ایشیاء

چین کی جوابی کارروائی ،امریکہ پر لگایا 84فیصد اضافی ٹیرف

حال ہی امریکہ کی طرف سے چین پر 50فیصد کا اضافی محصول عائد کیاگیاتھا جس کے بعد چین پر عائد کیاجانے والا مجموعی محصول 104فیصد ہوگیاتھا۔

بیجنگ: دنیا کی دوسب سے بٹری معیشتوں یعنی نمبر ایک امریکہ اور نمبر دو چین کےدرمیان تجارتی جنگ میں مزید شدت آتی جارہی ہے اور اب چین نے امریکہ کے نافذ کردہ اضافی محصولات کے جواب میں اس پر 84 فیصد اضافی ٹیرف عائد کردیاہے ۔

متعلقہ خبریں
ہند۔چین معاہدہ کی تفصیلات منظرعام پر لائی جائیں: راشدعلوی
249واں جشنِ آزادی امریکہ: دنیا کی قدیم جمہوریت کا سفر اور ہند-امریکہ تعلقات کی مضبوطی
چین کی بادشاہت کے ساتھ پیرس اولمپکس کا اختتام
مالدیپ کے صدر کاچین اور ہندوستان سے اظہار تشکر
امریکہ کا ایٹمی ہتھیاروں کی تعداد میں اضافے کا فیصلہ

حال ہی امریکہ کی طرف سے چین پر 50فیصد کا اضافی محصول عائد کیاگیاتھا جس کے بعد چین پر عائد کیاجانے والا مجموعی محصول 104فیصد ہوگیاتھا۔

رپورٹ کے مطابق امریکی صدرنےچینی درآمدات پرفروری اورمارچ میں 10۔10 فیصدڈیوٹی عائد کی تھی ، امریکی اضافی محصولات پر چین نے10 اپریل سے امریکی مصنوعات پر 34 فیصد جوابی ٹیرف کا اعلان کیا جس کے بعد جوابی ٹیرف کےاعلان پرٹرمپ نے چین پرمزید 50 فیصد محصولات عائد کیے۔

چین نے امریکہ کی طرف سے عائد کردہ 104 فیصد ٹیرف کا جواب دیتے ہوئے امریکہ پر 84 فیصد اضافی ٹیرف عائد کر دیا ہے۔چین کی وزارت خزانہ نے امریکہ سے آنے والی تمام اشیا پر یہ اضافی ٹیرف لگانے کا اعلان کیا ہے۔

وزارت کا کہنا ہے کہ یہ نئے ٹیرفز چین کے مقامی وقت کے مطابق 10 اپریل کی صبح 12.01 بجے سے لاگو ہوں گے۔

امریکہ کی طرف سے عائد کردہ 104 فیصد ٹیرف پر چینی صدر شی جن پنگ نے کہا ہے کہ امریکی ٹیرف کا مقابلہ کرنے کے لیے چین کو اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط کرنا چاہیے۔

چین کے سوشل میڈیا پر جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ ’’ ہم مشکلات کا باعث نہیں بنتے، لیکن ہم مشکلات سے خوفزدہ بھی نہیں ہیں۔ چینی عوام دباؤ اور دھمکیوں کو پسند نہیں کرتے‘‘۔

بیان میں اس بات کا بھی اعادہ کیا گیا کہ چین آخری دم تک لڑے گا، ساتھ ہی یہ بھی واضح کیا کہ بات چیت کا چینل ابھی بھی کھلا ہے۔

اس میں کہا گیا، ’’ چین نہ تو کمزور ہو گا اور نہ ہی جھکے گا۔ ہم دنیا کو دکھائیں گے کہ ہم بین الاقوامی تجارت کے قوانین کا مضبوطی سے دفاع کریں گے۔‘‘

چین نے پہلے ہی یہ واضح کردیاہے کہ وہ امریکہ کی بلیک میل کرنے کی پالیسی کے آگے نہیں جھکے گا۔