چین نے دنیا کا تیز ترین انٹرنیٹ لانچ کر دیا، ایک سیکنڈ میں 150 فلموں کی ڈاؤن لوڈنگ کی صلاحیت
چینی کمپنیوں نے دنیا کے تیز ترین انٹرنیٹ نیٹ ورک کی نقاب کشائی کی ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ یہ 1.2 ٹیرا بِٹ فی سیکنڈ کی رفتار سے ڈیٹا منتقل کر سکتا ہے۔

بیجنگ: چینی کمپنیوں نے دنیا کے تیز ترین انٹرنیٹ نیٹ ورک کی نقاب کشائی کی ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ یہ 1.2 ٹیرا بِٹ فی سیکنڈ کی رفتار سے ڈیٹا منتقل کر سکتا ہے۔
ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ کے مطابق یہ رفتار انٹرنیٹ کے موجودہ بڑے ذرائع سے دس گنا زیادہ بتائی جاتی ہے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہ منصوبہ سنگھوا یونیورسٹی، چائنا موبائل، ہواوے ٹیکنالوجیز اور سرنیٹ کارپوریشن کے درمیان تعاون کے ذریعہ پایہ تکمیل کو پہنچایا گیا ہے۔
اس کا نیٹ ورک چین میں3,000 کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے جو بیجنگ، ووہان اور گوانگ زو کو ایک وسیع آپٹیکل فائبر کیبلنگ سسٹم کے ذریعے جوڑتا ہے اور اس میں حیرت انگیز طور پر 1.2 ٹیرا بِٹس (1,200 گیگا بٹ) فی سیکنڈ کے حساب سے ڈیٹا منتقل کرنے کی صلاحیت ہے۔
اس کے مقابلے میں دنیا کا موجودہ تیز ترین انٹرنیٹ نیٹ ورک بیک بون صرف 100 گیگا بِٹس فی سیکنڈ کی رفتار سے کام کرتا ہے۔ یہاں تک کہ ریاستہائے متحدہ امریکہ نے حال ہی میں 400 گیگا بٹس فی سیکنڈ کے حساب سے اپنی پانچویں نسل (فائیو جی) کے انٹرنیٹ2 پر منتقلی مکمل کی ہے۔
قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ بیجنگ-ووہان-گوانگ زو کنکشن چین کے مستقبل کے انٹرنیٹ ٹیکنالوجی انفراسٹرکچر کا حصہ ہے، جو ایک دہائی پر محیط اقدام ہے اور قومی چائنا ایجوکیشن اینڈ ریسرچ نیٹ ورک (سرنیٹ) کا تازہ ترین اعادہ ہے۔
اسے اگرچہ جولائی میں فعال کردیا گیا تھا تاہم پیر کو اس کی باضابطہ لانچنگ عمل میں آئی۔ نیٹ ورک نے تمام آپریشنل ٹیسٹوں کو پیچھے چھوڑ دیا اور قابل اعتماد کارکردگی کا مظاہرہ کررہا ہے۔
یہ سمجھنے کے لیے کہ نیٹ ورک واقعی کتنا تیز ہے، ہواوے ٹیکنالوجیز کے نائب صدر وانگ لی نے وضاحت کی کہ یہ ‘صرف ایک سیکنڈ میں 150 ہائی ڈیفینیشن (ایچ ڈی) فلموں کے برابر ڈیٹا منتقل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
دریں اثنا، چائنیز اکیڈمی آف انجینئرنگ کے پروجیکٹ لیڈر ووجیان پنگ نے بتایا کہ سوپر فاسٹ لائن نہ صرف ایک کامیاب آپریشن ہے بلکہ چین کو اس سے بھی تیز انٹرنیٹ بنانے کے لئے جدید ٹیکنالوجی فراہم کرتا ہے۔