پاکستان میں قبل ازوقت انتخابات کا امکان
پاکستان جاریہ سال کے اواخر میں الیکشن کی طرف بڑھ سکتا ہے‘ حالانکہ برسرِ اقتدار اتحاد اس سے انکارکررہاہے۔ اسے طاقتور فوج کی تائید ملنا غیریقینی ہوتاجارہا ہے۔

اسلام آباد: پاکستان جاریہ سال کے اواخر میں الیکشن کی طرف بڑھ سکتا ہے‘ حالانکہ برسرِ اقتدار اتحاد اس سے انکارکررہاہے۔ اسے طاقتور فوج کی تائید ملنا غیریقینی ہوتاجارہا ہے۔
عدلیہ نے بھی اس کے فیصلے ردکردئیے ہیں۔ جلد الیکشن ملک کا غیرمعمولی معاشی بحران توحل نہیں کرسکتا لیکن ملک کے سیاسی حالات کو ٹھیک کرنے کیلئے وہی واحد راستہ دکھائی دیتا ہے لیکن یہ راہ آسان نہیں دشوار ہے۔ پاکستان میں الیکشن جولائی 2023ء میں ہونا ہے۔ اب گیند فوج کے پالے میں جاچکی ہے۔
پاکستانی روپئے کی قدر گھٹتی جارہی ہے۔اب ایک امریکی ڈالر 240 پاکستانی روپیوں کے برابر ہوگیا ہے۔ پٹرول ڈیزل پر مزید لیوی عائدکردی گئی۔ ملک میں ایندھن کی بڑی قلت ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف) سے فوری مدد نہیں مل رہی ہے۔ دوست ممالک بھی مدد کو آگے نہیں آرہے ہیں۔
سپریم کورٹ نے صوبہ پنجاب میں وزیراعظم شہبازشریف کے لڑکے حمزہ شہباز کو ہٹاکرچودھری پرویز الٰہی کی چیف منسٹری بحال کردی۔ سیاسی محاذ پر برسرِ اقتدار پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ(پی ڈی ایم) کو اس سے بڑا دھکہ پہنچا ہے۔ پی ڈی ایم نے عملاً ملک کا سب سے بڑا صوبہ برطرف وزیراعظم عمران خان کے حوالے کردیا۔
عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف صوبہ خیبرپختون خواہ بھی حکومت چلارہی ہے اور بلوچستان میں شریک اقتدار ہے۔ عمران خان جلد الیکشن کا مطالبہ کررہے ہیں۔ اپریل میں ان کی حکومت کی برطرفی کے بعد سے ان کی سیاسی طاقت خاصی بڑھ گئی ہے۔
ان کے اس الزام کو عوام میں بڑی پذیرائی ملی کہ اپریل میں انہیں بیدخل کرنے والے بدعنوان ہیں اور انہیں بین الاقوامی سازش کے تحت برطرف کیاگیا۔ انہوں نے اس کیلئے امریکہ پر انگلی اٹھائی تھی۔ پاکستان میں مخالف امریکہ اور مخالف مغرب جذبات کارگرثابت ہوتے ہیں۔
غور طلب ہے کہ جلدالیکشن کے عمران خان کے مطالبہ کو ان کے کٹرحریف نوازشریف کی بھی تائید حاصل ہوگئی۔ پاکستان کے تین مرتبہ وزیراعظم رہے نوازشریف لندن میں جلاوطن ہیں۔
28جولائی کو پاکستان ڈیموکریٹک موؤمنٹ نے اسے مستردکردیا اورکہا کہ وہ نہیں چاہتی کہ ایسا تاثرجائے کہ عمران خان کا مطالبہ مان لیاگیا‘ تاہم میڈیا کے بموجب وفاقی وزیرداخلہ راناثناء اللہ نے کہا کہ عمران خان اگر پنجاب اورخیبرپختون خواہ کی اسمبلیاں تحلیل کردیں تو وفاقی اور صوبائی سطح پر یعنی سارے ملک میں الیکشن کرادیاجائے گا۔
اس طرح انہوں نے سیاسی مول تول کی کوشش کی۔ تجزیہ نگاروں کاکہنا ہے کہ عمران خان کی پارٹی ان صوبوں میں اپنا اقتدار ختم کرنے کی پابند نہیں ہے اسی طرح صوبہ سندھ میں بھی پیپلز پارٹی کیلئے کوئی وجہ نہیں ہے کہ وہ صوبائی اسمبلی تحلیل کردے۔