حجاب تنازع کے بعد ڈاکٹر نصرت پروین نے بہار سرکاری ملازمت قبول کرنے سے انکار کر دیا
بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کی جانب سے ایک سرکاری تقریب کے دوران ڈاکٹر نصرت پروین کا حجاب ہٹائے جانے کے متنازع واقعے کے بعد ڈاکٹر نصرت پروین نے بہار حکومت کی ملازمت قبول نہ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کی جانب سے ایک سرکاری تقریب کے دوران ڈاکٹر نصرت پروین کا حجاب ہٹائے جانے کے متنازع واقعے کے بعد ڈاکٹر نصرت پروین نے بہار حکومت کی ملازمت قبول نہ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ وہ 20 دسمبر کو اپنی تقرری پر جوائن کرنے والی تھیں، تاہم اس واقعے کے بعد وہ شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہیں۔
میڈیا سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر نصرت پروین کے بھائی نے کہا کہ ان کی بہن نے قطعی فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ سرکاری ملازمت قبول نہیں کریں گی۔ انہوں نے بتایا کہ خاندان کے افراد انہیں فیصلہ بدلنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر کسی اور سے غلطی ہوئی ہے تو اس کی سزا ڈاکٹر نصرت پروین کو کیوں بھگتنی پڑے؟ انہوں نے کہا کہ وہ اس وقت شدید ذہنی کرب سے گزر رہی ہیں۔
یہ واقعہ پیر کے روز اس وقت پیش آیا جب بہار حکومت کی جانب سے آیوش ڈاکٹروں کو تقرری نامے تقسیم کرنے کی تقریب منعقد کی گئی تھی۔ اس دوران وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے ڈاکٹر نصرت پروین کو تقرری نامہ دیتے ہوئے ان کے حجاب کی طرف اشارہ کیا، سوال کیا اور پھر خود ہی حجاب ہٹا دیا۔ ویڈیو میں دیکھا گیا کہ ڈاکٹر نصرت پروین اس لمحے واضح طور پر غیر آرام دہ محسوس کر رہی تھیں جبکہ آس پاس موجود کچھ لوگ ہنستے دکھائی دیے۔ نائب وزیر اعلیٰ سمرت چودھری نے وزیر اعلیٰ کو روکنے کی کوشش بھی کی، تاہم ڈاکٹر نصرت پروین کو بعد میں دوبارہ تقرری نامہ تھما کر اسٹیج سے جانے کا اشارہ دیا گیا۔
اس واقعے کے بعد شدید عوامی ردعمل سامنے آیا، جس کے نتیجے میں وزیر اعلیٰ کے گیا میں منعقدہ ایک پروگرام میں میڈیا کے داخلے پر پابندی عائد کر دی گئی۔ اس پروگرام کو جنتا دل یونائیٹڈ کے سرکاری پلیٹ فارم پر لائیو اسٹریم بھی نہیں کیا گیا۔ اس سے قبل توانائی محکمہ کی تقرری تقریب میں بھی میڈیا کو دور رکھا گیا تھا۔
اتر پردیش کے وزیر سنجے نشاد کی جانب سے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کا دفاع کرتے ہوئے دیے گئے بیانات نے بھی تنازع کو مزید ہوا دی۔ ان کے بیانات کو سوشل میڈیا پر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ اطلاعات کے مطابق بنگلورو سے تعلق رکھنے والے وکیل اویس حسین ایس نے اس معاملے میں وزیر اعلیٰ نتیش کمار کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
بعد ازاں سنجے نشاد نے ایک ویڈیو جاری کرتے ہوئے وضاحت دی کہ وزیر اعلیٰ کا مقصد صرف تصویر کو واضح بنانا تھا اور ان کے الفاظ کا مقصد کسی عورت یا مذہب کی توہین نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ اگر کسی کو ان کے الفاظ سے تکلیف پہنچی ہو تو وہ انہیں واپس لیتے ہیں، تاہم ان کی وضاحت بھی عوامی غصے کو کم کرنے میں ناکام رہی۔
اس واقعے کی سیاسی سطح پر بھی شدید مذمت کی گئی۔ سماج وادی پارٹی کی ترجمان اور معروف شاعر منور رانا کی بیٹی سمیہ رانا نے حجاب واقعے اور سنجے نشاد کے بیانات کے خلاف شکایت درج کرائی ہے۔ کیرانہ سے سماج وادی پارٹی کی رکن پارلیمنٹ اقرا حسن نے اس واقعے کو خطرناک اور غلط قرار دیتے ہوئے کہا کہ کسی خاتون کے لباس یا حجاب کو کھینچنا ہراسانی کے زمرے میں آتا ہے اور یہ محض مذہبی مسئلہ نہیں بلکہ خواتین کی عزت اور سلامتی کا سوال ہے۔
ڈاکٹر نصرت پروین کے سرکاری ملازمت قبول نہ کرنے کے فیصلے نے اس معاملے کو مزید سنگین بنا دیا ہے اور یہ واقعہ ایک بار پھر خواتین کے وقار، مذہبی آزادی اور آئینی عہدوں پر فائز افراد کے رویّے پر ایک وسیع بحث کو جنم دے رہا ہے۔