کرناٹک

کرناٹک کانگریس کو ‘راجستھان سنڈروم’ کا خوف ستا رہا ہے

شیوکمار کے درمیان کسی ایک کے انتخاب کے لئے مخمصے کی صورتحال ہے آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے صدر ملکارجن کھڑگے کے ذریعہ منتخب ایم ایل ایز کے لیے ہوٹل کے کمرے بک کرنے اور پارٹی مبصرین کا ممکنہ دورہ اس کا اشارہ مانا جارہا ہے۔

بنگلورو: کرناٹک اسمبلی انتخابات میں شاندار کامیابی کے باوجود کانگریس کو’راجستھان سنڈروم’ کا خوف ستا رہا ہے اور وزیر اعلیٰ کے عہدے کے لیے سینئر لیڈر اور سابق وزیر اعلیٰ سدارامیا نیزریاستی کانگریس صدر ڈی کے شیوکمار کے درمیان کسی ایک کے انتخاب کے لئے مخمصے کی صورتحال ہے آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے صدر ملکارجن کھڑگے کے ذریعہ منتخب ایم ایل ایز کے لیے ہوٹل کے کمرے بک کرنے اور پارٹی مبصرین کا ممکنہ دورہ اس کا اشارہ مانا جارہا ہے۔

متعلقہ خبریں
جموں و کشمیر میں اسمبلی الیکشن کب ہوگا، کانگریس کا سوال
9 نومبر کی تاریخ گزرگئی، اتراکھنڈمیں یو سی سی لاگو نہ ہونے پر کانگریس کا طنز
ہبالی فساد کیس واپس لینے کی مدافعت: وزیر داخلہ کرناٹک
خواجہ معین الدین چشتی کی ماہانہ چھٹھی روایتی انداز میں منائی گئی
مجھے عدلیہ پر بھروسہ ہے، سچ کی ہمیشہ جیت ہوگی: سدارامیا

گو کہ پارٹی مبصرین کی آمد ایک معمول کی بات ہے لیکن اتنی بڑی جیت کے بعد بھی کچھ بے چینی دکھائی دیتی ہے۔ بطور وزیراعلیٰ کانگریس کے لئے بہتر متبادل کون ہے- سدارامیا یا شیوکمار، اس پر فیصلہ کرنے کے لئے وہ ہرایک ایم ایل اے سے فیڈبیک لینے کے لئے بنگلور میں ہیں۔

موجودہ حالات میں پارٹی ہائی کمان وزیراعلیٰ کے عہدہ کے لیے شیوکمار کی حمایت کر رہی ہے، کیونکہ انہوں نے محترمہ سونیا گاندھی سے کرناٹک کو اپنے ماتحت لانے کے لیے وابستگی ظاہر کی تھی۔

 اس کے باوجود مسٹر شیوکمار کی تاجپوشی کی راہ میں کچھ رکاوٹیں ہیں۔ منی لانڈرنگ سے متعلق عدالتی معاملات میں ان پر لٹکی تلوار انہیں پریشان کرسکتی ہے۔

اس کے علاوہ وہ گرفتاری اور قید سے بچنے کے لیے ضمانت پر ہیں۔ دوسری طرف، اگر وزیر اعلی کے طور پرانہیں عدالتوں نے واپس تہاڑ بھیج دیا، تو اس سے حکومت کی شبیہ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔

دوسری طرف، مسٹر سدارامیا کے حامی بنیادی طور پر ان حقائق کو مبصرین کے سامنے پیش کریں گے۔ اگرچہ مسٹر شیوکمار کو اعلیٰ کمان کا آشیرواد حاصل ہے لیکن تعداد کے لحاظ سے مسٹر سدارامیا مضبوط پوزیشن میں ہیں اور یہی وجہ ہے کہ کرناٹک کانگریس کو ‘راجستھان سنڈروم’ کا اندیشہ ہے۔

غورطلب ہے کہ راجستھان میں، مسٹر سچن پائلٹ کانگریس کو اقتدار میں لانے کی اپنی بھرپور کوشش کے بدلے وزیراعلیٰ گہلوت کے ساتھ باوقار عہدے کے لئے جھگڑ رہے ہیں۔ مسٹر گہلوت کے اقتدار میں آنے کے بعد اپنا حق نہ ملنے پروہ خود کو ٹھگا ہوا محسوس کررہے ہیں۔

 اس سے پہلے، کانگریس نے مدھیہ پردیش میں پارٹی کو اقتدار میں لانے کے لیے سخت محنت کرنے والے مسٹرجیوترادتیہ سندھیا کو نظرانداز کرتے ہوئے مسٹرکمل ناتھ کی تاجپوشی کردی۔ اس سے سندھیا کو بغاوت کرنے کا موقع ملا اور انہوں نے اپنے حامیوں کے ساتھ پارٹی چھوڑ کر کمل ناتھ حکومت کو گرادیا اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) میں شامل ہوگئے، جس سے انہیں مرکزی کابینہ میں ایک عہدہ اورمدھیہ پردیش کابینہ میں ان کے حامیوں کو حصے داری ملی۔