دہلی

موجودہ وقف قانون آئین میں دیئے گئے بنیادی حقو ق کے خلاف اورمذہبی امورمیں مداخلت : مولانا ارشدمدنی

جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا ارشدمدنی نے آج کی عدالتی کارروائی ، بحث اورچیف جسٹس سنجیوکھنہ کے تبصرہ کو مثبت اورانتہائی اہم قراردیتے ہوئے کہا کہ ہم امیدکرتے ہیں کہ کل کی بحث کے بعد عدالت جو فیصلہ صادرکرے گی وہ عدلیہ اورآئین دونوں کی سربلندی والاہوگا۔

نئی دہلی: مرکزی سرکار کی جانب سےمنظور کئے گئے وقف ترمیمی قانون2025 کے خلاف داخل عرضی پرآج سپریم کورٹ کی خصوصی بینچ نے سماعت کی جس کے دوران سب سے پہلے سینئر ایڈوکیٹ کپل سبل نے بحث کی اور عدالت کو بتایا کہ وقف قانون میں کی گئی تازہ ترمیمات غیر آئینی ہیں کیونکہ یہ مسلم مذہب میں مداخلت ہے،پارلیمنٹ کو ایسے قانون بنانے کا اختیار نہیں ہے۔

متعلقہ خبریں
مرکز نے دیہی ترقی کیلئے اے پی کو بھاری فنڈس جاری کئے
مذہبی مقامات قانون، سپریم کورٹ میں پیر کے دن سماعت
طاہر حسین کی درخواست ضمانت پرسپریم کورٹ کا منقسم فیصلہ
آتشبازی پر سال بھر امتناع ضروری: سپریم کورٹ
گروپI امتحانات، 46مراکز پر امتحان کا آغاز

آج یہاں ایک پریس ریلیز کے مطابق جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا ارشدمدنی نے آج کی عدالتی کارروائی ، بحث اورچیف جسٹس سنجیوکھنہ کے تبصرہ کو مثبت اورانتہائی اہم قراردیتے ہوئے کہا کہ ہم امیدکرتے ہیں کہ کل کی بحث کے بعد عدالت جو فیصلہ صادرکرے گی وہ عدلیہ اورآئین دونوں کی سربلندی والاہوگا۔

 انہوں نے کہا کہ وقف بائی یوزر، غیر مسلم ممبران کی تعداد اور وقف رجسٹریشن کے تعلق سے جو اعتراضات کئے گئے ہیں انہیں اعتراضات پر ہم پہلے دن سے آواز اٹھا رہے ہیں۔ پورے ملک میں دوران احتجا ج تشدد کی واردارت پر چیف جسٹس کا تبصرہ اور مقدمہ کی جلداز جلد سماعت مکمل کئے جانے کی بات خوش آئند ہے ۔

 وقف ترمیمات کے بعد ہمارا سپریم کورٹ سے رجوع ہونے کا مقصد ہی یہ تھا کہ ملک میں امن و امان قائم رہے۔دوران بحث سرکاری وکیل کی جانب سے عدالت کو گمراہ کرنے کی کوشش بھی اس بات کا اشارہ کرتی ہے کہ سرکار نے وقف قانون میں ترمیمات مسلمانوں کی بھلائی کے لیئے نہیں بلکہ مسلمانوں کے مذہبی معاملات میں مداخلت کرنے کی غرض سے کی ہے۔

مولانا مدنی نے مزیدکہا کہ موجودہ وقف قانون آئین میں دیئے گئے بنیاد ی حقوق کے خلاف اور مذہبی امور میں مداخلت ہے اورملک کی یکجہتی اور سالمیت کے لئے انتہائی خطرناک۔مسلمان اپنے مذہبی امور میں کسی طرح کی مداخلت برداشت نہیں کرسکتا۔اس بل کا فائدہ اٹھاکر فرقہ پرست طاقتیں ملک کے امن و اتحاد میں بھی آگ لگا رہی ہیں۔یہ قانون ایسے وقت میں لایا گیا ہے جب پورے ملک میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کی آندھی چل رہی ہے۔

چیف جسٹس آف انڈیا سنجیوکھنہ ،جسٹس سنجے کمار اور جسٹس کے وی وشوناتھن نے اس اہم مقدمہ کی سماعت کی جس پرپورے ملک کی نظریں مرکوزتھیں ، آج جیسے ہی عدالتی کارروائی کا آغاز ہوا چیف جسٹس آف انڈیا نے مسلم فریقین سے دو سوال پوچھا کہ اس مقدمات کو ہائی کورٹ میں کیوں منتقل نہیں کیا جاناچاہئے اور کیا پارلیمنٹ کوقانون بنانے کا حق نہیں ہے؟

عدالت نے ایک اہم فیصلہ صادر کرتے ہو ئے کہا کہ جو بھی پراپرٹی وقف ڈکلیئر کی گئی ہے اور وقف بائی یوزر ہے وہ ایسے ہی برقرار رہے گی ۔کلکٹر کی کارروائی چلتے رہے گی لیکن ترمیمات کو لاگو نہیں کیاجائے گا ۔

بحیثیت عہدہ ممبران کی تقرری کی جاسکتی ہے لیکن بقیہ ممبران مسلم ہونگے۔چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت عموماً عبوری فیصلہ صادر نہیں کرتی ہے لیکن اگر عبوری فیصلہ صادر نہیں کیا گیا تو وقف بائے یوزر ختم ہوجانے کے خطرناک اثرات ہوسکتے ہیں۔

دوران سماعت چیف جسٹس سنجیوکھنہ نے زبانی تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ انگریز حکومت سے پہلے وقف رجسٹریشن کرنے کا کوئی انتظام نہیں تھا ، ملک میں بہت ساری مسلم عبادت گاہیں تیرھویں ، چودھویں اورپندری صدی کی تعمیرات کردہ ہیں۔

ان ترمیمات کے ذریعہ سرکارچاہتی ہے کہ ان کے دستاویزات دکھائے جائیں جو آج ممکن نہیں ہے ،جمعیۃعلماء ہند کے وکیل کپل سبل نے عدالت کو بتایا کہ وقف ایک مذہبی معاملہ ہے اوریہ اسلام کی روح سے جڑاہواہے ۔

عدالت آج عبوری فیصلہ صادر کرنا چاہتی تھی لیکن سالیسٹر جنرل نے سخت اعتراض کیا اور عدالت کو بتایا کہ عدالت اس مقدمہ کی سماعت کل کرسکتی ہے جس کے بعد عدالت نے عبوری فیصلہ واپس لے لیا اور مقدمہ کی سماعت کل ملتوی کردی۔

عدالت نے زبانی طور پر مزید کہا کہ عدالتوں کی جانب سے وقف پراپرٹی ڈکلیئر ڈ کو نئی ترمیمات سے اثر نہیں ہوگا۔عدالت نے مزید تبصرہ کیاکہ احتجاج کے دوران تشدد کے واقعات پریشان کن ہیں لہذا عدالت اس مقدمہ کا فیصلہ کریگی جس پر سالیسٹر جنرل نے کہا تشدد کو فیصلے کی وجہ نہیں بنانا چاہئے۔

بحث کا آغاز کرنے کے لیئے چیف جسٹس آ ف انڈیا نے ڈاکٹر راجیو دھون سے کہا کہ وہ بحث کا آغاز کریں جس پر انہوں نے کہا کہ سینئر ایڈوکیٹ کپل سبل ان کے گرو ہیں لہذا وہ ہی بحث کا آغاز کریں جس کے بعد کپل سبل نے بحث شرو ع کی اور کہاکہ اس معاملے کا تعلق پورے ملک سے ہے لہذا اس مقدمہ کی سماعت سپریم کورٹ کوہی کرنا چاہئے نیز وقف قانون میں مداخلت مذہبی معاملے میں دخل ہے جس پر سپریم کورٹ کونوٹس لینا چاہئے۔

سینئر ایڈوکیٹ کپل سبل نے دوران بحث وقف ترمیمی قانون2025میں کی گئی تمام ترمیمات پر مدلل بحث کی اور عدالت کو بتایا کہ دیگر مذاہب کے مذہبی اداروں میں مسلمانوں کی شرکت نہیں ہے تو پھر مسلم وقف معاملات میں غیر مسلم ممبران کی موجودگی ضروری کیوں قرار دی گئی ہے؟

 کلکٹر کو جج کا اختیار کیوں دیا گیا ہے؟ کلکٹر اپنے ہی مقدمہ کا فیصلہ کیسے کریگا ؟سینئرایڈوکیٹ کپل سبل نے وقف بائے یوزر ختم کیئے جانے پر بھی شدید برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ ترمیم مذہبی معاملے میں بالراست مداخلت ہے ۔ آئین ہند نے پارلیمنٹ کو بھی اس کی اجازت نہیں دی ہے۔

مسلم فریق کے وکلاء کی بحث کے بعدچیف جسٹس آف انڈیا نے سالیسٹر جنرل آف انڈیا تشار مہتا سے دریافت کیاکہ کیا اس قانون میں وقف بائی یوزر ختم کردیاگیا ہے جس کا تشار مہتا نے تشفی بخش جواب نہیں دیا اور کہاکہ وقف بائی یوزر کا بھی رجسٹریشن ضروری ہے جس پر چیف جسٹس نے حیرت کا اظہار کیا ۔

جمعیۃعلماء ہند کی طرف سینئرایدوکیٹ کپل سبل کی معاونت کے لئے آج کورٹ میں ایڈوکیٹ آن ریکارڈ فضیل ایوبی ،ایڈوکیٹ شاہد ندیم اوردیگر موجودتھے ۔