ڈاکٹر فہمیدہ بیگم کی قیادت میں جامعہ عثمانیہ میں اردو کے تحفظ کی مہم — صحافیوں، ادبا اور اسکالرس متحد، حکومت و یو جی سی پر دباؤ میں اضافہ
ادبی حلقوں میں یہ سوال شدت سے اٹھ رہا ہے کہ کیا ہم نے نواب میر عثمان علی خان کے اس خواب کی حفاظت کی، جس کی بنیاد پر جامعہ عثمانیہ قائم ہوئی تھی؟ کیا ہم نے اس ادارے کی روح کو زندہ رکھا، جس نے ہمیں علمی و تہذیبی پہچان عطا کی؟
حیدرآباد: جامعہ عثمانیہ میں اردو کے بگڑتے ہوئے حالات نے ریاست بھر کے صحافیوں، ادبا، محققین اور اسکالرس کو ایک پلیٹ فارم پر یکجا کر دیا ہے۔ اس جدوجہد کی قیادت ڈاکٹر فہمیدہ بیگم، صدر عثمانیہ یونیورسٹی اورینٹل اردو اسکالرس اسوسی ایشن، حیدرآباد، تلنگانہ کر رہی ہیں، جنہوں نے اردو کے تحفظ اور جامعہ میں اس کے کھوئے ہوئے مقام کی بحالی کے لیے ایک مضبوط اور منظم مہم کا آغاز کیا ہے۔ اس مہم کا دباؤ اب یو جی سی اور ریاستی حکومت تک مسلسل بڑھ رہا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ تحریک صرف اردو دان طبقے کی نہیں بلکہ ملک کی علمی کثرتِ رائے (Pluralism) کے تحفظ کی جنگ ہے۔ تلخ مگر ناقابلِ انکار حقیقت یہ ہے کہ جب تک اردو سے محبت کرنے والے لسانی، تنظیمی اور مسلکی اختلافات سے اوپر نہیں اٹھیں گے، جامعہ عثمانیہ میں اردو کو اس کا اصل مقام نہیں مل سکے گا اور نہ ہی زبان کو وہ وقار حاصل ہوگا جس کی وہ حقدار ہے۔
ڈاکٹر فہمیدہ بیگم اور دیگر اسکالرس کا کہنا ہے کہ اردو کا تحفظ صرف مشاعروں، جلسوں یا جذباتی نعروں سے ممکن نہیں، بلکہ اس کے لیے ادارہ جاتی مضبوطی ضروری ہے—اور جامعہ عثمانیہ اسی مضبوطی کی سب سے بڑی علامت تھی۔ مگر افسوس کہ آج اسی جامعہ کے شعبہ اردو میں ایک بھی مستقل فیکلٹی موجود نہیں، جسے ماہرین نہ صرف انتظامیہ کی ناکامی بلکہ ہماری اجتماعی بے حسی قرار دے رہے ہیں۔
ادبی حلقوں میں یہ سوال شدت سے اٹھ رہا ہے کہ کیا ہم نے نواب میر عثمان علی خان کے اس خواب کی حفاظت کی، جس کی بنیاد پر جامعہ عثمانیہ قائم ہوئی تھی؟ کیا ہم نے اس ادارے کی روح کو زندہ رکھا، جس نے ہمیں علمی و تہذیبی پہچان عطا کی؟
ڈاکٹر فہمیدہ بیگم نے واضح کیا ہے کہ اگر ہم نے اب اتحاد کا مظاہرہ نہ کیا تو اردو زبان ہی نہیں بلکہ ہماری تاریخ، تہذیب اور شناخت بھی خطرے میں پڑ جائے گی۔
یہ صرف ایک نوحہ نہیں بلکہ ایک مضبوط دعوتِ عمل ہے۔ آج فیصلہ ہم سب کے ہاتھ میں ہے — کیا ہم صرف ماضی پر فخر کریں گے یا مستقبل کی ذمہ داری بھی اٹھائیں گے؟