ایشیاء

بلوچستان میں 73 بس مسافرین کو ہلاک کردیا گیا

بھاری اسلحہ سے لیس بندوق برداروں نے پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں پیر کے دن 2 علیحدہ حملو ں میں کم ازکم 73 افراد کو ہلاک کردیا۔ رائٹر کے مطابق 73 جبکہ پی ٹی آئی کے مطابق 33 ہلاکتیں ہوئی ہیں۔

کراچی: بھاری اسلحہ سے لیس بندوق برداروں نے پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں پیر کے دن 2 علیحدہ حملو ں میں کم ازکم 73 افراد کو ہلاک کردیا۔ رائٹر کے مطابق 73 جبکہ پی ٹی آئی کے مطابق 33 ہلاکتیں ہوئی ہیں۔

گڑبڑزدہ صوبہ میں شورش پسند حملے بڑھ گئے ہیں۔ پہلے واقعہ میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے کم ازکم 23 افراد کو گڑبڑزدہ صوبہ بلوچستان میں بسوں سے اتارکر شناختی کارڈس کی جانچ کے بعد گولیاں مارکر ہلاک کردیا گیا۔ واقعہ بلوچستان کے ضلع موسیٰ خیل کا ہے۔

سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس ایوب کھوسو نے بتایا کہ مسافرین کو بسوں سے اترنے کو کہا گیا اور ان کا قومی شناختی کارڈ دیکھنے کے بعد انہیں مارڈالا گیا۔ مہلوکین میں زیادہ تر کا تعلق جنوبی پنجاب سے تھا اور بعض خیبرپختونخواہ سے تعلق رکھتے تھے۔ ایسا لگتا ہے کہ انہیں ان کے نسلی پس منظر کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا۔

کھوسو نے کہا کہ مسلح افراد نے موسیٰ خیل میں ہائی وے پر کوئی 12 گاڑیوں کو آگ لگادی۔ صوبہ میں زیادہ متحرک عسکریت پسند گروپ بلوچ لبریشن آرمی نے موسیٰ خیل میں حملہ کی ذمہ داری لی ہے۔ اسسٹنٹ کمشنر موسیٰ خیل نجیب کاکڑ کے بموجب مسلح افراد نے بین صوبائی شاہراہ پر راستہ روکا اور بسوں سے مسافرین کو نیچے اتارا۔

اخبار ڈان نے یہ اطلاع دی۔ مرنے والوں کا تعلق صوبہ پنجاب سے بتایا جاتا ہے۔ نجیب کاکڑ نے کہا کہ مسلح افراد نے 10 گاڑیوں کو آگ لگادی۔ پولیس نے نعشوں کو دواخانہ منتقل کیا۔ چیف منسٹر بلوچستان سرفراز بگٹی نے دہشت گردی کے واقعہ کی سخت مذمت کی۔

انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو بخشا نہیں جائے گا۔دوسرے حملہ میں بندوق برداروں نے بلوچستان کے ضلع قلات میں کم ازکم 10 افراد بشمول 4 پولیس عہدیداروں کو ہلاک کردیا۔ سیکوریٹی ذرائع نے جیو نیوز کو بتایا کہ دہشت گردوں نے بلوچستان میں 24 اور 25 اگست کی رات کئی مقامات پر حملے کئے۔

صدر آصف علی زرداری اور وزیراعظم شہباز شریف نے حملہ کی سخت مذمت کی۔ صدر زرداری نے کہا کہ بے قصور لوگوں کی بہیمانہ ہلاکت ساری انسانیت کی ہلاکت ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے عہد کیا کہ دہشت گردوں کو سخت سزا دی جائے گی۔ بلوچ لبریشن آرمی اور دیگر بلوچ علیحدگی پسندوں نے پنجابیوں اور سندھیوں پر حملے تیز کردیئے ہیں۔ انہوں نے بیرونی توانائی فرمس کو بھی نشانہ بنایا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ فرمس خطہ کا استحصال کررہی ہیں۔ مقامی لوگوں کو نفع میں حصہ دار نہیں بنایا جاتا۔ موسیٰ خیل حملہ سے تقریباً 4 ماہ قبل ایسے ہی حملہ میں پنجاب کے لوگوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ اپریل میں نوشکی کے قریب ایک بس سے اتار کر 9 مسافرین کو ان کے شناختی کارڈس کی جانچ کے بعد بندوق برداروں نے ہلاک کردیا تھا۔

گزشتہ برس اکتوبر میں نامعلوم بندوق برداروں نے بلوچستان کے ضلع کیچ کے مقام تربت میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے 6 مزدوروں کو گولیاں ماردی تھیں۔ پولیس کے بموجب یہ ہلاکتیں چن چن کر کی گئیں۔ مرنے والوں تمام افراد کا تعلق جنوبی پنجاب کے مختلف مقامات سے تھا۔

ایسا لگتا ہے کہ انہیں ان کے نسلی پس منظر کے باعث چن چن کر مارا گیا۔ سال 2015 میں ایسے ہی واقعہ میں تربت کے قریب لیبر کیمپ پر حملہ میں بندوق برداروں نے 20 تعمیراتی مزدوروں کو گولیاں مارکر ہلاک اور دیگر 3 کو زخمی کیا تھا۔

a3w
a3w