عنبر۔ اب بھی ایک معمہ ۔ دینی و سائنسی جائزہ: ڈاکٹر محمد اقتدار حسین فاروقی
۔دراصل عنبر دو قسم کا ہوتا ہے، ایک وہ ہے جو ایک قسم کے چیڑ نامی پودوں کا Fossilised Resin ہے جو نہایت سخت اور عام طور سے سنہرا ہوتا ہے۔

عجیب بات ہے کہ بعض اشیاء جو زمانہ قدیم میں عام طور سے دستیاب تھیں لیکن ان کی اصلیت کے بارے میں تفصیلات کا علم بہت کم تھا وہ آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی معمہ بنی ہوئی ہیں اور ان کی سائنسی پہچان سے اکثر لوگ ناواقف ہیں۔ ایسی ہی ایک شئے عنبر ہے جس کی بابت پرانی کتابوں میں متضاد باتیں لکھی گئی ہیں۔ کچھ میں اس کو ایک نباتاتی شئے بتایا گیا ہے تو کچھ میں غیر نباتاتی چیز سے تعبیر کیا گیا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ قدیم تاریخی، طبّی اور دینی کتابوں میں عنبر کا ذکرتو کثرت سے موجود ہے لیکن اس کی پہچان کی نسبت تبصرے بہت ہی کم ہیں اور جو ہیں بھی تو ان میں تضاد ملتا ہے۔ اسی لئے موجودہ زمانہ کی لغات میں عنبر کے معنی اور مفہوم ایک سے زیادہ ہیں۔ آئیے ہم تاریخ اور سائنس کی روشنی میں عنبر کی اصلیت معلوم کرنے کی سعی کر تے ہیں۔
۔دراصل عنبر دو قسم کا ہوتا ہے، ایک وہ ہے جو ایک قسم کے چیڑ نامی پودوں کا Fossilized Resin ہے جو نہایت سخت اور عام طور سے سنہرا ہوتا ہے۔ اس کی خوشبو بھی بہت تیز ہوتی ہے۔ دوسری قسم وہ ہے جو Sperm Whale نامی مچھلی کے پیٹ سے نکلتا ہے اور سرمئی رنگ کا ہوتاہے ۔ اسی لئے انگریزی میں اس Ambergris کہتے ہیں۔ لاطینی زبان میں Gris کے معنی کالے کے ہیں
انگریزی ،عربی اور فارسی کی مشہور لغات میں عنبر کو ایک خوشبودار شئے بتایا گیا ہے جس کی پہچان مختلف انداز سے بیان کی گئی ہے۔ لیکن عربی کی مستند لغت المنجد میں عنبر کو خوشبودار شئے کے علاوہ ایک قسم کی مچھلی بھی کہا گا ہے، اس مچھلی کا ذکر کتاب المفازنی کے تحت بخاری شریف کی ایک حدیث میں بھی ہوا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ ایک موقعہ پر حضرت ابوعبیدہ کی قیادت میں تین سو سواروں کے ایک قافلہ کو غذائی قلت کا سامنا کرنا پڑا تو وہ درخت کی پتیوں کو کھانے پر مجبور ہوئے، اس دوران جب پورا قافلہ بھوک سے بے حال سمندر کے کنارے خیمہ زن تھا تو ایک لحیم شحیم مچھلی جسے عنبر کہتے تھے سمندر کے کنارے آن لگی۔ اسے پکڑ لیا گیا، پورے قافلہ نے اس عنبر مچھلی کا گوشت بھون کر متواتر پندرہ دن تک کھایا اور بھوک سے پیدا شدہ کمزوری سے نجات پائی۔
عنبر مچھلی اصل میں وہیل مچھلی کی ایک قسم ہے جو منطقہ حارہ کے سمندروں میں اسپرم وہیل (Sperm Whale) کہلاتی ہے۔ وہیل مچھلی کی ایک درجن سے زیادہ قسمیں دُنیا کے سمندروں میں پائی جاتی ہیں۔ ۱۹۰۳ء میں بحر اوقیانوس میں ایک وہیل مچھلی پکڑی گئی تھی جس کی لمبائی ایک سو گیارہ فٹ ناپی گئی تھی اور جس کا وزن نوے ٹن تھا۔ عرب کے ساحلی سمندروں میں پائی جانے والی نراسپرم وہیل کی اوسط لمبائی ستر فٹ ہوتی ہے۔ دُنیا بھر کی وہیل کی ساری قسموں میں صرف عنبر (اسپرم وہیل) ہی ایک ایسی مچھلی ہے جس کی حلق اتنی کشادہ ہوتی ہے کہ ایک آدمی اس کے راستہ مچھلی کے پیٹ میں بہ آسانی داخل کیا جاسکتا ہے۔ یہ سائنٹفک حقیقت مختلف تجربات سے جانی جاچکی ہے۔ غالباً یہی وہ مچھلی ہے جس کا ذکر قرآن پاک میں سورۃ الصف کی چند آیات میں کیا گیا ہے۔ ان آیات میں فرمایا گیا ہے کہ حضرت یونس علیہ السلام نے جب اپنی قوم سےپریشان ہوکر ایک کشتی پر سوار ہوکر سفر اختیار کیا اور کشتی والوں نے اپنی مصلحتوں کی خاطر ان کو سمندر میں ڈھکیل دیا تو ایک مچھلی نے ان کو نگل کیا اور بعد میں کسی ساحل پر جاکر اُگل کیا۔ حضرت یونس کا یہ واقعہ بائبل میں بھی مذکور ہے۔
عنبر مچھلی کا اوسط وزن ساٹھ ٹن ہوتا ہے جس کا نصف یعنی تقریباً تیس ہزار کلو گوشت کی شکل میں ہوتا ہے باقی پسلیوں، خون وغیرہ کے طور پر۔ گویا کہ گوشت کے اعتبار سے ایک عنبر مچھلی تین ہزار اوسط وزن کے بکروں کے برابر کہی جاسکتی ہے۔ یہاں اس سائنسی مشاہدہ کا ذکر بھی مناسب ہے کہ وہیل مچھلیاں جب اپنی جسامت یا زیادتی عمر سے اُکتاجاتی ہیں تواکثر سمندر کے کنارے زمین پر جاپڑتی ہیں اور وہیں دم توڑ دیتی ہیں۔ کبھی تو کئی مچھلیاں ایک ساتھ اس طرح خود کشی کرلیتی ہیں۔ وہیل کی یہ خصلت بخاری شریف کی حدیث سے صاف ظاہر ہوتی ہے کیونکہ بغیر کسی کوشش اور مہم کے حضرت ابوعبیدہ کی فوج کو یہ مچھلی خود بخود میسر ہوگئی جو یقینا خودکشی کی غرض سے ساحل سمندر پر آن لگی ہوگی۔
عنبر بنام وہیل کو عام طور سے مچھلی کہتے ہیں کیونکہ یہ سمندر ہی میں پائی جاتی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کا اصل مچھلیوں سے کوئی بھی تعلق نہیں ہے۔ درحقیقت وہیل کا شمار دودھ دینے والے جانوروں میں ہوتا ہے جن کو میمل (Mammal) کہا جاتا ہے۔ سمجھا جاتا ہے کہ کئی لاکھ سال قبل وہیل زمین پر ہی بستے تھے لیکن بعد میں اپنے بڑھتے ہوئے وزن اور جسامت کی بنا پر سمندر میں تیرتے رہنا ان کوزیادہ آسان معلوم ہوا تو وہ سمندر ہی میں رہنے لگے لیکن میمل ہونے کی بنا پر ان کو ناک سے سانس اب بھی لینا پڑتی ہے جس کے لئے وہ ہر بیس سے پچاس منٹ بعد سمندر کی سطح پر آتے ہیں۔
سرمئی عنبر ((Ambergrisایک مومی مادہ (Tropical) سمندر کے ساحلوں پر تیرتا ہوا پایا جاتا ہے، جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ سپرم وہیل(Sperm Whale)کی آنتوں میں پیدا ہوتا ہے،اور آنتوں میں پیدا شدہ زخموں کو مندمل کرنے میں مدد کرتا ہے، اسطرح یہ مادہ وھیل کے زخموں کے لئے (Antibiotic) کا کام کرتا ہے اور پھر جب وھیل یہ محسوس کرتی ہے کہ اسکے زخم پوری طور سے مندمل ہو گئے ہیں تو وہ سارے مادہ کو اگل دیتی ہے اور یہ مادہ سمندر کے کھارے پانی سے مل کر کالے موم کی شکل اختیار کر لیتا ہے جسے ماہر تیراک جمع کر لیتے ہیں۔ سمندر میں تیرتے ہوئے ہی اس کالے مادہ میں خوشبو پیدہ ہو جاتی ہے
کہا جاتا ہے کہ وہیل میں زخم اسکویڈ (Squid)نامی مچھلی کھانے کی بنا پر ہوتے ہیں جسکے کانٹے اور تیر کے مانند پیر وہیل کی آنتوں کو زخمی کر دیتے ہیں۔
احادیث میں جس عنبر کا ذکر ہوا ہے وہ دراصل سرمئی عنبر تھا نہ کہ سنہرا عنبر۔ اس ضمن میں چند اھادیث اسطرح ہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مردانہ خوشبو لگاتے تھے۔ مشک اور عنبر (حدیث،مسکۃ النعنبر)۔ (راویہ حضرت عائشہؓ۔ نسائی)
l کوئی ریشم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتھیلی سے نرم اور کسی بھی مشک وعنبر (حدیث۔ مسکۃ ولا عبیرہ) کی خوشبو آپؐ کی خوشبو سے بڑھ کر نہ تھی۔ (راوی، حضرت انس بن مالکؓ،بخاری، مسلم)
2 ہم پتے کھاکر وقت گزارنے لگے۔ پس سمندر نے ہمارے لئے ایک مچھلی باہر پھینک دی،جس کو عنبر (حدیث۔ العنبر) کہا جاتا ہے۔ تو ہم (تین سو سواروں کا قافلہ) پندرہ روز تک اس میں سے کھاتے رہے۔ (راوی۔ حضرت جابر بن عبداللہؓ، بخاری، مسلم)
3 رسولؐ اللہ نے فرمایا : ’’مردوں کے لئے خوشبو وہ ہے جس کی بو معلوم ہو لیکن رنگ نہ ہو‘‘۔ (راوی، حضرت ابو ہریرہؓ،نسائی)
۔ انگریزی کی ڈکشنریاں عنبر (Amber) کو سنہری رگ کا ایک سخت مادّہ بتاتی ہیں۔ عنبر کا یہی مفہوم بائبل کی کتاب اسکائیل کی تین آیات سے بھی ظاہر ہوتا ہے جہاں عنبر کی سنہری رنگت کا ذکر ہواہے۔
۔ نباتات سے حاصل کردہ عنبر اصل میں وہ معدنی گوند ہے جو بالٹک سمندر کے جنوبی ساحلوں میں معدنی شئے کے طور پر دستیاب ہوتا ہے۔ یہ چیٹر کی ذات کے پودے (Pines) سے نکلا ہوا تارپین تھا جو لاکھوں سال قبل زمین پر جمع ہوگیا اور معدنی گوند کی شکل اختیار کرکے سخت ہوگیا۔ اس کا پتہ حضرت عیسیٰ کے دور سے بہت قبل ہی مصر کے لوگوں نے لگالیا تھا۔ سولہویں صدی کے بعد اس کے ذخائر بڑے پیمانے پر دریافت کئے گئے۔ یہ عنبر یورپ میں بہت مقبول ہوا۔ یہ خوشبودار بھی تھا اور سخت اور سنہرا ہونے کے بنا پر مختلف مصنوعات کے بنانے میں کام آتا تھا۔ یورپ کے رئوسا اس کا سگار بنواتے تھے۔ شہزادیاں اس سے بنا زیور پہنتی تھیں۔یوں تو عنبر آج بھی میسر ہے لیکن اس کے ذخائر تقریباً ختم ہوچکے ہیں۔ یورپ کے بازاروں میں آج کل ایک کلو عنبر کی قیمت تقریباً دس ہزار ڈلر یعنی تقریبا نو لاکھ روپئے بتائی جاتی ہے۔بعض عنبر ہیروں سے زیادہ قیمتی سمجحے جاتے ہیں۔معدنی عنبر میں کسی چیز کو کھینچنے کی طاقت ہوتی ہے۔ رگڑنے سے اس میں کرنٹ سا پیدا ہوجاتا ہے۔ اسی لئے غالباً فارسی کے بعض مستند لغات میں عنبر کے معنی کہربا کے دیئے گئے ہیں۔ پرانے اعتقاد کی رو سے عنبر سے بنا تعویذ محبوب کو اپنی طرف متوجہ کرنے اور رغبت پیدا کرنے کے لئے بڑا کارآمد سمجھاتا تھا۔
یہ بتانا تو مشکل ہے کہ مصر، عرب اور روم وغیرہ میں سنہرا عنبر پہلے درافت ہوا یا سیاہ عنبر لیکن ایک بات یقینی ہے کہ سیاہ عنبر کو حاصل کرنے میں میں عرب کے لوگ بڑی مہارت رکھتے تھے۔ سنہرے عنبر کی تجارت مصر یونان اور روم میں بڑے پیمانے پر ہوتی تھی جبکہ سیاہ عنبر کے مراکز ایران، مصر اور عراق میں ہوا کرتے تھے۔ فی زمانہ معدنی ذخائر کے ختم ہونے اور عنبر مچھلی کی تعداد بری طرح گھٹنے کی بنا پر دونوں اقسام کے عنبر کی تجارت تقریباً ختم ہوگئی ہے اور اس کی جگہ مصنوعی عنبر نے لے لی ہے یا بعض خوشبودار لکڑیوں کے کوئلوں کو بھی عنبر کا نام دے کر ان کی تجارت کی جاتی ہے۔
انگریزی اُردو اور فارسی میں عنبر کا لفظ ادیبوں اور شاعروں کے لئے دلفریبی کا باعث رہا ہے حالانکہ انگریزی میں یہ دلفریبی عنبر کی خوشبو اور سنہرے پن کی بنا پر ہے جبکہ اُردو اور فارسی میں خوشبو اور سیاہی کی وجہ سے ہے۔ عنبریں، عنبر آگیں، عنبر آلودہ، عنبر بار، عنبرپوش، عنبردان اور گیسو عنبر وغیرہ نہ جانے کتنی تشبیہات ہیں جو اُردو اورفارسی ادب کا حصہ ہیں۔ اُردو شاعری میں گیسو عنبر سے مراد مہکتے کالے بالوں کی لی جاتی ہے جبکہ انگریزی شاعری میں خوشبودار سنہری زلفوں کو گیسو عنبر سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ۔سرمئی عنبر کی تجارت ہندوستان سمیت بہت سے ممالک میں ممنوع ہے حالانکہ اسکی غیر قانونی تجارت کے واقعات اکثر بتائے جاتے ہیں
مچھلی سے پیدا شدہ عنبر پر بو علی سینا نے تفصیل سے روشنی ڈالی ہے اسی لئے کئی طبی ادویات کا عنبر اہم جز ہے
نوٹ: واضح رہے کہ معدنی عنبر( امبر) کومعدنی ہیرا ((Diamond کی طرح تراشہ جاتا ہے اور زیورات میں استعمال کیا جاتا ہے۔ تاہم، اعنبر زیادہ درجہ حرارت میں پگھلتا ہے اور جل جاتا ہے جبکہ ہیرے پر زیادہ درجہ حرارت کا کوئی اثر نہیں ہوتا ہے۔