کرناٹک
ٹرینڈنگ

ہائیکورٹ کے جج کا بنگلورو کے مسلم علاقہ کو ’’ منی پاکستان‘‘ قراردینے پر تنازعہ (ویڈیو وائرل)

جسٹس سری شنندا نے کہا، "میسور روڈ فلائی اوور پر جائیں، ہر آٹو رکشے میں 10 لوگ سوار ہوتے ہیں۔ یہ اصول لاگو نہیں ہوتا کیونکہ گوری پالیہ سے مارکیٹ کی طرف جانے والا حصہ پاکستان میں ہے، ہندوستان میں نہیں۔ یہ حقیقت ہے۔

بنگلورو: کرناٹک ہائی کورٹ کے جسٹس ویدا ویاساچار سری شنندا کی جانب سے بنگلورو کے ایک مسلم اکثریتی علاقہ کو ’پاکستان‘ سے تشبیہ دینے والے بیان نے شدید عوامی غم و غصے کو جنم دیا ہے۔ یہ متنازعہ بیان ایک عدالتی سماعت کے دوران سامنے آیا، جہاں جج نے بنگلورو کے گوری پالیہ علاقے کا ذکر کرتے ہوئے اسے ’پاکستان‘ قرار دیا۔

متعلقہ خبریں
الیکشن کمیشن کو شکایات کی کوئی پروا نہیں: کمارا سوامی
وقف بورڈ کا ریکارڈ روم مہر بند کرنے کا معاملہ، ہائیکورٹ جج سے تحقیقات کا مطالبہ
کمیشن نے چامراج نگر سیٹ پر دیا دوبارہ پولنگ کا حکم
پاکستان میں ججس کے قافلہ پر حملہ، 2پولیس عہدیدار ہلاک
کنگنا رناوت نے 2سال بعد ورک آؤٹ شروع کیا ، ویڈیو وائرل

عدالتی کارروائی کے دوران جسٹس سری شنندا نے کہا، "میسور روڈ فلائی اوور پر جائیں، ہر آٹو رکشے میں 10 لوگ سوار ہوتے ہیں۔ یہ اصول لاگو نہیں ہوتا کیونکہ گوری پالیہ سے مارکیٹ کی طرف جانے والا حصہ پاکستان میں ہے، ہندوستان میں نہیں۔ یہ حقیقت ہے۔ کوئی کتنا ہی سخت پولیس افسر کیوں نہ ہو، وہاں جا کر اسے مارا جائے گا۔”

یہ بیان ایک ویڈیو میں قید کیا گیا، جو سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکا ہے اور اس کے بعد جج کے اس بیان پر شدید تنقید کی جا رہی ہے۔ بہت سے سوشل میڈیا صارفین نے اس بیان پر حیرت اور تشویش کا اظہار کیا ہے، خاص طور پر اس لیے کہ یہ بیان ایک ایسے جج کی جانب سے آیا ہے جسے آئین کی پاسداری کا ذمہ دار سمجھا جاتا ہے۔

بنگلورو کی معروف سماجی کارکن برندا آڈیگے نے اس بیان کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا، "ایک جج کے لیے جو عہدہ عزت اور ذمہ داری کا تقاضا کرتا ہے، اس طرح کا بیان ناقابل قبول ہے۔ یہ شخص کرناٹک ہائی کورٹ میں کیسے برقرار رہ سکتا ہے؟ یہ ایک سرکاری ملازم ہے جسے ہمارے آئین نے اختیارات دیے ہیں۔ اس سرکاری ملازم کو معطل کیا جانا چاہیے۔”

ایڈوکیٹ سنجوی گھوش نے بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا، "ایک ہندوستانی آئینی عدالت کا جج، اپنے ہم وطنوں کو مذہبی بنیاد پر پاکستانی قرار دے رہا ہے! یہ حیران کن ہے۔”

اگرچہ یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر شیئر کی جا رہی ہے، لیکن یہ واضح نہیں کہ جج نے یہ بیان کب اور کس سیاق و سباق میں دیا تھا۔ تاہم، اس بیان نے ملک بھر میں بحث چھیڑ دی ہے اور عدلیہ کے کردار پر سوالات اٹھا دیے ہیں۔

a3w
a3w