دہلی بم دھماکہ کیس: 6 ریاستوں تک پھیلا ڈاکٹروں کا دہشت گردنیٹ ورک بے نقاب، این آئی اے کے بڑے پیمانے پر چھاپے
این آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل سدانند داتے خود اس اہم کارروائی کی نگرانی کر رہے ہیں اور اس وقت سری نگر میں موجود ہیں جہاں ڈاکٹر عادل، ڈاکٹر مجمل، ڈاکٹر شاہین اور دیگر مشتبہ افراد سے پوچھ گچھ جاری ہے۔
دہلی: دہلی کے لال قلعہ کے قریب ہوئے دھماکے کی تحقیقات نے ایک حیران کن موڑ لے لیا ہے، جہاں این آئی اے نے ڈاکٹروں پر مشتمل ایک بڑے دہشت گرد نیٹ ورک کا پردہ فاش کر دیا ہے۔ تحقیقات جموں و کشمیر سمیت چھ ریاستوں—پنجاب، اتر پردیش، ہریانہ، مدھیہ پردیش، دہلی اور جموں و کشمیر—تک پھیل چکی ہیں اور این آئی اے کی ٹیمیں مختلف مقامات پر مسلسل چھاپے مار رہی ہیں۔
این آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل سدانند داتے خود اس اہم کارروائی کی نگرانی کر رہے ہیں اور اس وقت سری نگر میں موجود ہیں جہاں ڈاکٹر عادل، ڈاکٹر مجمل، ڈاکٹر شاہین اور دیگر مشتبہ افراد سے پوچھ گچھ جاری ہے۔
اسی دوران جی ایم سی اننت ناگ کی آخری سال کی طالبہ ہریانہ کی ڈاکٹر پریانکا شرما کو بھی پولیس نے پوچھ گچھ کے لیے حراست میں لیا ہے، تاکہ یہ جانچا جا سکے کہ آیا ان کا ڈاکٹر عادل یا ڈاکٹر عمر سے کوئی تعلق تھا یا نہیں۔ اس کیس میں اب تک 15 سے زائد ڈاکٹر حراست میں لیے جا چکے ہیں جبکہ درجنوں مزید ڈاکٹر تحقیقاتی ایجنسیوں کے ریڈار پر ہیں۔
اطلاعات کے مطابق بڑی تعداد میں ڈاکٹروں کو سوشل میڈیا گروپس کے ذریعے شدت پسندی کی طرف مائل کیا گیا۔ جن افراد کو اب تک حراست میں لیا گیا ہے ان میں مغربی بنگال کے دیناج پور سے ڈاکٹر نسار عالم، مدھیہ پردیش کے بُرہانپور سے ایک ڈاکٹر، میوات سے تین ڈاکٹر، سونیہرا گاؤں کے ڈاکٹر مشتاقیم—جو چین سے ایم بی بی ایس مکمل کرکے واپس آیا اور اس وقت الفلاح میڈیکل کالج میں انٹرن شپ کر رہا ہے۔
احمد بس گاؤں کے ڈاکٹر محمد، ڈاکٹر ریحان حیات—جو الفلاح یونیورسٹی سے ایم بی بی ایس کے بعد تاوڑو کے ایک نجی اسپتال میں کام کر رہا ہے—پٹھان کوٹ سے الفلاح یونیورسٹی کا سابق ڈاکٹر رئیس احمد بھٹ، اتر پردیش کے ہاپوڑ سے ڈاکٹر فاروق، کانپور سے کارڈیالوجسٹ ڈاکٹر عارف—جو ڈاکٹر شاہین کا قریبی ساتھی رہا ہے—لکھنؤ سے ڈاکٹر پرویز، فرید آباد سے ڈاکٹر فہیم سمیت الفلاح یونیورسٹی سے وابستہ کئی ڈاکٹر اور اسٹاف ممبرز شامل ہیں۔
تحقیقات میں یہ بھی سامنے آیا ہے کہ ڈاکٹر شاہین حال ہی میں اپنا پاسپورٹ بنوانے کی کوشش میں تھی اور پولیس نے اس کی ویری فیکیشن بھی کی تھی، جس سے یہ شبہ گہرا ہو گیا ہے کہ وہ دھماکے کی سازش کے بعد بیرونِ ملک فرار ہونے کی تیاری میں تھی۔
پاسپورٹ ویری فیکیشن کے دوران لی گئی ڈاکٹر شاہین کی تصویر بھی منظرعام پر آ چکی ہے اور اب ایجنسیاں یہ جاننے کی کوشش کر رہی ہیں کہ پاسپورٹ بنوانے کا اصل مقصد کیا تھا اور کیا یہ سازش سے براہ راست جڑا ہوا تھا۔ دہلی بم دھماکہ کیس کی تفتیش جیسے جیسے آگے بڑھ رہی ہے، ایک منظم ’’سفید پوش دہشت گرد نیٹ ورک‘‘ کی حقیقی تصویر سامنے آ رہی ہے جس نے سکیورٹی ایجنسیوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔