صحت

انسولین کا پودا، شوگر کنٹرول کرنے کا نیا طریقہ

تاہم کیا آپ جانتے ہیں کہ ان ادویات کے علاوہ انسولین پلانٹ کے پتے بھی ذیابیطس کے علاج میں مددگار ثابت ہوتے ہیں؟

حیدرآباد: آج دنیا بھر میں لوگ ذیابیطس (شوگر) کو کنٹرول کرنے اور اپنے خون میں شکر کی سطح کو مینیج کرنے کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ اس سلسلہ میں کئی لوگ روزانہ دوائیں لیتے ہیں تو کئی انسولین پر منحصر ہیں۔

تاہم کیا آپ جانتے ہیں کہ ان ادویات کے علاوہ انسولین پلانٹ کے پتے بھی ذیابیطس کے علاج میں مددگار ثابت ہوتے ہیں؟

حیدرآباد کے ایک سافٹ پروفیشنل موتمری سندیپ ان لوگوں میں سے ایک ہیں جو انسولین پلانٹ کی افادیت پر یقین رکھتے ہیں جس کے بعد انہوں نے اپنی شوگر پر قابو پانے کے لئے یہ پودے اپنے گھر کی چھت پر اگانا شروع کر دیئے ہیں۔

سندیپ کا دعویٰ ہے کہ وہ انسولین پلانٹ کے پتے باقاعدگی سے استعمال کررہے ہیں۔ اس طرح وہ پچھلے سات سالوں سے اپنے شوگر لیول کو کنٹرول میں رکھنے میں کامیاب رہے ہیں۔ نتیجتاً، ان کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے ذیابیطس کے لئے دوائیں لینی چھوڑ دی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ انسولین پلانٹ کو اگانے میں تقریباً چار ماہ لگتے ہیں۔ اس کے پتے نہ صرف شوگر لیول کو کنٹرول میں رکھتے ہیں بلکہ قبض، کھانسی، سردی، پھیپھڑوں کی مختلف بیماریوں اور جلد کے انفیکشن سے نمٹنے میں بھی کارآمد ثابت ہوتے ہیں۔

ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ حیدرآباد اور تلنگانہ بھر کے لوگ انسولین پلانٹ کے بارے میں پوچھنے کے لئے انہیں روز فون کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بہت سے لوگوں کو اس سے فائدہ ہوا ہے اور ان کے خون میں شکر کی سطح کنٹرول میں آچکی ہے۔

باقاعدگی سے پتے کھانے کے سلسلہ میں وہ ایک وارننگ بھی دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ لوگوں کو روزانہ صرف 2 پتوں سے زیادہ نہیں کھانا چاہئے۔ ایک پتہ صبح اور ایک پتہ شام کافی ہوگا۔

تاہم واضح رہے کہ اس پودے کی افادیت کو ثابت کرنے کے لئے تاحال کوئی سائنٹفک اسٹیڈی نہیں ہوئی ہے اور جدید ایلوپیتھی طرز علاج اس بارے میں کچھ نہیں کہتا۔  

عرف عام میں اس پودے کو اگرچہ انسولین پلانٹ کہتے ہیں تاہم انگریزی میں اسے Costus Igneus کہتے ہیں جبکہ اس کا سائنسی نام Chamaecostus cuspidatus ہے۔

(نوٹ: قارئین کی دلچسپی اور معلومات کی فراہمی کے لئے یہ خبر پوسٹ کی گئی ہے۔ اس پودے کا استعمال قارئین اپنی ذمہ داری پر کریں۔)

a3w
a3w