صدیوں سے چلی آ رہی روایت کے خاتمہ کیلئے حکومت برطانیہ کا تاریخی اقدام
یہ اصلاحات 1999 میں ٹونی بلیئر کی حکومت کی طرف سے شروع ہونے والے اس عمل کو پایہ تکمیل تک پہنچائے گی، جس میں زیادہ تر موروثی نشستیں ختم کر دی گئی تھیں تاہم عارضی اتنظام کے تحت ان کی کچھ تعداد کو برقرار رکھا گیا تھا۔
لندن: حکومت برطانیہ نے صدیوں سے چلی آ رہی روایت کے خاتمے کے لیے تاریخی قدم اٹھاتے ہوئے ہاؤس آف لارڈز میں اہم بل پیش کر دیا ہے۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق حکومت برطانیہ نے ہاؤس آف لارڈز میں بیٹھنے اور ووٹ دینے کے بقیہ موروثی ساتھیوں کے حق کو ختم کرنے کے لیے ایک بڑی پارلیمانی اصلاحات کی تجویز پیش کی ہے اور یہ 25 سالوں میں ایوان بالا میں سب سے اہم تبدیلی ہے۔
رپورٹ کے مطابق جمعرات کو اعلان کردہ اس بل کا مقصد گزشتہ 92 موروثی نشستوں کو ہٹانا ہے، جو صدیوں سے چلی آ رہی روایت کو ختم کرنا ہے۔ مجوزہ قانون سازی، جس کے رواں سال 2024 میں ہی نافذ ہونے کی توقع ہے، خالی آسامیوں کو پُر کرنے کے لیے استعمال ہونے والے اندرونی ضمنی انتخابات کے موجودہ نظام کو ختم کر دے گی۔
بل کی منظوری ہاؤس آف لارڈز کو مکمل طور پر غیر موروثی کر دے گی اور طاقت میرٹ پر مبنی ایوان بالا کی طرف منتقل ہو گی۔ یہ اصلاحات 1999 میں ٹونی بلیئر کی حکومت کی طرف سے شروع ہونے والے اس عمل کو پایہ تکمیل تک پہنچائے گی، جس میں زیادہ تر موروثی نشستیں ختم کر دی گئی تھیں تاہم عارضی اتنظام کے تحت ان کی کچھ تعداد کو برقرار رکھا گیا تھا۔
آئین کے وزیر نک تھامس سائمنڈز نے اس اقدام کو ایک "تاریخی” قدم قرار دیتے ہوئے کہا کہ قانون سازی میں موروثی اصول پرانا ہوچکا ہے۔
موجودہ 92 موروثی نشستوں پر تمام سفید فام مرد ہیں جن کی اوسط عمر تقریباً 70 سال ہے، ایک آبادیاتی ماہر کو معاصر برطانیہ کے غیر نمائندہ ہونے کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس اصلاحات میں ارل مارشل اور لارڈ گریٹ چیمبرلین کو بھی ہٹایا جائے گا، جو دو اہم رسمی کردار ہیں۔
واضح رہے کہ لیبر پارٹی، جس ہاؤس آف لارڈز کی اصلاح کا مطالبہ طویل عرصے سے رہا ہے، اس نے اپنے حالیہ انتخابی منشور میں بھی موروثی ساتھیوں کی برطرفی کو شامل کیا تھا اور ان کی مسلسل موجودگی کو "ناقابلِ دفاع” قرار دیا تھا۔