چند دن افریقہ کے ایک ملک ملاوی میں
ملاوی میں اگرچہ مسلمانوں کی کافی تعداد ہے؛ لیکن پارلیامنٹ میں تعداد کے لحاظ سے ان کی نمائندگی کم ہے، پھر بھی دس فیصد مسلمان ارکان پارلیامنٹ ہیں، کیبنیٹ میں تین مسلمان نمائندے ہیں، جن میں ایک خاتون بھی ہیں، اپوزیشن میں بھی مسلمانوں کی اچھی خاصی تعداد ہے۔
(۲)
ملاوی میں اگرچہ مسلمانوں کی کافی تعداد ہے؛ لیکن پارلیامنٹ میں تعداد کے لحاظ سے ان کی نمائندگی کم ہے، پھر بھی دس فیصد مسلمان ارکان پارلیامنٹ ہیں، کیبنیٹ میں تین مسلمان نمائندے ہیں، جن میں ایک خاتون بھی ہیں، اپوزیشن میں بھی مسلمانوں کی اچھی خاصی تعداد ہے، ملک میں کثیر جماعتی جمہوریت کا نظام ہے، بر سر اقتدار پارٹی ملاوی کانگریس ہے، اپوزیشن جماعتوں میں چھوٹی چھوٹی کئی تنظیمیں شامل ہیں، ملکی معاملات سے متعلق مسلمانوں کی ایک تنظیم مسلم ایسوسی ایشن آف ملاوی قائم ہے، جو مسلمانوں کے مسائل کو وقت ضرورت حکومت کے سامنے پیش کرتی ہے، ایشیائی علماء کی ایک تنظیم مجلس تحقیقات شرعیہ بھی ہے، جو ملی اور شرعی مسائل پر اجتماعی غور وفکر کیا کرتی ہے، اور رویت ہلال کا فیصلہ بھی وہی کرتی ہے، حلال کھانے کے مسئلہ کو بھی دیکھتی ہے، بحمد اللہ اس وقت حکومت کا رُخ غیر متعصبانہ ہے، پارلیامنٹ میں تمام ارکان کو حلال فوڈ ہی فراہم کیا جاتا ہے،
حلال فوڈ کے سلسلہ میں یہاں جنوبی افریقہ کے ادارہ ’’ سنہا‘‘ سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے، جو میرے علم کے مطابق عالمی سطح پر حلال غذاؤں کی تحقیق کا بہت ذمہ دار اور باخبر ادارہ ہے، معلوم ہوا کہ وہاں بریلوی بھائیوں کی طرف سے نکالے جانے والے میلاد جلوس میں خود صدر مملکت مسلمانوں کا لباس پہن کر شریک ہوتے ہیں؛ حالاں کہ موجودہ صدر پہلے پادری کے عہدہ پر فائز تھے،
حکومت کے رویہ کا اثر عوام پر بھی پڑتا ہے؛ اس لئے عوام میں بھی مذہب کی بنا پر نفرت نہیں پائی جاتی، یہاں تک کہ بعض دفعہ تبلیغی جماعتیں چرچ میں قیام کرتی ہیں اور چرچ کے ذمہ داران فراخدالی کے ساتھ ان کا استقبال کرتے ہیں، اللہ کرے کہ یہ صورت حال باقی رہے، یہ بات بھی مجھے خوش آئند محسوس ہوئی کہ اگرچہ وہاں علماء دیوبند بھی ہیں، بریلوی حلقہ سے تعلق رکھنے والے اہل علم بھی ہیں، کچھ اہل حدیث حضرات بھی ہیں؛ لیکن اتحاد واتفاق کے ساتھ رہتے ہیں، بر صغیر میں جس طرح مناظرانہ لب ولہجہ میں تقریریں ہوتی ہیں، بحمد اللہ یہاں یہ مزاج نہیں ہے۔
یہ حقیر اپنی تصنیفی مشغولیت کی وجہ سے چاہتا تھا کہ لوگوں کی زیادہ آمدورفت نہ ہو اور جائے قیام سے لوگ واقف بھی نہ ہوں؛ لیکن یہ بات بھی مناسب نہیں تھی کہ اس سفر میں عام مسلمانوں کا کوئی حصہ نہ ہو؛ اس لئے میں نے اپنے قیام کے آخری دو دن یعنی پہلی اور دوسری جنوری کی تاریخیں یہاں کے دینی اداروں پر حاضری اور عوامی خطاب کے لئے رکھی تھی، پہلی جنوری کو ’’ المحمود‘‘ نامی دینی درسگاہ حاضر ہوا، جس کا ذکر اوپر آچکا ہے، یہاں چوں کہ آبادی کے لحاظ سے زمینیں بہت زیادہ ہیں؛ اس لئے اکثر ادارے بڑے بڑے کیمپس میں قائم ہیں، جن میں یہ سر فہرست ہے، جس کا وسیع احاطہ ہے، خوبصورت یوروپین طرز کی چھپر نما عمارتیں ہیں اور ہر طرف سبزہ زار ہے، اس ادارہ میں وہاں کے موسم کے لحاظ سے تعطیل تھی؛
اس لئے طلبہ سے تو ملاقات نہیں ہو سکی؛ لیکن چوں کہ پہلے سے اطلاع دے دی گئی تھی؛ اس لئے اساتذہ موجود تھے، میں نے ان سے عرض کیا کہ انسان جس جگہ رہے، جیسے وہاں کے جغرافیائی موسم سے واقف ہونا ضروری ہے، اسی طرح اسے وہاں کے فکری اور مذہبی موسم سے بھی آگاہ ہونا چاہئے، اس ملک میں اکثریت عیسائی بھائیوں کی ہے، اور یہاں سیاہ فام آبادی ہے، جن پر ایک زمانہ تک سفید فام لوگوں نے ہم مذہب ہونے کے باوجود بڑا ظلم کیا ہے، اس پس منظر میں ہمیں عیسائیت کا مطالعہ کرنا چاہئے؛
کیوں کہ اگر آپ جنگ کے میدان میں ہوں، اپنے ہتھیار سے واقف ہوں اور فریق مخالف کے ہتھیار سے ناواقف ہوں تو آپ کبھی فتح مند نہیں ہو سکتے، میں نے یہ بھی عرض کیا کہ عیسائیت کے مطالعہ کے لئے مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ کی ’’ اظہار الحق‘‘ بہترین کتاب ہے، اساتذہ کو بھی اور اونچے درجات کے طلبہ کو بھی پورے اہتمام کے ساتھ اس کتاب کا مطالعہ کرانا چاہئے، اور انہیں اس لائق بنانا چاہئے کہ وہ برادران وطن میں مناظرانہ لب ولہجہ میں نہیں؛ بلکہ داعیانہ اسلوب میں اسلام کو پیش کریں۔
اس ادارہ کے تحت ملک کے شمالی علاقہ میں مکاتب کا نظام قائم ہے، جس میں غیر مسلم طلبہ بھی ذوق وشوق سے پڑھتے ہیں، اگرچہ میرے لئے یہ بات حیرت انگیز تھی؛ لیکن نئی نہیں تھی؛ کیوں کہ جنوبی افریقہ میں بھی ایک ایسے مکتب میں حاضری کا موقع ملا تھا، جو سیاہ فام بچوں کا تھا؛ لیکن اس میں مسلمانوں اور نو مسلموں کے ساتھ ساتھ غیر مسلم بچوں کی بھی ایک تعداد شامل تھی، میں نے جب اس سلسلہ میں دریافت کیا تو بتایا گیا کہ ماں باپ خود اپنے بچوں کو لا کر یہاں داخل کرتے ہیں؛
کیوں کہ عیسائی معاشرہ میں نشہ عام ہے اور دوسری اخلاقی برائیاں بھی ہیں، مقامی آبادی کو احساس ہے کہ اسلامی ادارہ میں پڑھنے والے بچے اس سے دور رہتے ہیں؛ اس لئے ماں باپ خود خواہش کر کے اپنے بچوں کو یہاں داخل کراتے ہیں کہ کچھ بھی پڑھیں گے، بچے ان برائیوں سے تو بچ سکیں گے؛ بلکہ وہاں یہ بات بھی سامنے آئی کہ مکتب کا ایک سیاہ فام غیر مسلم طالب علم جب اپنے گھر گیا تو اس نے اپنی ماں سے مطالبہ کیا کہ میں حرام نہیں کھا سکتا، مجھے حلال کھانا کھلاؤ، ان کے والدین نے مکتب آکر دریافت کیا کہ حلال کھانا کیا ہوتا ہے؟ پھر ان کو شرعی ذبیحہ کے بارے میں بتایا گیا، اس سے سبق ملتا ہے کہ اگر ہم خود اپنے آپ کو دین وشریعت پر قائم رکھیں تو یہ چیز خود بخود لوگوں کو متأثر کرتی ہے اور ایک خاموش دعوت کا کام کرتی ہے۔
شہر میں ایک اور اہم ادارہ ’’ معہد الاشرف الاسلامی ‘‘ ہے، مولانا سعید احمد صاحب اس کے ذمہ دار ہیں، اس ادارہ میں بھی تقریباََ پانچ سو طلبہ زیر تعلیم ہیں، اور بر صغیر میں مروج نصاب کے اعتبار سے دوم عربی تک کی تعلیم ہوتی ہے، یہ بھی بڑا اہم ادارہ ہے اور اسی کے زیر نگرانی مکاتب کی ایک بڑی تعداد دین اور علم دین کی اشاعت میں مصروف ہے، مولانا سعید احمد صاحب علماء کے ایک وفد کے ساتھ ملاقات کے لئے تشریف لائے، جس میں بر صغیر سے تعلق رکھنے والے اہل علم کے علاوہ برطانیہ کے بھی بعض علماء شامل تھے۔
آج ہی بعد نماز مغرب ملک کی راجدھانی لی لونگ کی سب سے بڑی مسجد ’’ مسجد فلاح ‘‘ میں اس حقیر کا خطاب رکھا گیا، اس پروگرام میں شہر کے بڑے تاجروں کی اچھی خاصی تعداد تھی، اللہ کا شکر ہے کہ یہاں کی تجارت پر ایشیائی اور بالخصوص گجراتی مسلمان بھائی حاوی ہیں، یہاں موقع کی مناسبت سے اس حقیر نے تجارت کی اہمیت، اس کی برکت اور فضیلت پر بیان کرتے ہوئے مسلمان تاجروں کی ذمہ داریوں پر بھی روشنی ڈالی اور عام طور پر تجارت کے جن مسائل میں لوگوں سے غلطی ہوتی ہے، ان کی وضاحت کی، لوگ اس سے بہت خوش ہوئے، متعدد لوگوں نے اس بات کا اظہار کیا کہ پہلی بار ان موضوعات پر ہم نے کسی عالم دین کی بات سنی ہے اور آپ نے اُن باتوں پر توجہ دلائی ہے، جو ہماری بنیادی ضرورت میں شامل ہے۔
ہمارے میزبان جناب حاجی شمیم صاحب (لوناواڑاہ گجرات) کی فیکٹری کا افتتاح کرنا تھا، وہ ایک دین دار گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں،وہ بہت ہی مخلص مہمان نواز، علماء نواز اور باشعور شخصیت کے مالک ہیں، وہ کسب معاش کے سلسلہ میں ممبئی اور دبئی میں بھی قیام کر چکے ہیں، وہ ۲۰۱۳ء میں اس حال میں ملاوی آئے کہ جب یہاں کوئی ان کا شناسا یا رشتہ دار نہیں تھا، انھوں نے حالات کا جائز ہ لیااور اس نتیجہ پر پہنچے کہ اگر کھانے کا تیل بنانے اور صاف کرنے کا کارخانہ قائم کیا جائے تو یہاں اس کی کافی کھپت ہو سکتی ہے؛
چنانچہ پہلے انھوں نے ایک فیکٹری قائم کی جو ابھی چل رہی ہے، جس میں ہندوستانی نژاد ملازمین کے علاوہ اچھی خاصی تعداد میں سیاہ فام ملازمین بھی کام کرتے ہیں، اور اس میں مسلمان بھی ہیں، عیسائی بھی اور ہندو بھی، اب انھوں نے اپنے دو پارٹنرس کے ساتھ پچاس ایکڑ کی وسیع زمین حاصل کی ہے اور اس میں اسی نوعیت کا دوسرابڑا کارخانہ بنایا ہے، یہ جگہ ائیرپورٹ کے قریب ہے اور ایک خوبصورت سر سبزوشاداب فارم ہاؤس کی شکل میں ہے، جو پہلے ایک انگریز کی ملکیت تھی، اس نے بڑی خوش ذوقی کے ساتھ یہاں متعدد چھوٹے چھوٹے مکانات بھی بنائے ہیں ، کیاریاں بھی ہیں اور اس میں انواع واقسام کے پھل اور پھول بھی ہیں۔
اس ملک میں یوں بھی بہت صاف ستھری فضا ہے، ایک دن میرے ساتھ سورت (گجرات) کے ایک ساتھی بیٹھے ہوئے تھے، میں نے ان سے خواہش کی کہ وہ سورت اور اس شہر کا ائیر پولیوشن انڈیکس میں کیا تناسب ہے اس کو دیکھیں، انھوں نے بتایا کہ آج سورت کا ائیر انڈیکس ۲۳۰؍ سے بڑھا ہوا ہے اور یہاں صرف ۱۵؍ ہے، میں نے دیکھا کہ اس کا اثر وہاں کے لوگوں کی صحت پر بھی ہے، میں خود اپنی طبیعت پر بھی اس کا اثر محسوس کیا اور ہندوستان سے گئے ہوئے لوگوں نے بتایا کہ یہاں لوگ کم بیمار پڑتے ہیں، سینکڑوں کیلو میٹر چلے جائیے ہر طرف ہریالی ہی ہریالی نظر آئے گی، ہرے بھرے درخت، ہرے بھرے کھیت، سبز دوپٹہ اوڑھی ہوئی چھوٹی بڑی پہاڑیاں اور ان کے دامن میں سر سبز وشاداب وادیاں، جہاں جائیے اور جس وقت جائیے کُھلا ہوا نیلا نیلا آسمان اور صاف وشفاف ہوا ، کھیتی بھی وہاں آرگینک ہوتی ہے، فطری کھاد استعمال کی جاتی ہے، یوریا وغیرہ کا استعمال نہیں ہوتا؛ اس لئے پھل اور ترکاریاں بھی بہت ذائقہ دار ہوتی ہیں اور ان میں واضح طور پر ترو تازگی محسوس ہوتی ہے، اگرچہ یہ ایک غریب ملک ہے اور میں نے وہاں دوستوں سے کہا کہ مجھے یہاں پچاس سال پہلے کا ہندوستان نظر آتا ہے؛ لیکن یہاں کی خوشگوار فضا اور لوگوں کی قناعت پسندی قابل رشک ہے، زندگی میں اس قدر سادگی ہے کہ ایک معمولی چھپر ڈال کر جس کے چاروں طرف اینٹوں کی دیوار بھی نہیں ہے، دوکانیں کھولی جاتی ہیں۔
بہر حال میں نے ایک بٹن دبا کر کارخانہ کا افتتاح کیا، اس موقع پر ان کے ایک پارٹنر جناب عبدالمجید صاحب جو کینیا میں رہتے ہیں، اور پہلے سے مجھ سے محبانہ تعلق رکھتے ہیں، وہ بھی موجود تھے اور ان کے بچے بھی، ان کی ایک صاحبزادی نے قانون کی تعلیم حاصل کی ہے اور شریعہ قانون پر پی ایچ ڈی کر رہی ہیں، وہ مجھ سے غائبانہ واقف تھیں اور میری متعدد کتابوں کے انگریزی ترجمے نیٹ پر پڑھ چکی تھیں، وہ بھی ملاقات کے لئے خاص طور پر آئیں، اور بہت سے شرعی مسائل پر گفتگو کی، ان کے علمی ذوق اور دینی جذبہ کو دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی، انھوں نے بہت معقول سوالات کئے ،نیز اس حقیر کی وضاحت پر تشفی کا اظہار کیا اور آئندہ بھی ایسے مسائل کے لئے ربط رکھنے کی گزارش کی، میں نے ان سے کہا کہ آپ ضرور فون کے ذریعہ رابطہ رکھ سکتی ہیں؛ لیکن میں چاہتا ہوں کہ آپ صرف قانون داں اور وکیل نہ بنیں؛ بلکہ اسلام اور شریعت اسلامی کی سچی پکی ترجمان بنیں۔
اس حقیر نے علماء اور تجار کی مجلسوں میں بھی اور مسجد اور مدرسہ کے پروگرام میں بھی اس بات پر بار بار توجہ دلائی کہ مسلمان جب غیر مسلم بھائیوں کے درمیان داعیانہ مزاج کے ساتھ رہتا ہے تو وہاں کی آبادی ان کو اپنے سر کا تاج بنا لیتی ہے اور وہ نہ صرف زمین کے بلکہ دلوں کے بھی حکمراں بن جاتے ہیں، ہندوستان اس کی بہترین مثال ہے، اور جب برادران وطن سے ان کا تعلق صرف تاجرانہ اور پیشہ وارانہ ہوتا ہے اور کسب زر کی حد تک ان سے تعلق رکھتے ہیں تو نفرت کی چنگاریاں سلگتی ہیں اور آہستہ آہستہ وہ لاوا بن جاتی ہیں، جس کی وجہ سے وہاں تارکین وطن کا قیام مشکل ہو جاتا ہے، یہاں تک کہ ان کی جان اور عزت وآبرو کے بھی لالے پڑ جاتے ہیں؛
اس لئے آپ کو غیر مسلم بھائیوں سے خوشگوار تعلقات پر بھرپور توجہ دینی چاہئے، اسی طرح کوئی قوم جب کسی دوسرے خطہ میں ہجرت کر کے پہنچتی ہے، تو ضروری ہے کہ شیرو شکر ہو کر مقامی لوگوں کے ساتھ رہے، جیسا کہ مہاجرین مکہ نے مدینہ منورہ میں کیا تھا؛ مکہ کے مہاجرین تاجر تھے اور مدینہ کے رہنے والے زیادہ تر زراعت پیشہ تھے؛ لیکن دونوں بھائی بھائی بن گئے، انھوں نے کاروباری رشتے بھی قائم کئے اور آپس میں خاندانی رشتے بھی قائم کئے، اسی طرح ایشیاء کے مختلف ملکوں اور خاص طور پر ہندوستان سے جانے والے مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ مقامی مسلمانوں کے ساتھ اسی طرح کے تعلقات رکھیں اور ان سے بھائی چارہ قائم کریں ورنہ دوریاں پیدا ہوتی ہیں اور بڑھتی جاتی ہیں، یہاں تک کہ بعض دفعہ خونچکاں داستان لکھ کر دم لیتی ہیں، جس کی واضح مثال بنگلہ دیش کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے۔
اس سفر سے ایک اور گل عبرت جو میں نے ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے چنا، وہ یہ ہے کہ تمام مسلمانوں خاص کر غیر مسلم ممالک کے مسلمانوں کے لئے مکاتب کا اور امداد باہمی کا نظام نہایت ضروری ہے، ملاوی میں مسلمانوں کی بڑی آبادی ہے، کہا جاتا ہے کہ کچھ عرصہ پہلے یہاں مسلمان اکثریت میں تھے؛ لیکن جہالت وغربت کی وجہ سے مسلمانوں کی اچھی خاصی تعداد مرتد ہوگئی اور اب وہ اقلیت میں آچکے ہیں، اسی پس منظر میں وہاں لوگوں نے حالیہ دنوں میں نظام مکاتب پر بھر پور توجہ دی ہے، اور اس کے فائدے بھی سامنے آرہے ہیں، ہندوستان کے حالات ابھی اتنے خراب نہیں ہیں؛
لیکن دینی اعتبار سے جو صورت حال بن رہی ہے اگر اس میں مکاتب کے نظام پر توجہ نہیں دی گئی اور دور دراز دیہاتوں کے مسلمانوں سے رابطہ استوار نہیں کیا گیا اور ان کو مدد نہیں پہنچائی گئی تو اس بات کا پورا خطرہ موجود ہے کہ خدانخواستہ مسلمان غلط راستہ پر چلے جائیں اور سرمایۂ دین سے بھی محروم ہو جائیں، ملک کے مختلف علاقوں میں خواتین کا گروپ بنا کر سودی قرض دئیے جا رہے ہیں، اور انجام کار یہ ارتداد تک کا باعث بن جاتا ہے؛ اس لئے مکاتب کا نظام اور غیر مسلم اکثریت دیہاتوں کے غریب مسلمانوں کی مالی مدد اُن کو فتنۂ ارتداد سے بچانے کے لئے بہت اہم ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں حالات کو سمجھنے کی اور اس کے تقاضوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
٭٭٭