سیاستمضامین

پہلے مرحلے سے دوسرے تکرنگ بدلتا آسماں

ڈاکٹر سلیم خان

مودی سرکار کی الٹی گنتی شروع ہوچکی ہے۔ لوک سبھا کی 543 سیٹوں کے لیے سات مرحلوں میں ووٹنگ ہونی ہے اور آخری مرحلہ یکم جون کو ہوگا ۔ اس کے بعد ووٹوں کی گنتی 4 جون کو ہوگی تاکہ یہ فیصلہ ہوسکے کہ کون بنے گا وزیر اعظم ؟ ایوانِ پارلیمان کے انتخابات کا پہلے مرحلہ میں 19؍اپریل کو 21 ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کی 102 پارلیمانی نشستوں پر الیکشن ہوا اور اس میں تقریباً 65 فیصد ووٹنگ ہوئی تھی ۔ دوسرے مرحلے میں شام 5 بجے تک ڈالے گئے ووٹ کا جو فیصد کا اوسط بھی 66فیصد رہا جو بی جے پی کے لیے اچھی خبر نہیں ہے۔پہلے مرحلے میں 16.63 کروڑ ووٹروں نے کل آٹھ مرکزی وزراء کو ووٹ دیا جن میں مرکزی وزیر نتن گڈکری، کرن رجیجو، ارجن رام میگھوال، دو سابق وزرائے اعلیٰ اور ایک سابق گورنر سمیت 1605 امیدواروں کے انتخابی مستقبل کا فیصلہ کیا گیا۔
لوک سبھا انتخابات 2024 کادوسرے مرحلہ میں 26؍ اپریل کو کیرالہ سے 20، کرناٹک سے 14، راجستھان سے 13، مہاراشٹر اور اتر پردیش سے آٹھ، مدھیہ پردیش سے چھ، آسام اور بہار سے پانچ، چھتیس گڑھ اور مغربی بنگال میں تین تین جبکہ جموں و کشمیر، منی پور اور تریپورہ میں ایک ایک سیٹ پر انتخابات ہوئے ۔ اس انتخابی عمل میں 1206 امیدوار وں کے اندر ایک کانگریس کےرہنما راہل گاندھی بھی تھے۔ ان کے علاوہ تین مرکزی وزراء اور دو سابق وزرائے اعلیٰ کی ساکھ بھی داؤ پر لگی ہوئی تھی ۔ راجستھان کے دو سابق وزرائے اعلیٰ کے بیٹوں کی قسمت کا فیصلہ 26 اپریل کو ہوچکا اب اعلان کا انتظار ہے۔
پہلے مرحلے میں چونکہ زیادہ تر نشستیں تمل ناڈو کی تھی جہاں بی جے پی مفقود ہے اور انڈیا و این ڈی اے کے بیچ برابری کی ٹکر تھی مگر دوسرے مرحلے میں معاملہ شمالی ہندوستان کے اندر آگیا ہے۔ یہاں پر بی جے پی اوراس کے حامی کانگریس سے تین گنا زیادہ سیٹوں پر کامیاب ہوئے تھے۔2019 انتخاب میں 52 سیٹیں بی جے پی کو حاصل ہوئی تھیں جو آزاد اراکین پارلیمنٹ کی شمولیت کے بعد 54 ہو گئی۔ کانگریس کو دوسرے مرحلہ کی 88 سیٹوں میں سے 18 سیٹیں اور شیوسینا و جنتا دل یو کو 4-4 سیٹیں ملی تھیں۔ بقیہ 10 سیٹیں دیگر جماعتوں کے حصے میں چلی گئی تھیں۔ یہی وجہ ہے اس مرحلے میں مودی جی فکرمندی زیادہ ہے کہ کہیں کوئی خسارہ نہ ہوجائے۔پہلے مرحلے کی مانند شمال مشرق کی چھوٹی ریاستوں مثلاً تریپورہ و منی پور میں سب سے زیادہ 77 فیصد اور 76 فیصد ووٹ ڈالے گئے۔ ان ریاستوں کو دوچار امیدواروں سے قومی سطح پر حکومت سازی میں کوئی خاص اثر نہیں ہوتا۔
آسام اسی خطے کا ایک صوبہ ہے جہاں 70.66 فیصدپولنگ بی جے پی کے لیے اچھی خبر ہو سکتی ہےلیکن مغربی بنگال میں 71.84 فیصد حق رائے دہی ٹی ایم سی کو فائدہ یعنی بی جے پی کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ چھتیس گڑھ اور جموں و کشمیر تشدد زدہ علاقہ ہیں اسے باوجود بالترتیب میں 72.13 فیصد 67.22 فیصد پولنگ خوش آئند ہے۔ اس میں کشمیر کے اندر تو بی جے پی کی دال گلنے سے رہی مگر چھتیس گڑھ میں اس بات کا امکان ہے کہ وہ پہلے والی کامیابی برقرار رکھ سکے مگر اضافے کی گنجائش وہاں بھی نہیں ہے ۔جنوبی ہند کی دونوں ریاستوں ، کرناٹک اور کیرالہ میں ٹھیک ٹھاک پولنگ ہوئی یعنی بالترتیب میں 63.90 فیصد اور 63.97 فیصد۔ کیرالہ میں تو اس بار بھی بی جے پی شاید ہی کھاتہ کھول سکے ۔ وہاں پر اصل مقابلہ کانگریس اور اشتراکیوں کا ہے۔ وہ دونوں چونکہ انڈیا کا حصہ ہے اس لیے گھی جائے کھچڑی میں اور کھچڑی جائے پیٹ میں کی کیفیت ہے۔کرناٹک میں پچھلی بار بی جے پی نے جو زبردست کامیابی حاصل کی تھی اس کے دوہرانے کا امکان مفقود ہے۔ بی جے پی نشستوں میں لازم کمی آئے گی۔
ان کے علاوہ ہندی بولنے والے صوبوں کے کچھ حلقوں میں ووٹنگ ہوئی جو بی جے پی کا گڑھ مانا جاتا ہے ۔ مدھیہ پردیش میں پچھلی بار بی جے پی نے ایک کو چھوڑ کر تمام نشستیں جیت لی تھیں وہاں 54.83 فیصد لوگوں نے ووٹ دیا ۔ اس لیے اب اس کامیابی کو دوہرانا مشکل ہوگیا ہے۔مہاراشٹر میں بھی این ڈی اے نے زبردست کامیابی درج کرائی تھی مگر اس بار شیوسینا کا اہم حصہ الگ ہوچکا ہے۔ مہاراشٹر کے مغربی ودربھ اور مراٹھواڑہ کی دونشستوں پر اوسط 53.51 فیصدی ووٹنگ بی جے پی کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ راجستھان اور بہار میں پہلے مرحلے کے مقابلے بہتری آئی لیکن ان حلقۂ انتخاب میں کشن گنج اور پورنیا ایسے علاقے ہیں جہاں مسلمانوں نے بڑھ چڑھ حصہ لیا ۔یہ بی جے پی کے لیے بھیانک خواب بن سکتا ہے۔مودی جی کی کرم بھومی اتر پردیش کے امروہہ اور میرٹھ جیسے مسلم اکثریتی حلقوں میں زیادہ جوش و خروش دکھائی دیا جبکہ متھرا حلقۂ انتخاب میں سب سے کم ووٹنگ ہوئی ۔ ویسے 52.74 فیصد اوسط بھی بہت اچھا نہیں ہے۔ ان دونوں مراحل پر نظر رکھنے والے مبصرین اس بات پر متفق ہیں کہ سنگھ پریوار کے اندر روایتی جوش و خروش کا زبردست فقدان ہے ۔ اس کے برعکس مسلمانوں اور دیگر پسماندہ طبقات میں غیر معمولی بیداری نظر آئی ۔ یہ کس حد تک نتائج کو متاثر کرے گی یہ تو وقت بتائے گا لیکن بی جے پی کی نشستیں یقیناً کم ہوں گی۔
اس مرحلے کے امیدواروں پر نگاہ ڈالیں تو آر ایس ایس جیسی کیڈر والی تنظیم کی حمایت پر منحصر بی جے پی کو تین مقامات پر فلمی اداکاروں کی محتاجی لگ گئی جبکہ کسی اور جماعت نے ایسا نہیں کیا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ سنگھ کی شاکھا میں تربیت پانے والوں کے اندر انتخاب جیتنے کی صلاحیت نہیں پیدا ہوپاتی۔ ویسے ایک خیال یہ بھی ہے کہ مودی خود سنگھ کے سیوکوں کو کنارے کرکے اپنے چنندہ لوگوں کو آگے کرتے ہیں تاکہ ان نوواردین کی وفاداری اور انحصار پوری طرح مودی کے ساتھ ہو۔ اترپردیش کے میرٹھ میں یوگی اور مودی کی ڈبل انجن سرکار کو سنگھ پریوار سے ڈرائیور نہیں ملا تو رامائن سیریل میں رام کا کردار ادا کرنے والے ارون گوول کو تین بار کے رکن پارلیمان راجندر اگروال کا ٹکٹ کاٹ کر میدان میں اتارنا پڑا۔ بی جے پی کے اس قدم سے پارٹی کے اندر ناراضی کا پھیلنا فطری ہے ۔ اس کا فائدہ اٹھانے کی سماجوادی پارٹی نے سردھنا کے رکن اسمبلی کا پرچۂ نامزدگی داخل ہوجانے کے بعد واپس کروایا اور بی جے پی رکن اسمبلی یوگیش ورما کی زوجہ سنیتا ورما کو ٹکٹ دے دیا ۔ ان دیکھنا یہ ہے رام اور سیتا یعنی ارون اور سنیتا میں سے کون کامیاب ہوکر ایوان پارلیمان میں جاتا ہے اور کسے بن باس جانا پڑتا ہے۔
متھرا میں ہیمامالنی کی عدم کارکردگی سے عوام پہلے ہی ناراض چل رہے تھے اس لیے اگروال کی طرح ان کا بھی ٹکٹ کاٹ دیا جاتا تو پارٹی راحت کا سانس لیتی اور کسی مقامی سنگھ سیوک کو سماج سیوا کا موقع دیتی مگر ایسا نہیں ہوا تو وشو ہندو پریشد کے سریش سنگھ بہوجن سماج پارٹی کے ہاتھی پر سوار ہوکر کمل کو روندنے کے لیے میدان میں آگئے۔ 2014 میں سریش سنگھ کی ٹکٹ ایسی کٹی کہ پھر بات نہیں بن سکی ۔ اس کے بعد سے وہ تقاضہ کررہے ہیں۔ ان کو خاموش کرنے کے لیے انہیں ای ڈی میں ڈپٹی ڈائرکٹر کے عہدے پر فائز کیا گیا ۔ سی بی آئی میں بھی خدمت کا موقع دیا گیا مگر آر ایس ایس کے اس پرانے سیوک کو اطمینان نہیں ہوا اور بالآخر نظم و ضبط کی تربیت کو بالائے طاق رکھ کر اس نے کمل پھینکا اور ہاتھی پر چڑھ گیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ متھرا کے لوگ کمل پر مہر لگاتے ہیں یا ہاتھی کے ساتھی بن جاتے ہیں ۔ ویسے یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس خانہ جنگی کا فائدہ اٹھاکر سائیکل آگے نکل جائے ۔
لوک سبھا کے بدنامِ زمانہ سپیکر اوم برلا کو بھی اس بار اپنی پارٹی کے باغی کو ہرانا ہے۔ ہائی کمان سے ناراض وسندھرا راجے سندھیا کے قریبی پرہلاد گنجل نے ابھی اکیس مارچ کو کمل چھوڑ کر کانگریس کا ہاتھ تھا۔ کانگریس نے انہیں ہاتھوں ہاتھ لے کر ان کے ہاتھ میں ٹکٹ تھما دیا ۔ اب دیکھنا یہ ہے بی جے پی کا یہ وِبھیشن اپنے بھائی راون کو ہرانے میں کامیاب ہوتا ہے یا ناکام ہوجاتا ہے؟ بہار کے پورنیا میں آر جے ڈی نے جے ڈی یو نکل کر اپنی پارٹی میں آنے والی نتیش کمار کی قریبی بیما بھارتی کو ان کی سابقہ پارٹی کے سنتوش سنگھ کشواہا کے خلاف میدان میں اتار دیا ہے۔ اس لیے پورنیا میں اب سہ رخی جنگ ہے ایک طرف تیر اور دوسری جانب لالٹین ہے۔ اس لڑائی کا فائدہ اٹھا کر آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخاب لڑنے والے پپو یادو بھی کامیاب ہوسکتے ہیں۔ پورنیا کے اندر پپو یاد و کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ پندرہ سال جیل میں رہنے کے باوجود پانچ مرتبہ الیکشن جیت چکے ہیں۔ اس بار انہیں کانگریس میں شامل ہونا بھی کام نہیں آیا اور بحالتِ مجبوری آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن لڑنا پڑا لیکن بعید نہیں کہ اگلی حکومت میں ان کو وزیر بنانا آئندہ مرکزی حکومت کی مجبوری بن جائے ۔ پہلے مرحلے کی عدم کارکردگی کا پرچار منتری پر یہ اثر ہوا تھا کہ وہ مسلمانوں کے پیچھے پڑ گئے اب دوسرا مرحلہ ان پر کس طرح اثرانداز ہوتا ہے یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا۔

a3w
a3w