فرانس میں غزہ پر تقریر کرنے والی کارکن مریم ابودقہ زیر حراست، ملک بدری کا امکان
فلسطینی کارکن کے وکیل نے بتایا ہے کہ ابودقہ کو اکتوبر میں چار دن تک گھر میں نظر بند رکھا گیا تھا جب کہ وہ ہفتہ کے روز پیرس سے مصر جانے کا ارادہ رکھتی تھیں۔ وکیل نے مزید بتایا ہے کہ فلسطینی کارکن کو فی الحال پیرس کے ایک پولیس سٹیشن میں رکھا گیا ہے۔
پیرس: فلسطینی کارکن 72 سالہ مریم ابودقہ جو ستمبر میں فرانس کے دورے پر آئی تھیں انہیں گذشتہ روز جمعرات کو پیرس کی عدالت سے ملک بدری کے حکم کے بعد حراست میں لے لیا گیا ہے۔
روئٹرز نیوز ایجنسی کے مطابق فرانس کی اعلیٰ ترین انتظامی عدالت کنسل ڈی ایٹ نے فیصلہ میں کہا ہے کہ پاپولر فرنٹ فار دی لبریشن آف فلسطین(پی ایف ایل پی) کی رکن ’امن کو شدید خراب کرسکتی ہیں۔‘
فلسطینی کارکن کے وکیل نے بتایا ہے کہ ابودقہ کو اکتوبر میں چار دن تک گھر میں نظر بند رکھا گیا تھا جب کہ وہ ہفتہ کے روز پیرس سے مصر جانے کا ارادہ رکھتی تھیں۔ وکیل نے مزید بتایا ہے کہ فلسطینی کارکن کو فی الحال پیرس کے ایک پولیس سٹیشن میں رکھا گیا ہے۔
پیرس کی پولیس نے فوری طور پر اس پر تبصرے کی درخواست کا کوئی جواب نہیں دیا۔ فرانسیسی حکومت نے غزہ اسرائیل جنگ کے تنازع میں مظاہروں پر پابندی عائد کردی ہے اور اس سلسلے میں تقریبات منسوخ کر دی گئی ہیں۔ فرانسیسی حکام نے کچھ فلسطینی حامی گروپوں پر دہشت گردی کی حمایت کرنے کا الزام لگایا ہے۔
مریم ابودقہ نے بتایا ہے کہ غزہ میں ہونے والی جنگ کے آغاز سے اب تک وہ اپنےخاندان کے 30 افراد کھو چکی ہیں۔ ابودقہ نے منگل کو ایک نیوز کانفرنس میں کہا تھا ’ہمیں اُف کئے بغیر اور اپنے دکھ ، درد کا اظہار کیے بغیر مر جانا ہے۔‘
تسلط کی مخالف اور حقوق نسواں کی کارکن کو فرانس کی قومی اسمبلی میں جمعرات کو ایک تقریب میں خطاب کے لیے مدعو کیا گیا تھا لیکن اسمبلی صدر نے اکتوبر میں ان کی شرکت روک دی تھی۔ فرانس کی کونسل آف سٹیٹ نے مریم ابودقہ کی پاپولر فرنٹ فار دی لبریشن آف فلسطین (پی ایف ایل پی) کی رکنیت کو فیصلے کی بنیاد بناتے ہوئے کہا ہےکہ وہ ’قیادت‘ کے عہدے پر فائز ہیں۔
پاپولر فرنٹ فار دی لبریشن آف فلسطین تنظیم فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) کا دوسرا بڑا دھڑا ہے جسے اقوام متحدہ اور اسرائیل تسلیم کرتے ہیں لیکن یورپی یونین نے اسے بلیک لسٹ کر رکھا ہے کہ اس نے اسرائیلیوں پر حملے کیے ہیں۔
مریم ابودقہ نے کہا کہ غزہ پر اسرائیلی حملے جاری رہنے کی وجہ سے انہیں سونے میں تکلیف ہو رہی ہے اور وہ مزید بری خبروں کے خوف سے اپنا فون چیک کرنے سے خوفزدہ ہو گئی ہیں۔