صاف صفائی اور ہم
حضرت ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: پاکیزگی نصف ایمان ہے۔ (صحیح مسلم534)
اسانغنی مشتاق رفیقی، وانم باڑی
حضرت ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: پاکیزگی نصف ایمان ہے۔ (صحیح مسلم534)
مذکورہ بالا حدیث سے شاید ہی کوئی کلمہ گو واقف نہیں ہوگا۔ یہ حدیث مکتب میں چھوٹے بچوں کوازبر کرایا جاتا ہے۔ واعظ اور خطیب حضرات اپنے وعظ اور خطبوں میں اس کا ذکر کرتے رہتے ہیں۔ مسلم دانشور اپنے مضامین میں اس حدیث کو بڑے فخر کے ساتھ پیش کرتے ہیں کہ دیکھئے ہمارا مذہب پاکی اور صفائی کو کتنی اہمیت دیتا ہے۔ لیکن صد افسوس زمین پر اس پر عمل جتنا کم ہمارے لوگوں میں ہوتا ہے اتنا شاید ہی کسی دوسری قوم میں ہوتا ہو۔
جس طرح ہم یہ جانتے ہوئے بھی کہ جھوٹ بولنا، غیبت کرنا، گالی دینا اور ہجو اڑانا،کردار کشی کرنا، شراب پینا، سود لینا، جوا کھیلنا،چوری کرنا، ڈاکہ ڈالنا، دھوکہ دینا،لواطت اور زنا کرنا، بدترین گناہوں اور حرام میں شمار ہوتے ہیں، ہم میں سے اکثر ان افعال بد میں مبتلا رہتے ہیں اور پوری ڈھٹائی سے اس کو عادت بنائے ہوئے ہیں اور اس پر ہمیں کوئی شرمندگی بھی نہیں ہوتی، بلکل اسی طرح ہم اس حدیث کو بھی پس پشت ڈال کر اپنے اطراف و اکناف ماحول کو صاف صفائی سے عاری اور اتنا گندہ، بدبودار اور غلیظ رکھتے ہیں کہ دیکھتے ہی پتہ چل جاتا ہے یہ فلاں لوگوں کو محلہ ہے۔ ممکن ہے اکا دکا انگلی میں گننے لائق لوگ اس حدیث پر عمل کرتے ہوئے مل جائیں مگر عام طور پر ہمارے یہاں زمینی حوالے سے اس حدیث پر عمل بالکل نہیں ہوتا۔
بات چیت کی حد تک اس موضوع پر بحث کرنے اور اس کو میدان میں نافذ کرنے کے لئے لائحہ عمل بنانے والے تو بہت مل جائیں گے مگر اس پر خود عمل کرنے والے بلکل اسی طرح ملیں گے جس طرح حقوق نسواں پر گھنٹوں بولنے والے جب خود کی بہن بیوی کی باری آتی ہے تو بے شرم ہوکر تاویلیں پیش کرنے والے یا قوم کے نوجوانوں کو تعلیم یافتہ بنانے کی فکر پر زور دار جذباتی تقریریں کرنے والے جب ان سے اس مدمیں انفرادی مدد اور رہنمائی مانگی جاتی ہے تو بات کترا کر فرار ہوتے ہوئے ملتے ہیں۔ یہاں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ہمارے درمیان صرف ظاہری صاف صفائی ہی نہیں باطنی صاف صفائی بھی بدترین زوال کا شکار ہوچکی ہے اور ہم اخلاقی انحطاط کے ایک ایسے دور میں داخل ہوچکے ہیں جہاں سے ہمارا بدترین انجام بالکل صاف نظر آرہا ہے۔
پاکی صفائی آج کے دور کا ایک بنیادی مسئلہ ہے۔ حفظان صحت کے لئے جتنی اس کی ضرورت ہے وہیں یہ کسی بھی معاشرے کی اخلاقی اور تہذیبی پہلوؤں کو بھی اجاگر کرتی ہے۔ ماحول کو خوشنما بنانا اپنے اطراف و اکناف کو گندگی اور بدبو سے پاک و صاف رکھنا، معاشرے کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے۔یہ سوچ کہ صاف صفائی حکومت اور شہری انتظامیہ کی ذمہ داری ہے ایک حد تک صحیح ہے لیکن اس معاملے میں کچھ ہمارے بھی فرائض ہیں۔ صاف صفائی کے لئے انتظامیہ کی جانب سے جو عملہ مامور ہے انہیں آسانیاں مہیا کرنا، کچروں کو جیسا وہ کہیں اس طرح ان کے حوالے کرنا ضروری ہے، راستوں یا نکڑ پر کچروں کا ڈھیر لگا کر یا نالی میں کچرا انڈیل کر صاف صفائی کے عملہ کو کوسنا بڑی غلط بات ہے۔
اکثر دیکھا جاتا ہے کہ ہمارے محلوں میں ہر نکڑ پر کچروں کا ڈھیر لگا رہتا ہے۔ گندے پانی کی نالیوں میں بھی اتنا کچرا پڑا رہتا ہے کہ پانی بہتا ہی نہیں۔ ان سب کی وجہ سے مچھروں کی بہتات ہوجاتی ہے اور ماحول میں بھی گندی بو پھیلی رہتی ہے۔ کیا ہمارا فرض نہیں بنتا کہ ہم اس میں سدھار کی کوشش کریں۔ پہلے اپنے گھر سے اس طریقے سے کچرا اور گندگی پھیلانے سے گریز کرتے ہوئے،پھر اگر ہمیں لگتا ہے کہ گلی اور محلے میں رہنے والے ایسا کرتے ہیں انہیں پیار و محبت سے ایسا کرنے سے روکیں اور اس کے بعد اگر انتظامیہ کا عملہ اس معاملے میں کوئی کوتاہی برت رہا ہے تو اعلی حکام کے درمیان اس بات کو اٹھاکر اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کریں۔
انتظامیہ میں ہمارے چنے گئے کونسلر صاحبان بھی ہوتے ہیں، انہیں اس مسئلے کی طرف توجہ دلائیں اور انہیں اپنے فرائض جس کا انہوں نے انتخابات کے وقت وعدہ کیا تھا یاد دلائیں۔ مونسپل کمشنر اور چیرمین کو راست اس مسئلے کی آگہی دے کر انہیں حل کرنے کے لئے کہیں۔اگر پھر بھی ماحول جوں کا توں رہتا ہے تو وزیر اعلیٰ کو خط روانہ کرکے صورت حال سے واقف کراکر انہیں اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے کہیں۔ صاف ستھرا ماحول قائم رکھنا جس طرح ہماری ذمہ داری ہے اس طرح ہمارے لئے ایسا ماحول مہیا کرانا اور اس پر نگرانی رکھنا حکومت کا فرض بھی ہے۔ بات چھوٹی صحیح لیکن تمام مسائل کی جڑ گندگی اور غلاظت کے انبار ہی ہیں۔ اگر ان کی بر وقت صفائی نہ ہوئی تو بیماریاں پیدا ہوں گی، ان کے علاج کے لئے پیسوں کی ضرورت پڑے گی، اور یوں معاشی مجبوریاں جو معاشرے میں پنپنے والے تمام جرائم کی جڑ ہوتی ہے،معاشرے کو برباد کرکے رکھ دے گی۔
اکثر شہر کے نئے آباد ہونے والے محلوں میں انتظامیہ کی طرف سے شروع میں ہی گندے پانی کے نالے نہیں بنائے جاتے۔ جس کی وجہ سے سارا گندہ پانی گلی اور سڑکوں میں بہتا رہتا ہے، اور اگر بارش ہوجائے تو پھر راستہ اتنا گندا ہوجاتا ہے کہ جانور بھی بچ بچا کر چلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے محلے میں لاکھوں روپئے خرچ کرکے گھر بنانے والے اگر چاہیں تو اپنی گلی کے مکینوں کو جوڑ کر رقم اکٹھا کر کے خود سے گندے پانی کی نکاسی کا انتظام نالے بنا کر کر سکتے ہیں لیکن کوئی ایسا نہیں کرتا، ہاں انتظامیہ سے گلہ کرتے برابر نظر آئیں گے۔ رہی انتظامیہ کی بات تو یاد رکھیں اس کی کچھ مجبوریاں بھی ہوتی ہیں۔
شہر کے مساجد میں جمعہ کے دن خطیب حضرات اگر اس معاملے پر مسلسل بولنے لگیں تو امید ہے ماحول میں سدھار آسکتا ہے۔ شہر کے سیاسی لیڈران، سماجی کارکنان، عمائدین اور دانشور حضرات کو چاہئے کہ صاف صفائی کے اس مسئلے کو حقیر سی کچرے کی بات کہہ کر ٹالنے کے بجائے اس کی سنجیدگی کو محسوس کریں۔ اس کی وجہ سے نہ صرف نئی نئی بیماریاں پیدا ہورہی ہیں بلکہ شہر کا امیج بھی خراب ہورہا ہے۔ خالی خولی بحث کرنے کے بجائے اس مسئلے سے جڑے تمام لوگوں کو جوڑ کر اس کا کوئی معقول حل تلاش کریں یا ایسا کوئی لائحہ عمل ترتیب دیں جس پر چل کر ماحول کو صاف ستھرا رکھنے میں آسانی ہو۔ یاد رکھیں جب تک آپ کا ظاہر صاف ستھرا نہ ہو گا آپ بھلے سے باطنی طور پر کتنا ہی اپنے آپ کو صاف ستھرا باور کرائیں دنیا آپ کو گندہ، ناپاک اور غلیظ ہی سمجھے گی۔ اللہ ہمیں سمجھ دے۔
٭٭٭