برطانیہ میں تین افراد کے ڈی این اے سے صحت مند بچوں کی پیدائش ، موروثی بیماریوں کا خاتمہ ممکن
مائٹوکونڈریا ہر انسانی خلیے میں پائی جانے والی ایک اہم ساخت ہے جو جسم کو توانائی فراہم کرتی ہے۔ تاہم، جب ان میں جینیاتی تبدیلی (میوٹیشن) ہوتی ہے تو اس سے شدید بیماریاں پیدا ہو سکتی ہیں، جیسے پٹھوں کی کمزوری، ذہنی نشوونما میں رکاوٹ، مرگی اور اعضا کی ناکامی۔
لندن: برطانیہ کے سائنسدانوں نے تولیدی سائنس میں ایک انقلابی پیش رفت کی ہے۔ انہوں نے تین افراد کے ڈی این اے کو استعمال کرتے ہوئے صحت مند بچوں کی پیدائش ممکن بنائی ہے، جو موروثی مائٹوکونڈریائی بیماریوں سے محفوظ ہیں۔ اس جدید آئی وی ایف تکنیک کو لندن کے نیوکاسل فیٹیلیٹی سینٹر کے ماہرین نے کامیابی سے تیار کیا۔ اس طریقۂ کار میں بچے کی حیاتیاتی ماں اور باپ کے ساتھ ساتھ ایک صحت مند خاتون ڈونر کے مائٹوکونڈریا ڈی این اے کو شامل کیا گیا، تاکہ ایسی جینیاتی بیماریاں روکی جا سکیں جو صرف ماں سے منتقل ہوتی ہیں۔
مائٹوکونڈریا ہر انسانی خلیے میں پائی جانے والی ایک اہم ساخت ہے جو جسم کو توانائی فراہم کرتی ہے۔ تاہم، جب ان میں جینیاتی تبدیلی (میوٹیشن) ہوتی ہے تو اس سے شدید بیماریاں پیدا ہو سکتی ہیں، جیسے پٹھوں کی کمزوری، ذہنی نشوونما میں رکاوٹ، مرگی اور اعضا کی ناکامی۔
سائنسدانوں نے ماں کے انڈے سے نیوکلئیس (جو 99.9 فیصد والدین کا ڈی این اے رکھتا ہے) نکال کر اسے ایک ایسی ڈونر خاتون کے انڈے میں منتقل کیا جس کے مائٹوکونڈریا صحت مند تھے۔ اس طرح تیار کردہ ایمبریو میں والدین کا نیوکلیئر ڈی این اے اور ڈونر کا مائٹوکونڈریا ڈی این اے شامل ہوتا ہے، یعنی بچے میں تین افراد کا ڈی این اے شامل ہوتا ہے۔
سائنسدانوں کے مطابق، اس عمل میں صرف 0.1 فیصد ڈی این اے ڈونر خاتون کا ہوتا ہے، جبکہ بچہ زیادہ تر اپنے حیاتیاتی والدین کی جینیاتی خصوصیات رکھتا ہے۔ یعنی شکل، عقل اور مزاج جیسے عوامل والدین سے ہی منتقل ہوتے ہیں۔
اگرچہ یہ طریقہ کار برطانیہ میں کافی عرصے سے محدود سطح پر استعمال ہو رہا ہے، لیکن اب پہلی بار یہ ثابت ہوا ہے کہ اس تکنیک سے پیدا ہونے والے بچے مکمل طور پر مائٹوکونڈریائی جینیاتی بیماریوں سے پاک ہیں۔
نیوکاسل یونیورسٹی کے محققین کے مطابق، ہر 5,000 میں سے ایک بچہ مائٹوکونڈریائی بیماری کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔ اس نئی تکنیک کے ذریعے ہر سال 20 سے 30 بچوں کو ان بیماریوں سے بچایا جا سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق، مائٹوکونڈریا صرف توانائی پیدا کرنے کے لیے نہیں بلکہ سانس لینے، کھانے کو توانائی میں بدلنے، اور جسمانی اعضاء کے فعال رکھنے میں بھی کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ اگر خلیے کا مائٹوکونڈریا کمزور ہو جائے تو دل اور دماغ جیسے اہم اعضاء کی کارکردگی متاثر ہو سکتی ہے۔