مذہب

شوہر کی عدم موجودگی میں خلع

اگر شوہر نے ظلم کیا ہو اور ظلم اس درجہ کا ہو کہ اس کی وجہ سے فقہاء نے تفریق کی اجازت دی ہو ، تو دار القضاء میں درخواست بابت فسخ نکاح دے۔

سوال:-محمد محسن کی شادی آج سے تقریبا پانچ سال پہلے ہوئی تھی ، ادھر دو سال کے عرصہ سے انہوں نے بیوی کو بالکل چھوڑ رکھا ہے ، دوسری شادی کرلی ہے ،

پہلی بیوی کو نہ تو نان نفقہ دیتا ہے ، اور نہ اس کے پاس آتا ہے ، ان حالات میں پہلی بیوی کی خواہش یہ ہے کہ ہم خلع کرالیں ، کیا شوہر کی عدم موجودگی میں خلع ہو سکتا ہے ؟ ( سرفراز احمد، ملے پلی)

جواب:- خلع کے لئے شوہر کی رضامندی ضروری ہے :لا ولایۃ لأحدھما في الزام صاحبہ بدون رضاء ( تبیین الحقائق : ۲/۲۷۱)

البتہ اگر شوہر نے ظلم کیا ہو اور ظلم اس درجہ کا ہو کہ اس کی وجہ سے فقہاء نے تفریق کی اجازت دی ہو ، تو دار القضاء میں درخواست بابت فسخ نکاح دے ،

پھر جب قاضی شریعت تحقیق کے بعد نکاح فسخ کردے ، تو وہ دوسرا نکاح کرنے کی مجاز ہو گی :

و یتعدیہ أی الزوج علی الزوجۃ بضرب بغیر موجب شرعی و ثبت ببینۃ أو اقرار ( ولھا التطلیق ) بالتعدی اذا ثبت ( الشرح الصغیر : ۲/۵۱۲) اور اسے اپنے موجودہ شوہر سے خلاصی حاصل ہو سکے گی ۔

یہ مسئلہ امام مالک ؒ کے مسلک کے مطابق ہے ، امام ابوحنیفہ ؒ کے یہاں شوہر کی زیادتی کے بناء پر قاضی کے یہاں مقدمہ دائر کر سکتی ہے ،

اور قاضی ایسی صورت میں شوہر کی مناسب سرزنش کرے گا ، اس کی وجہ سے عورت کو طلاق کے مطالبہ کرنے کا حق حاصل نہیں ہے،

ہندوستان میں چونکہ نظام عدل مسلمانوں کے پاس نہیں ہے ، اور ان کے پاس ایسی قوت نہیں ہے ، جو ایسے لوگوں کی جسمانی سرزنش کر سکے ؛اس لئے اس کے سوا چارہ نہیں کہ اس مسئلہ میں مالکیہ کی رائے اختیار کی جائے ۔ (جدید فقہی مسائل : ۲/۱۵۴)