حضرت شیخ احمد سرہندیؒ: تصوف کو شریعت سے ہم آہنگ کرنے والے مصلحِ اعظم: مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری کا خطاب
حضرت مجدد الفِ ثانیؒ 971ھ (1564ء) کو سرہند (موجودہ بھارت) میں پیدا ہوئے۔ آپ کا تعلق ایک علمی اور دینی خانوادے سے تھا۔
حیدرآباد: مسجد تلنگانہ اسٹیٹ حج ہاؤز نامپلی کے خطیب و امام مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری نے اپنے خطاب میں کہا کہ اسلامی تاریخ میں کئی ایسی عظیم ہستیاں گزری ہیں جنہوں نے دین کی بگڑتی ہوئی حالت کو درست کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ انہی میں ایک نمایاں نام حضرت شیخ احمد سرہندیؒ کا ہے جو "مجدد الفِ ثانی” کے لقب سے مشہور ہیں۔
ولادت اور ابتدائی تعلیم
حضرت مجدد الفِ ثانیؒ 971ھ (1564ء) کو سرہند (موجودہ بھارت) میں پیدا ہوئے۔ آپ کا تعلق ایک علمی اور دینی خانوادے سے تھا۔ ابتدائی تعلیم اپنے والد شیخ عبدالاحادؒ سے حاصل کی اور بعد میں وقت کے مشائخ و علما سے علمِ قرآن، حدیث، فقہ، کلام اور تصوف میں کمال حاصل کیا۔
دورِ مغلیہ میں اصلاحی خدمات
مولانا صابر پاشاہ نے بتایا کہ حضرت مجدد الفِ ثانیؒ نے اس وقت اصلاحی کردار ادا کیا جب مغل دربار میں الحاد اور بدعت کو فروغ دیا جا رہا تھا، بالخصوص اکبر کے "دینِ الٰہی” نے مسلمانوں کے ایمان کو خطرے میں ڈال دیا تھا۔ ایسے حالات میں آپ نے اپنی علمی اور روحانی کاوشوں سے اسلام کے اصل عقائد و تعلیمات کو زندہ کیا۔
تصوف کی اصلاح اور شریعت پر زور
حضرت مجدد الفِ ثانیؒ نے واضح کیا کہ شریعت کے بغیر کوئی تصوف معتبر نہیں۔ آپ نے خانقاہی نظام کو رسوم پرستی سے نکال کر حقیقی اسلامی بنیادوں پر استوار کیا۔ سماع، چلہ کشی، قبور پر چراغاں اور پیروں کی تعظیم جیسے غیر شرعی امور کی تردید کی اور سنتِ نبویؐ کی پیروی پر زور دیا۔
مکتوبات اور علمی ورثہ
آپ کے "مکتوبات” ایک عظیم علمی و روحانی خزانہ ہیں، جو آج بھی اصلاحِ امت کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ ان میں دین کی تجدید، باطل افکار کی تردید اور مسلمانوں کی عملی زندگی میں قرآن و سنت کی مرکزیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
تحریکِ احیائے دین اور اثرات
حضرت مجدد الفِ ثانیؒ کی تحریک نے نہ صرف برصغیر بلکہ پورے عالمِ اسلام پر اثر ڈالا۔ اس تحریک کا عملی عکس اورنگ زیب عالمگیر کے دور میں نمایاں نظر آتا ہے۔ اورنگ زیب نے شراب و منشیات پر پابندی لگائی، غیر شرعی رسومات کو ختم کیا، طوائفوں کی سرپرستی بند کی اور "فتویٰ عالمگیری” کے نام سے فقہی ذخیرہ تیار کروایا۔ یہ سب حضرت مجدد الفِ ثانیؒ کی تحریکِ احیائے دین کا براہِ راست نتیجہ سمجھا جاتا ہے۔
وصال اور مزار
حضرت مجدد الفِ ثانیؒ 1034ھ (1624ء) میں سرہند ہی میں وصال فرما گئے۔ آپ کا مزار آج بھی مرجعِ خلائق ہے اور آپ کی حیات و خدمات اسلامی تاریخ کا ایک روشن باب ہیں۔