئلے کافی مقدار میں تھے اور وہ اضافی کمائی کے لیے اپنے گھر میں کپڑے دھونے کا بلیچنگ پاؤڈر بیچا کرتی تھیں، پولیس والے وہ سب ضبط کرکے لے گئے۔ بعد میں اخبارات کے ذریعہ سے انہیں پتہ چلا کہ ان کے شوہر کو بم بنانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ اور تو اور بعض میڈیا چینلوں نے یہ بھی کہا کہ یہ لوگ بم کہیں اور سے سپلائی کرتے ہیں، یہ دہشت گرد ہیں جبکہ اس وقت تاج محمد کسی گیریج میں کام کرتے تھے۔

ابتدا میں انہیں سات دن کی ریمانڈ میں لیا گیا، ایک مہینے کی جیل ہوئی، پھر ضمانت ہوئی پھر دوبارہ گرفتاری ہوئی۔ اسی طرح وقفے وقفے سے انہیں ٹارچر کیا جاتا رہا۔ اور اس مصیبت میں صرف تاج محمد ہی نہیں بلکہ ان گھر والے بھی آگئے تھے کیونکہ کمانے والا کوئی نہیں تھا۔ ان کے بیٹے مظہر کو جو اس وقت تیسری جماعت میں تھے، اپنا تعلیمی سلسلہ منقطع کرنا پڑا اور باپ کی غیر موجودگی میں گھر کی ذمہ داریاں سنبھالنی پڑیں۔ اچانک مفلسی چھا جانے کی وجہ سے بیٹیوں کی بھی مناسب تعلیم نہیں ہو سکی۔

دردانہ کہتی ہیں کہ جب بچیاں چھوٹی تھیں تو کوئی مسئلہ نہیں تھا لیکن جب وہ بڑی ہوئیں اور ان کی شادی کرنے کا وقت آیا تو انہیں کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ ان بچیوں کے باپ کے سر پر دہشت گردی کا ٹوکرا رکھ دیا گیا تھا اور کوئی بھی دہشت گرد کی بیٹی کو بہو بنا کر اپنے گھر نہیں لے جانا چاہتا تھا لیکن جب لوگوں کو سمجھایا گیا اور حقائق بتائے گئے تو پھر ان کی شادیاں بھی ہو گئیں۔ لیکن باپ تاج محمد، جن پر دہشت گردی کا الزام تھا وہ اسی غم میں اس دار فانی سے کوچ کرگئے۔ ان کے انتقال کے ایک عرصے بعد یہ فیصلہ آیا کہ وہ بے قصور تھے۔

یہ تو صرف دو لوگوں کے واقعات تھے، ان کے ساتھ جو بقیہ چار لوگ تھے ان کے حالات بھی اس سے مختلف نہیں رہے۔

جب ان بے گناہوں کو جھوٹے الزمات لگا کر گرفتار کیا گیا تھا تو اس وقت کے اخبارات اور میڈیا چینلوں نے انہیں بدنام کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ ان کے خلاف چیخ چیخ کر آسمان سر پر اٹھا لیا۔ جس کے جو منہ کو آیا بکنے لگا۔ دوسری طرف پولیس والوں کی اور ایجنسیوں کی تعریف کر کے انہیں آسمان پر پہنچا دیاگیا کہ انہوں نے قصورواروں کو بروقت پکڑ لیا ہے۔

اور آج جبکہ انہیں اکیس سال بعد عدالت نے بے قصور قرار دے کر رہا کر دیا ہے تو انہی اخبارات اور مین اسٹریم میڈیا کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے انہیں سانپ سونگھ گیا ہو۔ کسی نے بھی اس کا ذکر تک کرنا گوارا نہیں کیا۔ یہی میڈیا کی منافقت ہے کہ معصوم مسلمانوں کی بے گناہی پر کہنے اور لکھنے کے لیے ان کے پاس دو لفظ نہیں ہیں لیکن جب ایک مسلمان عورت کے ساتھ ریپ کے مجرموں کو ضمانت دی جاتی ہے تو ان مجرموں کی تعریف کرنےکے لیے الفاظ کم پڑ جاتے ہیں، اس پر شوز کیے جاتے ہیں اور ان کی قبیل کے بعض ادارے ان مجرموں کا پھولوں کے ہار پہنا کر استقبال بھی کرتے ہیں۔

ان حالات میں مسلم اداروں کو چاہیے کہ جو لوگ واقعی معصوم ہیں اور بے بنیاد الزمات کے تحت جیلوں میں بند ہیں، جلد از جلد ان کی رہائی کا سامان کریں اور ان کے گھر والوں کا بھی خیال رکھیں۔ اور جب عدالتوں کے ذریعہ کسی بے گناہ کو انصاف ملتا ہے تو اس کی آنے والی زندگی کے لیے بھی لائحہ عمل ترتیب دیں۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰

a3w
a3w