مضامین

سائبرفراڈ: لوٹنے کے نت نئے طریقے

حیدرآبادجو ایک آئی ٹی ہب بھی ہے، اب سائبر کرائمز کے بڑے مراکز میں سے ایک کے طور پر ابھررہا ہے۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو این سی آر بی کے جاری کردہ اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ 2020 میں ملک کے کل سائبر فراڈز میں تلنگانہ کا حصہ 10 فیصد تھا۔

حیدرآبادجو ایک آئی ٹی ہب بھی ہے، اب سائبر کرائمز کے بڑے مراکز میں سے ایک کے طور پر ابھررہا ہے۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو این سی آر بی کے جاری کردہ اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ 2020 میں ملک کے کل سائبر فراڈز میں تلنگانہ کا حصہ 10 فیصد تھا۔این سی آر بی کی طرف سے جاری کردہ کرائم ان انڈیا-2020 رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2019 میں 2,691 کیسس سے سائبر کرائمز کی تعداد 2020 میں 5,024 تک پہنچ گئی، جو کہ فی لاکھ آبادی میں 13.4 کیسس کی شرح سے ہے۔2021 کے دوران تلنگانہ میں سائبر کرائم میں د گنا اضافہ دیکھا گیا۔ سال کے دوران سائبر کرائم کے کل 8,828 کیسز رپورٹ ہوئے۔ ان میں سے 5,833 بڑے جرائم تھے جبکہ 1,191 معاملے آن لائن دھوکا دہی کے تھے۔

کسٹمر کیئر فراڈ، ایڈورٹائزمنٹ پورٹل فراڈ، جاب فراڈ، لون فراڈ، اور بینک سے متعلقہ فراڈ کو بڑے جرائم کے طور پر درجہ بندی کی گئی تھی۔ دیگر جرائم میں آن لائن دھوکا دہی، سائبر اسٹاکنگ، فشنگ، اور فحش مواد شامل ہیں۔ پولیس کے مطابق، زیادہ تر گھوٹالوں میں یونیفائیڈ پے منٹ انٹرفیس (یو پی آئی) اسکیمیں شامل ہیں، جس میں دھوکا دہی کرنے والے متاثرین کو ادائیگی حاصل کرنے کے لیے کیو آر کوڈز اسکین کرنے کی تلقین کرتے ہیں اور پھر انہیں پیسے بھیجنے کا فریب دیتے ہیں۔

ڈیجیٹل دورکے آغاز سے فاصلے سمٹ گئے ہیں لیکن ہرسہولت اتنے سستے میں دستیاب ہونے لگے تواس پربہت سے برے اثرات بھی باآسانی داروہونے لگتے ہیں۔ کچھ شرپسند ذہنوں نے انٹرنیٹ جیسی سہولت کا منفی استعمال کرتے ہوئے اسے برابناڈالا، تصاویر کی چوری اوران کے غلط استعمال سے لے کر ہزاروں قسم کے فراڈ ہورہے ہیں۔

7جون 2022، بی بی سی نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق پونا کے رہنے والے راج نے مارچ میں جب قرض لیا، تو اس نے سوچا کہ اس سے اس کے مالی مسائل تیزی سے حل ہو جائیں گے، اس کے بجائےقرض نے اس کی زندگی کو بہت بدتر بنا دیا ۔ پونے میں مقیم اس شخص کو ہندوستان کے بہت سے ڈیجیٹل لون گھوٹالوں میں سے ایک میں پھنسایا گیا تھا۔بہت سے لوگوں کی طرح، راج (اس کا اصلی نام نہیں)، قرض کی منظوری کے فوری اور آسان عمل سے اس جانب راغب ہواتھا۔ اسے بس اپنے فون پر ایک ایپ ڈاؤن لوڈ کرنا تھی اور اہل ہونے کے لیے اپنے شناختی کارڈ کی کاپی فراہم کرنا تھی۔

اسے جلدی سے کچھ رقم مل گئی – لیکن اس کی درخواست کردہ رقم کا صرف آدھا۔ صرف تین دن بعد کمپنی نے اس سے مطالبہ کرنا شروع کر دیا کہ وہ اس سے تین گنا رقم واپس کر دے، جتنا انہوں نے اسے قرض دیا تھا۔ اس کے قرضوں میں اضافہ ہوا کیونکہ اس نے پہلی ادائیگی کے لیے دیگر فینانس ایپس سے قرض لیا تھا۔ بالآخر، راج پر 33 مختلف ایپس میں پھیلے ہوئے لاکھوں روپیوںسے زیادہ کا مقروض تھا۔ان ایپس کو چلانے والے بہت سے لوگوں نے اسے واپسی پر دھمکیاں دینا شروع کر دیں لیکن وہ پولیس کے پاس جانے سے بہت خوفزدہ تھا۔ایپس چلانے والے لوگوں نے اس کے فون پر موجود تمام رابطوں اور اس کی تصاویر تک رسائی حاصل کی اور دھمکی دی کہ وہ اس کی بیوی کی عریاں تصاویر اس کے فون پر موجود ہر کسی کو بھیجیں گے۔

دھوکے بازوں کو ادائیگی کے لیے اس نے اپنی بیوی کے تمام زیورات بیچ دیے ہیں، لیکن کہتے ہیں کہ وہ اب بھی خوفزدہ ہے۔راج کہتے ہیں، "مجھے نہیں لگتا کہ وہ مجھے جانے دیں گے۔ میں اپنی جان سے خوفزدہ ہوں۔ مجھے ہر روز دھمکی آمیز کالز اور پیغامات موصول ہوتے ہیں۔”

ہندوستان میں، اس قسم کی موبائل فون فراڈس بہت عام ہو گئے ہیں۔یکم جنوری 2020 اور 31 مارچ 2021 کے درمیان، ریزرو بینک آف انڈیا کے ایک مطالعہ نے 600 غیر قانونی قرض دینے والے ایپس کی نشاندہی کی ہے۔

چونکہ اب ہر شخص سوشل میڈیا استعمال کرتا ہے تو اس وجہ سے آن لائن فراڈ زیادہ ہورہے ہیں ۔ آپ کسی بھی سوشل میڈیا فورم پر چلے جائیں وہاں بہت سی متاثر کن پوسٹس نظرآئیں گی جیسے گھر بیٹھے لاکھوں روپے کمائیں ،بے روزگارتوجہ دیں وغیرہ وغیرہ۔ بہت سے لوگوں نے تواس کا م کے لئے باقاعدہ ویب سائٹس بھی بنائی ہوئی ہیں، جہاں کسی کونہ توملازمت ملتی ہے اورنہ گھربیٹھے بٹھائے لاکھوں روپے کمائے جاسکتے ہیں البتہ اتنا ضرور ہوتا ہے کہ یہ لوگ مختلف طریقوں سے آپ کی جیب خالی ضرورکردیتے ہیں۔ اس میں کال سنٹرزسب سے آگے ہیں جوملازمت دینے کے بہانے اورسکیورٹی کے نام سے بے روزگاروں سے اچھی خاصی رقم ہتھیالیتے ہیں۔

یوٹیوب چینلز،اخبارات اوررسائل کی نمائندگی کے نام پربھی لوگوں سے رقم ہتھیائی جاچکی ہے۔ موبائل کمپنیوں کا بیلنس ڈبل کرنے کے چکر میں لوگ اپنا سارا بیلنس بھی لٹابیٹھتے ہیں۔ اس طرح ملکی اورغیر ملکی کمپنیاں اپنی پروموشن کیلئے ایک لنک دے دیتی ہیں کہ اس پرتفصیلات موجود ہیں۔ لوگ لنک کھولتے ہیں مگرمجال ہے کسی کو ایک سوئی بھی انعام میں ملتی ہو۔ ہم میں سے زیادہ ترلوگ انعام کے لالچ میں یہ لنک بلاسوچے سمجھے دوسروں کو فارورڈ کرتے جاتے ہیں۔ واٹس ایپ پرطرح طرح کے لنک آتے ہیں جن کے ذریعے اسے آسانی سے ہیک کرلیاجاتا ہے۔ اے ٹی ایم اور کریڈٹ کارڈ کے پن کوڈ چوری یاہیک کرکے لوگوں کے بنک اکاؤنٹ خالی ہورہے ہیں۔ ہر دوسرے تیسرے دن موبائل پرمسیج ملتا ہے کہ آپ کا اے ٹی ایم کارڈ بلاک ہوگیا ہے اس نمبر پرکال کریں۔ جو لوگ کال کرلیتے ہیں بس پھر وہ اپنا اکاؤنٹ خالی کرالیتے ہیں۔

ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ آپ کو کسی اجنبی کی کال آجائے کہ’’ میں کسی کو پیسے بھیج رہا تھا لیکن غلطی سے اس کاکوڈ آپ کو آگیا ہے،مہربانی کرکے وہ کوڈ مجھے بھیج دیں۔ ‘‘یہ شخص اپنی کئی طرح کی مجبوریاں بھی بتائے گا تاکہ آپ کی ہمدردی حاصل کرسکے۔آپ سوچتے ہیں کہ بیچارہ کوڈ ہی مانگ رہا ہے، کونسا اس نے پیسوں کا مطالبہ کیا ہے لیکن جیسے ہی کوئی غلطی سے کوڈ بھیج دے ،پھر اسے اپنی حماقت کا اندازہ ہوتا ہے کہ اس کا اکاؤنٹ خالی ہوچکا ہے یا موبائل نمبر ہیک ہوچکا ہے۔ ان پڑھ کیا انتہائی تعلیم یافتہ خواتین اورلڑکیوں سمیت باقاعدہ کال گرلز نے گینگ بنائے ہوئے ہیں جوسوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں کو بیوقوف بناکر ان سے رقم بٹورتی ہیں۔ ان میں سے کئی خواتین باقاعدہ لوگوں کو کئی طریقوں سے بلیک میل کرکے اوران پرجھوٹے الزامات کے ذریعے لاکھوں روپے حاصل کرتی ہیں۔ چھوٹے بڑے شہروں اورقصبات میں ایسے گروہ بھی کام کررہے جو بتاتے ہیں کہ فلاں ہاؤسنگ اسکیم میں قرعہ اندازی کے ذریعے آپ کا پلاٹ نکلا ہے، اتنی رقم دیں گے تو پلاٹ کے کاغذات آپ کو ملیں گے۔ لوگ لالچ میں آکر ایسے نوسربازوں کے باتھوں آسانی سے لٹ جاتے ہیں۔آن لائن ملازمت کی طرح آن لائن شادیوں کے نام پر بھی گھروں کے گھرلٹ چکے ہیں۔

سائبرکرائم انٹرنیٹ کے ذریعے کی جانے والی وہ غیر قانونی سرگرمی ہے جس کے تحت مجرم کمپیوٹر، لیپ ٹاپ یاکسی ڈیوائس کے ذریعے کسی بھی شخص کا ڈیٹا،معلومات یاحساس نوعیت کے کاغذات چرالے ،ان میں ردوبدل کردے، سسٹم ہیک کردے، یاپھر کسی کو دھمکی آمیز پیغامات دے۔ سائبرکرائم کی اصطلاح میں کمپیوٹر ،ڈیجیٹل آلات اورانٹرنیٹ کے دائرے میں شمار کی جانے والی اوراستعمال ہونے والے نیٹ ورکس کے ذریعے شروع کی جانے والی کوئی بھی غیر قانونی سرگرمی شامل ہوسکتی ہے۔ اس میں آن لائن بینک سے لاکھوں روپے چوری کرنے سے لے کر سائبر صارفین کو ہراساں کرنا اوران کا پیچھا کرنا بھی شامل ہے۔

جب بھی کوئی شخص سائبرکرائم یاکسی اور فراڈ کا شکار ہوتا ہے،تووہ پولیس یا پھر سائبر کرائم ونگ کا رخ کرتاہے لیکن اس کے مسائل کا حل آسانی سے دستیاب نہیں ہوتا…پولیس کی لاپرواہی تو مشہور ہے ہی،ویسے بھی سائبر کرائم کے مجرمین کو پکڑنا اتنا آسان بھی نہیں ہوتا ہے ۔سنا ہے کہ سائبر کرائم کے بے شمار کیس زہرالتواء ہیں۔ متاثر ہ لوگ حیران ہوتے ہیں کہ اس جدید ترین دورمیں بھی متعلقہ ادارے ملزمان تک نہیں پہنچ پاتے حالانکہ موبائل سم اوردیگر ڈیٹا تمام اداروں کے پاس موجود ہوتا ہے جس کے ذریعے ملزمان تک پہنچنا بہت آسان ہوتا ہے لیکن یہ سب اسی وقت ممکن ہے جب ہر شخص ایمانداری اورذمہ داری سے کام کرے گا۔
٭٭٭