یوروپ

فلسطینی ریاست کے قیام کیلئے 15 ماہ کا وقت طے۔نیویارک کانفرنس کا اعلامیہ جاری، 2 ریاستی حل کے فارمولہ پر تمام ممالک متفق۔ 

نیویارک میں  2 ریاستی حل کانفرنس منعقد ہوئی جس کے شرکاء نے اسرائیل۔ فلسطین تنازعہ کو 2 ریاستی حل کی بنیاد پر ختم کرنے کی ضرورت پر اتفاق کیا۔یہ بات کانفرنس کے حتمی بیان کے مسودہ سے معلوم ہوئی۔

   نیویارک: نیویارک میں  2 ریاستی حل کانفرنس منعقد ہوئی جس کے شرکاء نے اسرائیل۔ فلسطین تنازعہ کو 2 ریاستی حل کی بنیاد پر ختم کرنے کی ضرورت پر اتفاق کیا۔یہ بات کانفرنس کے حتمی بیان کے مسودہ سے معلوم ہوئی۔

7 صفحات پر مشتمل یہ اعلامیہ اس ہفتہ اقوامِ متحدہ میں سعودی عرب اور فرانس کی میزبانی میں ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس کا نتیجہ ہے۔ امریکہ اور اسرائیل نے اس کا بائیکاٹ کیا۔مسودہ میں کہا گیا کہ جنگ‘قبضہ اور نقلِ مکانی سے امن قائم نہیں ہو سکتا‘ 2 ریاستی حل ہی اسرائیلیوں اور فلسطینیوں دونوں کی امنگوں کو پورا کرنے کا واحد راستہ ہے اور اسرائیل کے شانہ بشانہ امن سے رہنے والی ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام پر زور دیا گیا۔

کانفرنس کے شرکاء  نے کہا ہے کہ وہ 2ریاستی حل کو عملی جامہ پہنانے کے لیے مقررہ وقت پر اقدامات کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔ انہوں نے فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے 15 ماہ کا وقت مقرر کیا ہے۔مسودہ میں فلسطینیوں اور اسرائیلیوں دونوں کے لیے ایک قابلِ عمل مستقبل کو یقینی بنانے کی اہمیت پر زور اور خبردار کیا گیا ہے کہ 2 ریاستی حل کے بغیر تنازعہ مزید گہرا ہو جائے گا۔

اس میں اسرائیل سے 2ریاستی حل کے لیے اعلانیہ عہد کرنے کا بھی مطالبہ کیا گیا۔اس میں فلسطینیوں کی جبری نقلِ مکانی کو مسترد کرنے کی ضرورت کو نمایاں کرتے ہوئے اسرائیل پر زور دیا کہ وہ فلسطینیوں کے خلاف تشدد اور اشتعال انگیزی ختم کرے۔مسودہ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ غزہ میں جنگ اب ختم ہونی چاہیے اور یہ نوٹ کیا گیا کہ شرکاء نے غزہ جنگ کے خاتمہ کے لیے اجتماعی اقدامات پر اتفاق کیا۔

7  اکتوبر 2023 کو حماس کے حملوں اور شہریوں کے خلاف اسرائیلی حملوں کی مذمت کرتے ہوئے زور دیا گیا کہ حماس تمام اسرائیلی قیدیوں کو رہا اور غزہ میں اپنی حکمرانی ختم کر دے۔ اس میں یہ بھی نوٹ کیا گیا کہ بین الاقوامی قانون کے تحت یرغمال بنانا ممنوع ہے۔مسودہ میں غزہ میں بھوک کو جنگی ہتھیار کے طور پر مسترد کرنے پر زور دیتے ہوئے مطالبہ کیا گیا کہ غزہ پٹی میں انسانی امداد کی فوری اور بلا تعطل ترسیل ہونی چاہیے۔

مسودہ میں اس بات کی تصدیق کی گئی کہ شرکاء غزہ کی تعمیرِ نو کے لیے ایک وقف فنڈ کے قیام کی حمایت کرتے ہیں اور اقوامِ متحدہ اور بین الاقوامی اداروں کو غزہ کی تعمیرِ نو کی کوششوں میں مدد کے لیے وسائل فراہم کرنے چاہئیں۔مسودہ میں مزید کہا گیا کہ فلسطینی اتھاریٹی کے زیرِ انتظام غزہ میں فوری طور پر ایک عبوری کمیٹی قائم کی جائے اور غزہ کی تعمیرِ نو کے لیے عرب منصوبہ پر فوری عمل درآمد کی حمایت کا اظہار کیا گیا۔

اس میں فلسطینی اتھاریٹی کے تحت ایک ریاست اور ایک مسلح فوج کے اصول کا خیرمقدم کیا گیا اور حماس کو مکمل طور پر غیر مسلح کرنے اور اس کے ہتھیار فلسطینی سیکوریٹی فورسس کے حوالہ کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔مسودہ میں فلسطینی صدر کے ایک سال کے اندر عام انتخابات کے انعقاد کے عزم کا بھی خیر مقدم کیا گیا۔ علاوہ ازیں اس بات پر زور دیا گیا کہ غزہ فلسطینی ریاست کا لازمی حصہ ہے اور اسے مغربی کنارہ کے ساتھ متحد ہونا چاہیے۔

مسودہ میں اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ انروا کا کردار اس وقت ناگزیر ہے اور مزید کہا کہ پناہ گزینوں کے بحران کا منصفانہ حل طے ہوجائے تو انروا اپنی خدمات فلسطینی اتھاریٹی کے حوالہ کر دے گی۔سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے 2 ریاستی حل سے متعلق بین الاقوامی کانفرنس کی اختتامی دستاویز کی منظوری کا اعلان کردیا ہے۔

یہ جامع دستاویز سیاسی‘ سیکوریٹی‘ انسانی‘ اقتصادی اور قانونی نکات پر مشتمل ہے جو مسئلہ فلسطین کے پرامن حل اور خطہ میں امن و استحکام کے قیام کے لیے قابلِ عمل فریم ورک فراہم کرتی ہے۔شہزادہ فیصل نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 79 ویں اجلاس کے اختتام سے قبل اس دستاویز کی حمایت پر زور دیا اور سعودی و فرانسیسی مشنوں کو باضابطہ طور پر آگاہ کیے جانے کی اہمیت اجاگر کی۔

یہ بیان نیویارک میں مسئلہ فلسطین کے پرامن حل اور 2 ریاستی فارمولہ کے نفاذ سے متعلق بین الاقوامی کانفرنس کے دوسرے اور آخری روز دیا گیا جو سعودی عرب اور فرانس کی مشترکہ قیادت میں منعقد ہوئی۔ اسی تناظر میں شہزادہ فیصل بن فرحان نے اس امر پر زور دیا کہ کئی ممالک‘ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے خواہش مند ہیں اور یہ حق فلسطینی عوام کا جائز اور قانونی حق ہے۔

انہوں نے کہا کہ 2 ریاستی حل ایک عالمی اتفاق رائے کی عکاسی کرتا ہے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں‘ عرب امن منصوبہ اور ”زمین کے بدلے امن“ کے اصول کے مطابق اس حل کا عملی نفاذ ہی مسئلہ فلسطین کے خاتمہ کی راہ ہموار کرے گا۔