میسور کے ڈپٹی کمشنر راجندر کے تبادلہ کے بعد سیاسی تنازعہ کھڑا ہوگیا
یہ معاملہ ایم یو ڈی اے کے ذریعہ 50:50 اسکیم کے تحت زمین کھونے والوں کو متبادل جگہوں کی الاٹمنٹ میں بے ضابطگیوں سے متعلق ہے، لیکن یہ پتہ چلا کہ قانون کوسابقہ طورپر لاگو کیا گیاتھا۔
بنگلورو: کرناٹک کی کانگریس حکومت کی طرف سے میسور کے ڈپٹی کمشنر کے وی راجندر کے تبادلے نے سیاسی تنازعہ کھڑا کر دیا ہے۔ میسور اربن ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ایم یو ڈی اے) میں سائٹ الاٹمنٹ میں بے ضابطگیوں سے متعلق گھوٹالے کو بے نقاب کرنے کی وجہ سے مسٹر راجندر کا ڈپٹی کمشنر کے عہدے سے تبادلہ کردیا گیا ہے۔
یہ معاملہ ایم یو ڈی اے کے ذریعہ 50:50 اسکیم کے تحت زمین کھونے والوں کو متبادل جگہوں کی الاٹمنٹ میں بے ضابطگیوں سے متعلق ہے، لیکن یہ پتہ چلا کہ قانون کوسابقہ طورپر لاگو کیا گیاتھا۔
اس کے علاوہ، زمین کھونے والوں سے حاصل کی گئی جائیداد کے مقابلے زیادہ مارکیٹ اور رہنمائی کی قدر والے علاقوں میں معاوضے کی جگہیں تقسیم کی گئیں۔ فائدہ اٹھانے والوں میں سے ایک وزیر اعلیٰ سدارامیا کی اہلیہ ہیں اور اس لیے اس معاملے نے سیاسی رنگ بھی اختیار کر لیا ہے۔
راجندر کے تبادلے نے سیاسی ماحول کو گرما دیا ہے، خاص طور پراس لئے کیونکہ اس میں وزیر اعلیٰ سدارامیا اور ان کی اہلیہ پاروتی شامل ہیں۔
مسٹر راجندر کو بنگلورو میں سیاحت کا نیا ڈائریکٹر مقرر کیا گیا ہے اور انڈین ایڈمنسٹریٹو سروس (آئی اے ایس) کے سینئر افسر جی لکشمی کانت ریڈی ان کی جگہ میسور کے ڈپٹی کمشنر ہوں گے۔
مسٹر راجندر ان 21 آئی اے ایس افسران میں سے ایک ہیں جن کا تبادلہ کیا گیا ہے اور پہلی نظر میں ان کا تبادلہ ‘باقاعدہ’ لگتا ہے جو کہ ایسا نہیں ہے لیکن جاری الزامات کے پیش نظر ان کا دوبارہ تبادلہ کیا گیا ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ جب مسٹر راجندر کو الزامات کا علم ہوا تو انہوں نے ایم یو ڈی اے کے عہدیداروں کو خط لکھ کر وضاحت طلب کی۔ لیکن جب بار بار یاد دہانی کے باوجود کوئی جواب نہیں ملا تو انہوں نے اس مسئلہ کو آگے بڑھاتے ہوئے شہری ترقیات کے سکریٹری کی توجہ مبذول کرائی جنہوں نے تحقیقات کا حکم دیا۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما آر اشوک کے الزامات کے بعد سیاسی تنازعہ شدت اختیار کر گیا۔ مسٹر اشوک نے دعویٰ کیا کہ شہری ترقی کے وزیر براتی سریش نے وزیر اعلیٰ اور ان کی اہلیہ سے جڑے الاٹمنٹ سے متعلق فائلوں کو ایم یو ڈی اے دفتر سے ہٹا دیا اور معاملے کو چھپانے کی کوشش میں انہیں بنگلورو لے گئے۔
ان سنگین الزامات کے ساتھ ساتھ مسٹر راجندر کے تبادلے نے موجودہ انتظامیہ کی ایمانداری اور شفافیت کو سوال کھڑا کردیاہے نیزسیاسی لیڈراور عوام ملوث افراد سے جواب اور جوابدہی کا مطالبہ کررہے ہیں۔