اسکولوں میں تعمیری اخراجات کے لئے بچوں سے فیس
رسول ﷺ نے بدترین مال اس کو قرار دیا ہے، جو ضرورت سے زیادہ تعمیر میں خرچ ہو، آپ ﷺ نے فرمایا کہ مسجد کے سوا ہر تعمیر مسلمانوں کے لئے وبال ہوگی :

سوال:- آج کل مسلمانوں کے زیر انتظام اسکول قائم ہورہے ہیں ، جس میں بچوں سے مختلف عنوان سے فیس کی بڑی بڑی رقمیں لیتے ہیں اور اسکول کے لئے عالیشان عمارتیں بناتے ہیں ، عمارتیں تو ہمیشہ رہیں گی ؛ لیکن ان کے اخراجات موجودہ طلبہ کے سرپرستوں کو اُٹھانے پڑتے ہیں ، اس سلسلے میں شرعی اعتبار سے صحیح طریقہ کار کیا ہوسکتا ہے ؟(محمد مرغوب، سنتوش نگر)
جواب:- رسول ﷺ نے بدترین مال اس کو قرار دیا ہے، جو ضرورت سے زیادہ تعمیر میں خرچ ہو، آپ ﷺ نے فرمایا کہ مسجد کے سوا ہر تعمیر مسلمانوں کے لئے وبال ہوگی :
کل بناء وبال علی صاحبہ یوم القیامۃ إلا مسجداً۔ (مشکوٰۃ مع المرقاۃ : ۹؍۳۷۹، حدیث نمبر: ۵۱۸۴)
ایک اور روایت میں ہے کہ ضرورت سے زیادہ تعمیر انسان کے لئے وبال ہے :
أما إن کل بناء وبال علی صاحبہ إلا مالابدمنہ ۔ (رواہ ابوداؤد ، کتاب الادب، باب ما جاء فی البناء ، حدیث نمبر: ۵۲۲۷،مشکوٰۃ مع المرقاۃ :۹؍۳۷۹)
اس لئے تعمیر میں ضرورت سے زیادہ اخراجات اور طلبہ و طالبات پر اس کا بوجھ ڈالنا جائز نہیں ہے، ہونا یہ چاہئے کہ عمارت کا ایسا نقشہ بنایا جائے، جس میں ڈیکوریشن میں زیادہ خرچ نہ ہو اور عمارت کی عمر کا اندازہ کرکے اس کو چند سالوں مثلاً بیس پچیس سالوں پر تقسیم کردیا جائے اور پھر ہر سال کے لحاظ سے اس کے اخراجات اس سال کے بچوں پر تقسیم کردئے جائیں اور اس کو ان کے لئے فیس کا حصہ بنایا جائے گا،
ایک منصفانہ طریقہ ہوگا؛ ورنہ عمارت تو اسکول کی ملکیت ہوگی ، مدتوں اس سے فائدہ اُٹھایا جائے گا اور اس کے پورے اخراجات ایک سال کے طلبہ سے وصول کئے جائیں، یہ ظلم اور استحصال ہوگا ، اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو تعلیم کے میدان میں آگے بڑھنے کی توفیق عطا فرمائیں اور عدل و انصاف پر قائم رکھیں۔