دہلی

اپوزیشن کا زبردست ہنگامہ، مسلم مخالف وقف ترمیمی بل مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کو بھیج دیا گیا

وزیر نے زور دے کر کہا کہ اس قانون کو لانے سے پہلے اسٹیک ہولڈرز سے وسیع تر مشاورت کی گئی۔ بل کی دفعات پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وقف بورڈ ٹریبونل میں ایک عدالتی اور ایک تکنیکی رکن ہوگا۔

نئی دہلی: لوک سبھا میں جمعرات کو وقف (ترمیمی) بل 2024 کی سخت مخالفت کے بعد، اسے تفصیلی جائزہ کے لیے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی (جے پی سی) کے پاس بھیج دیا گیا۔

متعلقہ خبریں
ملک میں 11 سیاسی جماعتیں، غیرجانبدار
ممتا بنرجی، اپوزیشن ڈنر میں شرکت نہیں کریں گی
کانگریس جلد پٹنہ میں اپوزیشن میٹنگ میں شرکت کرے گی
بنڈی سنجے کو پارٹی کی صدارت سے نہیں ہٹایا جائے گا: کشن ریڈی
اپوزیشن جماعتوں کو متحد ہونا پڑے گا: کپل سبل

قبل ازیں اقلیتی امور کے وزیر کرن رجیجو نے وقف بورڈ کو چلانے والے قانون میں ترمیم کا بل پیش کرنے کی اجازت طلب کی۔ کانگریس سمیت تمام اپوزیشن جماعتوں نے اس بل کی سخت مخالفت کی اور اسے آئین کی مختلف دفعات کے خلاف اور مسلمانوں کے مذہبی معاملات میں مداخلت کی کوشش قرار دیا۔

رکن پارلیمنٹ حیدرآباد وبیرسٹراسدالدین اویسی نے حکومت پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہاکہ یہ بل مسلم دشمن بل ہے۔ اسد اویسی نے سوال کیا کہ کیا آپ بلقیس بانو اور ذکیہ جعفری کو بورڈ میں شامل کریں گے؟۔

اپوزیشن نے اسپیکر اوم برلا سے ضابطہ 72 کے تحت بل کو پیش کرنے سے قبل بحث کرانے کا مطالبہ کیا جسے اسپیکر نے قبول کرلیا۔ رولنگ پارٹی اور اپوزیشن کے تمام ممبران کی رائے سننے کے بعد مسٹر رجیجو نے کہا کہ اپوزیشن اراکین سیاسی دباؤ کی وجہ سے اس پر احتجاج کر رہے ہیں لیکن سچائی یہ ہے کہ یہ بل سب کے مفاد میں ہے اور اس سے غریبوں کی مدد ہو گی۔

 وقف املاک کے ذریعے مسلمانوں کی فلاح و بہبود کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وقف بورڈ میں 90 ہزار سے زائد مقدمات زیر التوا ہیں اور ان تمام عدم مساوات کو دیکھتے ہوئے یہ بل عوام کو انصاف فراہم کرنے کے لئے لایا گیا ہے۔ نئے بل میں کیس نمٹانے کا وقت چھ ماہ مقرر کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بل میں کی گئی شقوں سے آئین کے کسی آرٹیکل کی خلاف ورزی نہیں ہوئی اور نہ ہی اس میں کسی کے حقوق چھینے جا رہے ہیں۔ اس میں صدیوں سے حقوق نہ دینے والوں کو حقوق دیے گئے ہیں۔ یہ بل وقف بورڈ میں خواتین کی رکنیت کو لازمی قرار دیتا ہے اور اس میں ہر مسلم کمیونٹی کی خواتین کو شامل کیا جائے گا۔

مرکزی وزیر نے کہا کہ ان کی حکومت یہ بل پہلی بار نہیں لائی ہے۔ حکومت نے 1995 میں جو وقف بل لایا تھا وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکا ہے۔ بل جس مقصد کے لیے لایا گیا تھا اس میں مکمل طور پر ناکامی ملی ہے۔

انہوں نے کہا کہ نیا بل بہت غوروفکر کے بعد لایا گیا ہے اور سب کو اس بل کی حمایت کرنی چاہیے کیونکہ اس وقت کروڑوں لوگوں کو انصاف نہیں مل رہا۔ اس بل کی مخالفت کرنے سے پہلے کروڑوں غریب مسلمانوں کے بارے میں سوچیں اور پھر مخالفت کریں۔

 اس مسئلہ پر کئی کمیٹیاں تشکیل دی گئیں اور وقف ایکویٹی رپورٹ پیش کی گئی۔ تمام وقف املاک کو منظم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے ٹریبونل ہونا چاہیے اور آڈٹ اور اکاؤنٹس کا نظام بہتر ہونا چاہیے۔