سورج کی شعاعوں سے بچنے کیلئے مستقل سائے میں رہنے والا لڑکا
پول دومینگوز کا کیس انتہائی درجے کا ہے سورج کی تھوڑی سی بھی روشنی کا سامنا کرنے سے اس کی آنکھوں اور جلد پر شدید اور تکیلف دہ جلن پیدا ہوتی ہے۔
بارسلونا: بارسلونا کا 11 سالہ لڑکا نایاب بیماری میں مبتلا ہونے کے سبب سورج کی الٹرا وائلٹ شعاعوں سے بچنے کیلیے عام بچوں جیسی زندگی گزارنے سے محروم ہے۔
گیارہ سالہ ’پول دومینگوز‘ اسپین میں اپنی گرمیوں کی چھٹیاں گزار رہا ہے لیکن دیگر بچوں کے برعکس اپنا دن ساحل سمندر یا سوئمنگ پول میں گزارنے کے بجائے وہ سورج کی الٹرا وائلٹ شعاعوں سے بچنے کے لیے ہر وقت اپنی جلد کو ڈھانپ کر رکھتا ہے۔
پول دومینگوز کو زيروڈرما پيگمنٹوسم نامی ایک ایسی نایاب بیماری ہے جو اس کی جلد اور آنکھوں کو شدید متاثر کرتی ہے۔ اس بیماری میں سورج کی روشنی مریض کی جلد کے خلیوں میں ڈی این اے کو نقصان پہنچا سکتی ہے، جس کی وجہ سے انہیں کینسر ہونے کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔
پول دومینگوز کا کیس انتہائی درجے کا ہے سورج کی تھوڑی سی بھی روشنی کا سامنا کرنے سے اس کی آنکھوں اور جلد پر شدید اور تکیلف دہ جلن پیدا ہوتی ہے۔
مغربی یورپ میں ہر دس لاکھ افراد میں اس نوعیت کے 2.3 کیسز پائے جاتے ہیں اور اسپین میں تقریباً 100 افراد اس بیماری کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں، یہ موروثی بیماری جلن ہونے کی وجہ سے جلدی ظاہر ہوجاتی ہے۔
دومینگوز اور اس کے اہل خانہ بارسلونا کے رہائشی ہیں، لڑکے نے سورج کی شعاعوں سے بچنے کے لیے اپنی عادات اور روز مرہ کی زندگی کو یکسر تبدیل کردیا ہے۔
تیز دھوپ اور چھالوں سے بچنے کے لیے دومینگوز گھر سے باہر نکلتے ہوئے ایک ہڈ، جیکٹ، دھوپ کا چشمہ اور دستانے لازمی پہنتا ہے اور عام طور پر وہ اپنا زیادہ تر وقت گھر میں ہی گزارتا ہے۔
دومینگوز کے لیے اس کے گھر کے علاوہ اسکول کی انتظامیہ نے کھڑکیوں اور روشنی کے نظام کو اس کے لیے موزوں بنایا ہوا ہے تاکہ وہ عام زندگی گزار سکے وہ اپنے ساتھ ایک یووی میٹر لے کر چلتا ہے تاکہ موسم کا جائزہ لے سکے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے دومینگوز نے اپنے مخصوص لباس کے بارے میں بتایا کہ "یہ بہت گرم ہوتا ہے اور میں اسے ٹھنڈا کرنے کے لیے ایک پنکھا استعمال کرتا ہوں۔”
لڑکے کی والدہ زینیا ارانڈا نے بتایا کہ ہم صرف رات کے وقت باہر جاتے ہیں کیونکہ وہ اپنے حفاظتی سامان کے بغیر ساحل سمندر پر جاسکتا ہے جو اس کے چہرے پر خوشی لے آتا ہے۔