سیاستمضامین

بینکوں کے ساتھ دھوکہ دہی کرنے والے دوبارہ قرض حاصل کرسکتے ہیںمرکزی بینک کے جدید ہدایات۔ حکومت مہربان کیوں؟

محمد انیس الدین

اندھیر نگری چوپٹ راج‘ ملک کے تمام اداروں بشمول بینکس بھی موجودہ حکمرانی میں چوپٹ ہوگئے اور ایک بڑے عوامی سرمایہ کی دیدہ دلیری اور ڈنکے کی چوٹ پر لوٹ اور ڈاکوؤں کی ملک سے فراری اور بینکس کے قرض واپس نہ آنے کے بعد بینکنگ سیکٹر حالت نزاع میں چلاگیا اور بینکس پر سے عوام کا اعتماد ختم ہورہا ہے‘ ایسی نازک صورتحال میں RBI نے ایک سرکلر کے ذریعہ یہ ہدایات جاری کیں کہ جو افراد یا کمپنیاں سابق میں بینکس یا کسی مالی اداروں سے قرض حاصل کرکے ‘ اس کو واپس نہیں کرسکے جسے بینکنگ کی زبان میں wilful defaulter یعنی عمداً قرض ادا نہ کرنے والوں کی تعریف میں آتے ہیں‘ ان کو بینکس سے دوبارہ قرض منظور کرنے کی سہولت فراہم کی گئی ہے۔ یہ ایسے افراد اور ادارے ہیں جو قرض ادا کرنے کی بھرپوراستطاعت رکھتے ہیں‘ نئے طریقہ کار کے بموجب ڈاکوؤں سے قرض کی ادائی کا ایک سمجھوتہ ہوگا اور اس دوران ان کا قرض معاف کردیا جائے گا یا ان کو ادائی کی مہلت دی جائے گی۔ اس کی منظوری بھی بینکس کے بورڈ آف ڈائرکٹرس دیں گے جنہوں نے اس قرض کو منظور کیا تھا جو NPA کے حوالے ہوگیا۔ اس سمجھوتے کے تحت 12ماہ کا وقت گزرنے کے بعد یہ افراد یا ادارے بینکس سے دوبارہ قرض حاصل کرنے کے اہل ہوجائیں گے۔ اگر ان پر کوئی فوجداری مقدمہ بھی زیر دوراں ہو۔ آخر ہماری حکومت ان پر اتنی مہربان کیوں ہے؟ کوئی تو سوال کرے۔
ان لٹیروں کو جو عوامی سرمایہ لوٹ کر فرار ہوچکے ہیں ان کو دوبارہ قرض فراہم کرنے کے دوسرے مرحلہ کی عوامی سرمایہ کی لوٹ سمجھا جائے گا۔ آخر عوام کیوں بیدار نہیں ہورہی ہے۔
ملک میں ہر چیز الٹ ہورہی ہے اور ایسا محسوس ہورہا ہے کہ گنگا بھی الٹی بہہ رہی ہے۔ قرض کی منظوری کے کچھ قاعدے ‘ قانون ہیں جس کی نگرانی ملک کا مرکزی بینک کرتا ہے اور اس طرح قرض دینے کے بعد قرض حاصل کرنے والے فرد یا کمپنی پر بینک کے تجربہ کار ذمہ دار عہدیداروں کی جماعت باقاعدہ قرض حاصل کرنے والے پر اور اس کی کمپنی پر نظر رکھتی ہے اور اس بات کی تحقیق ہوتی ہے کہ جس مقصد کیلئے قرض حاصل کیا گیا ہے کیا اس مقصد سے ہٹ کر قرض کی رقم استعمال ہورہی ہے اور Risk Managemant کے ماہرین کی ایک جماعت قرض حاصل کرنے والے کے اکاؤنٹ کی سالانہ جانچ کرتی ہے اور اس کے علاوہ وقفہ وقفہ سے سالانہ داخلی اور خارجی آڈٹ بھی ہوتی ہے۔ سب سے اہم بات قرض کا منظور شدہ مقصد سے ہٹ کر استعمال کرنے سے قرض کے حاصل کرنے والے کی نیت کا اندازہ ہوجاتا ہے اور یہ بینکس سے دھوکہ دہی کی تعریف میں آجاتا ہے۔
ملک میں بینکوں کو دھوکہ دے کر عوامی سرمایہ کو لوٹنے کے بعد آر بی آئی جس طریقہ سے ان مجرموں کا طرفدار ہوگیا ایسی نظیر کا دنیا کے بینکنگ نظام میں ملناناممکن ہے ۔ ملک کے بینکنگ سیکٹر کے ملازمین کی طاقتور انجمنیں بھی اس تعلق سے اپنی صدا بلند کئے ہیں بلکہ آر بی آئی کو اپنے شدید احساسات 8جون2023ء کے مراسلہ کے خلاف بذریعہ میمورنڈم روانہ کئے۔ بینک یونین کا یہ استدلال ہے کہ بینک سے عمداً دھوکہ کرنے والوں سے سمجھوتہ نہ کیا جائے ‘ اس حرکت سے بینکس کے ایماندار قرض حاصل کرنے اور قرض ادا کرنے کی نیک نیت رکھنے والوں پر اس سمجھوتے کے بڑے اثرات مرتب ہوں گے اور ملک کے تمام قرض حاصل کرنے والوں کو عوامی سرمایہ لوٹنے کی ایک نظیر مل جائے گی۔
مشرق وسطیٰ کا ایک مشہور بینک جو تقریباً ڈوبنے کے قریب تھا اور اس بینک کا NPA 6بلین ریال تھا اور اس ملک کا مرکزی بینک جدوجہد کرکے بینک کو ڈوبنے سے بچایا ‘ اس بینک میںNPA کے حصول کے لئے Remedial Dept. کا قیام عمل میں آیا اور اس محکمہ نے اپنی جانفشانی سے تقریباً تمام قرض کی رقم حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی اور جو قرض کی رقم باقی رہ گئی تھی اس کو بینک کی پالیسی اور پروسیجر اور مرکزی بینک کے حکومتی قاعدے اور قانون کے مطابق Write off یعنی معاف کردیا گیا۔ اب وہ بینک جس کا نام بینک الجزیرہ ہے‘ ترقی کے منازل طے کرتے ہوئے ایک اعلیٰ مقامی بینک کے درجہ میں آگیا۔ راقم کو اس بینک میں بیس سال خدمت انجام دینے کا موقع ملا ۔
قرض حاصل کرنے والے گاہک کی خطرہ(عدم ادائی) کے حساب سے قرض کی درجہ بندی ہوتی تھی اور اس کا چوتھا درجہ Doubtfull قرض کا ہوتا تھا۔ یعنی قرض کی رقم کی وصولی انتہائی خطرہ میں آجاتی تھی۔ ایسے اکاؤنٹس پر بینک کے کریڈٹ مینیجر کی خاص نظر رہتی تھی اور اس اکاؤنٹ کو Remedial Dept کے حوالے کردیا جاتا اور قرض کی رقم کی حصولی کی ہر ممکن کوشش ہوتی۔ مشرق وسطیٰ میں بھارت کے قابل افراد بینکس کے کلیدی عہدوں پر نہ صرف فائز تھے بلکہ بینکنگ نظام کو بہتر بنانے میں نمایاں کارنامے انجام دیئے۔
آج ملک کے بینکنگ نظام پر نظر ڈالی جائے تو افسوس ہوتا ہے ‘ جس نظام کے بیرون ملک چرچے تھے آج اس ملک میں گزشتہ ایک دہے سے اس شعبہ کو جو نقصان پہنچایا گیا اس کی آزاد ہند کی تاریخ میں نظیر ملنا مشکل ہے۔ عوام پریشان ہیں کہ کیا کیا جائے؟ عوام رقومات بینکس میں جمع کراتے ہوئے خوف میں مبتلا ہیں کہ آخر یہ رقم وقت ضرورت ہم کو واپس ملے گی یا نہیں ؟ کیوں کہ ملک میں دوسرے مرحلہ کی عوامی سرمایہ کی لوٹ کا آغاز بینک کو دھوکہ دے کر عوامی سرمایہ کو لوٹ کر ملک سے فرار ہونے والوں کو ایک سمجھوتہ کے بعد عوامی سرمایہ کی دوبارہ لوٹ کی اجازت آر بی آئی کی ہدایات پر جاری ہیں۔
عوامی آگاہی اور بیداری شعور کیلئے اس بات کا ذکر بھی لازمی ہے کہ سارے عالم کے بینکنگ نظام میں قرض کی رقم عمداً ااد نہ کرنے والوں کو نہ صرف قانون کے شکنجہ میں کسا جاتا ہے بلکہ ایسے فریبیوںکی ایک فہرست تیار کی جاتی ہے جس کو Black List کا نام دیا جاتا ہے۔ اگر کسی فرد یا ادارے کا نام اس فہرست میں آجاتا ہے تو ملک کے کسی بھی بینک سے ایسا فرد یا ادارہ کسی بھی قسم کی مالی معاملت یا قرض لینے کا اہل نہیں رہتا۔ کسی بینک میں سالانہ داخلی اور خارجی آڈٹ ہوتی ہے تو آڈیٹر سب سے پہلے یہ تحقیق کرتا ہے کہ یہ فرد یا ادارہ بلیک لسٹ میں شامل تو نہیں ہے۔
عالمی بینکنگ نظام پر نگرانی کیلئے ایک کمیٹی قائم ہے اور تقریباً ہر ملک کا مرکزی بینک اس کمیٹی میں شامل رہتا ہے ۔ اس کمیٹی کا نام BASIL ہے اور ہر رکن کو اس کے قاعدے اور قانون کی پابندی لازمی رہتی ہے۔ گزشتہ ایک دہے سے ملک کے بینکنگ نظام میں نہ تو باسل کمپنی کے قوانین کا لحاظ رہا اور آربی آئی اپنی خودمختاری سے کرسکا۔ جس کے نتیجہ میں بینکنگ نظام پر سے عوامی اعتماد ختم ہوتا جارہا ہے۔
ملک کے بینکنگ نظام میں مرکزی بینک کی اس ایجاد Compromised Settelmentسے عوام پریشان ہیں۔عوام بیدار ہوں اور حکومت سے اس سمجھوتے کی سختی سے مخالفت اور 8جون2023ء کے آر بی آئی کے مراسلہ کی منسوخی کا شدت سے مطالبہ کریں ورنہ عوام کے کنگال ہونے میں کوئی شک نہیں۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰