برطانیہ میں مسیحی آبادی گھٹ گئی، مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ
مسیحی عبادت گاہ یارک کے آرچ بشپ ا سٹیفن کوٹریل کہتے ہیں کہ یہ کوئی ’زیادہ حیرت‘ کی بات نہیں ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ آبادی میں مسیحیوں کا تناسب کم ہو رہا ہے۔
لندن: برطانیہ میں مردم شماری کے جاری اعداد و شمار کے مطابق پہلی بار برطانیہ اور ویلز میں 13 فیصد کمی کے بعد مسیحی برادری کے افراد کی تعداد ملک کی نصف آبادی سے کم رہ گئی ہے۔
ڈان میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ نے بتایا کہ برطانیہ کے پہلےہند نژاد برطانوی وزیراعظم رشی سوناک کے وزیراعطم بننے کے کچھ ماہ بعد 2021 میں کی گئی 10 سالہ مردم شماری رپورٹ میں مسلمانوں کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
قومی شماریات کے دفتر (او این ایس)نے کہا ہے کہ برطانیہ میں مسیحیوں کے مقابلے کوئی بھی مذہب عام نہیں ہے۔
مسیحی عبادت گاہ یارک کے آرچ بشپ ا سٹیفن کوٹریل کہتے ہیں کہ یہ کوئی ’زیادہ حیرت‘ کی بات نہیں ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ آبادی میں مسیحیوں کا تناسب کم ہو رہا ہے۔ مصارف زندگی کے بحران اور یورپ میں جنگ کے پیش نظر لوگوں کو اب بھی روحانیت کی ضرورت ہے۔
گرجا گھر انگیلیکن کے پادری نے کہا ہے کہ کئی معاملات میں ہم ان کے ساتھ موجود ہوں گے، انہیں غذا فراہم کرتے رہیں گے جبکہ کرسمس پر لاکھوں لوگ اب بھی ہماری خدمات کے لیے آئیں گے۔
غیر مذہب افراد کے حقوق کے لیے مہم شروع کرنے والے برطانیہ میں انسانی مدد کے گروہ نے بتایا کہ حکومت کو مقاصد حاصل کرنے کے لیے بورڈ پالیسی مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پوری دنیا میں صرف ایران ہی وہ ملک ہے جس کی قانون سازی میں علماؤں کی ووٹنگ کی جاتی ہے اور کوئی ایسا ملک نہیں جہاں (غیر مذہب) اسکولوں میں مسیحیوں کی عبادت لازمی ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ مردم شماری کے نتائج خبردار کرتے ہیں کہ ہمیں معاشرے میں مذہب کے کردار کے حوالے سے دوبارہ نظر ثانی کی ضرورت ہے۔
برطانیہ اور ویلز میں 2 کروڑ 75 لاکھ افراد یا 46.2 فیصد لوگوں نے اپنے آپ کو مسیحی کہا ہے، 2011 کے مقابلے میں پوائنٹس کے اعتبار سے اس میں 13.1 فیصد کمی ہوئی ہے۔کوئی بھی مذہب 12 پوائنٹس سے بڑھ کر 37.2 فیصد یا 2 کروڑ 22 لاکھ افراد تک اضافہ ہوا جبکہ مسلمان 39 لاکھ جو آبادی کا 6.5 فیصد حصہ ہے۔
خیال رہے کہ اس سے قبل برطانیہ میں مسلمانوں کی آبادی شرح 4.9 فیصد تھی اس طرح اسلام سب سے تیزی سے پھیلنے والے مذہب کے طور پر سامنے آیا۔
دوسرے درجے پر سب سے عام جواب ’ہندو‘ تھا جس کی آبادی 10 لاکھ تھی، اس کے بعد سکھ (5 لاکھ 24 ہزار) جبکہ بدھ مت کو ماننے والے لوگوں کی تعداد یہودیوں سے زیادہ ہوگئی ہے یعنی 2 لاکھ 71 ہزار یہودیوں کے مقابلے میں بدھ مت کو ماننے والوں کی تعداد 2 لاکھ 73 ہزار ہوگئی ہے۔
برطانیہ کے وزیراعظم رشی سوناک کے ترجمان نے مردم شماری پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے صحافیوں کو بتایا کہ ’یقینی طور پر برطانیہ متنوع ثقافت کا حامل ملک ہے اور اس کو ہم خوش آمدید کہتے ہیں جہاں ہر طرح کے مذہب کے لوگ رہتے ہیں۔
سابق وزیراعظم لزٹرس کے مستعفیٰ ہونے کے بعد رشی سوناک برطانیہ کے پہلے ہند نژاد وزیراعظم منتخب ہوئے تھے، 24 اکتوبر کو رشی سوناک برطانیہ کے وزیراعظم کے لیے اس وقت منتخب ہوئے جب دیوالی کا تہوار تھا، جس کے اگلے دن انہوں نے 10 ڈاؤننگ اسٹریٹ میں دیوالی کی تقریب بھی منعقد کی۔
رشی سوناک کے آباؤ اجداد کا تعلق غیر منقسم ہند کے صوبہ پنجاب سے تعلق ہے اور سال 1960 میں انہوں نے مشرقی افریقہ سے برطانیہ ہجرت کی تھی۔
رشی سوناک نے برطانوی اخبار ’دی ٹائمز‘ میں انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ’چانسلر ہونے کی حیثیت سے ڈاؤننگ اسٹریٹ میں دیوالی کی تقریب منعقد کرنے کے قابل ہوا ۔
قومی شماریات کے دفتر (او این ایس) نے گزشتہ سال کی گئی مردم شماری کا ایک حصہ جاری کیا ہے جو مذہب اور نسلی شناخت کو ظاہر کرتا ہے، اس کے علاوہ اسکاٹ لینڈ اور شمالی آئرلینڈ کا ڈیٹا جاری ہونا ابھی باقی ہے۔