کیا خدا موجود ہے؟ جاوید اختر بمقابلہ مفتی شمائل ندوی کی بحث، سوشل میڈیا پر ویڈیو بڑی تیزی سے وائرل
حال ہی میں ’Does God Exist؟ ‘(کیاخداموجود ہے) کے موضوع پر معروف شاعر و مفکر جاوید اختر اور اسلامی اسکالر مفتی شمائل ندوی کے درمیان ہونے والی ایک فکری بحث نے سوشل میڈیا اور تعلیمی حلقوں میں غیر معمولی توجہ حاصل کی ہے۔
حال ہی میں ’Does God Exist؟ ‘(کیاخداموجود ہے) کے موضوع پر معروف شاعر و مفکر جاوید اختر اور اسلامی اسکالر مفتی شمائل ندوی کے درمیان ہونے والی ایک فکری بحث نے سوشل میڈیا اور تعلیمی حلقوں میں غیر معمولی توجہ حاصل کی ہے۔ اس بحث نے ایک بار پھر الحاد اور مذہب، سائنس اور ایمان، اور عقل و وحی کے درمیان جاری طویل نظریاتی کشمکش کو عوامی گفتگو کے مرکز میں لا کھڑا کیا ہے۔
یہ مباحثہ ایک ایسے بنیادی سوال کے گرد گھومتا رہا جس نے صدیوں سے انسانی سوچ کو متاثر کیا ہے، یعنی خدا کا وجود۔ دونوں مقررین نے ایک دوسرے سے بالکل مختلف نقطۂ نظر پیش کیے، جس کی وجہ سے بحث نہ صرف گہری بلکہ سنجیدہ اور فکری بھی رہی۔ اس کے باوجود گفتگو کا انداز مجموعی طور پر باوقار اور علمی رہا۔
جاوید اختر نے اس بحث میں واضح طور پر کہا کہ وہ خدا کے وجود پر یقین نہیں رکھتے۔ ان کے دلائل سائنسی عقلیت پر مبنی تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی عقیدے کو ماننے کے لیے سائنسی اور مادی ثبوت ضروری ہوتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ خدا کا تصور اس وقت پیدا ہوا جب قدیم انسان قدرتی مظاہر کو سمجھنے سے قاصر تھا۔ جاوید اختر نے سوال اٹھایا کہ اگر خدا واقعی موجود ہے تو دنیا میں ظلم، ناانصافی، تکلیف اور تشدد کیوں پایا جاتا ہے۔ ان کے مطابق مذہب اکثر سوال کرنے کی حوصلہ شکنی کرتا ہے اور اندھی تقلید کو فروغ دیتا ہے۔ ان خیالات کو آن لائن سیکولر اور الحادی حلقوں کی جانب سے خاصی پذیرائی ملی۔
اس کے جواب میں مفتی شمائل ندوی نے نہایت پُرسکون اور مدلل انداز میں خدا کے وجود کے حق میں عقلی اور فلسفیانہ نقطۂ نظر پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہر سچائی کو لیبارٹری میں ثابت کرنا ممکن نہیں۔ ان کے مطابق انسانی شعور، اخلاقیات اور عقل خود مادی پیمانوں سے بالاتر ہیں۔ انہوں نے کائنات کے نظم، توازن اور ترتیب کو ایک اعلیٰ خالق کی واضح دلیل قرار دیا اور کہا کہ خدا پر ایمان زندگی کو مقصد، اخلاقی ذمہ داری اور معنویت فراہم کرتا ہے۔ مفتی شمائل ندوی نے اس بات پر زور دیا کہ اسلام عقل کو رد نہیں کرتا بلکہ وحی کی روشنی میں عقل کے استعمال کی ترغیب دیتا ہے۔
مفتی شمائل ندوی نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ سائنس اس بات کا جواب دیتی ہے کہ چیزیں کیسے وقوع پذیر ہوتی ہیں، جبکہ مذہب اس سوال کا جواب دیتا ہے کہ وہ کیوں ہوتی ہیں۔ ان کے مطابق سائنس اور مذہب کے درمیان کوئی بنیادی تصادم نہیں، بلکہ اصل مسئلہ فہم اور توازن کا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام میں ایمان اندھا یقین نہیں بلکہ غور و فکر کے بعد کیا گیا ایک شعوری فیصلہ ہوتا ہے۔
اس مباحثے کی ایک نمایاں خوبی یہ رہی کہ دونوں مقررین نے ذاتی حملوں سے گریز کیا اور ایک دوسرے کی بات کو سنا۔ اسی وجہ سے یہ بحث جارحانہ ہونے کے بجائے فکری اور سنجیدہ رہی۔ بحث کے بعد سوشل میڈیا پر نوجوانوں کی بڑی تعداد نے اس میں دلچسپی لی۔ کچھ افراد نے جاوید اختر کے سوالات کو جرات مندانہ اور اہم قرار دیا، جبکہ بہت سے ناظرین کو مفتی شمائل ندوی کے دلائل زیادہ مضبوط اور متاثر کن محسوس ہوئے۔
مجموعی طور پر ’Does God Exist؟‘ پر ہونے والی یہ بحث جیت یا ہار کے لیے نہیں تھی، بلکہ اس کا مقصد سوچ کو بیدار کرنا، سوالات کو جنم دینا اور مکالمے کو فروغ دینا تھا۔ اس نوعیت کی علمی گفتگو معاشرے میں فکری شعور اور برداشت کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے، بشرطیکہ اسے تعصب کے بجائے کھلے ذہن کے ساتھ سنا اور سمجھا جائے۔